طنزیہ اور مزاحیہ مضمون : ہمارے دیسی مرد بھی کمال ہیں کہ ان کے تبصرے سے تو برطانوی شہزادی اور مستقبل کی ملکہ بھی محفوظ نہیں۔ ان کا بس چلے تو اسٹیچو آف لبرٹی کا بھی سر ڈھک آئیں اور خود باقی ماندہ بے پردہ عورتوں کو گھورتے پھریں۔
برطانوی شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ، فوٹو: رائٹرس
دیکھیے جی، کس لڑکی کو بچپن سے شہزادے شہزادی کی کہانی سننے کا شوق نہیں آتا؟ بانکا سجیلا راج کمار گھوڑے پر آتا ہے اور دلہن کو ایک نئے دیس لے جاتا ہے۔ ہر لڑکی کو اسی شہزادی میں اپنا آپ نظر آتا ہے۔ یہ چمکتے ہیروں کا تاج، خالص ریشم کی تاروں کی بنی پوشاک، چہرے پر محبت کی دھیمی سی مسکان، چمکتا چہرہ، ستارہ آنکھیں کسے نہیں چاہیے؟ رعایا اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہوتی ہے اور محل کے سامنے جوق در جوق قطار باندھے کھڑی ہوتی ہے کہ شاید شہزادی بال سکھانے کے بہانے ہی سنگ مرمر کی بالکونی پر اپنا جلوہ دکھا جائے۔
شہزادہ بھی کسی سے کم نہیں ہوتا۔ یہ اونچا لمبا چوڑے شانے والا سجیلا جوان جو ایک ہی تیر سے کئی مرغابیاں مار دے، اپنی مردانہ وجاہت سے تمام مہیلاؤں کے دلوں پر چھریاں چلا دے اور ان سب خصوصیات کے باوجود بس شہزادی کے حسن میں گرفتار رہے۔ دائیں دیکھے نہ بائیں بس اسی کے نام کی مالا جپتا جائے۔
سچ بتائیے گا…یہ زندگی کون جینا نہیں چاہے گا؟ جو نہیں جینا چاہے گا وہ کم از کم جاننا تو ضرور چاہے گا نا؟ آپ کو ہماری قسم ہے کہ دل رکھنے کے لیے ہی ہاں کہہ دیجیے۔
خدا کی ذات مسبب الاسباب ہے۔ اس کے ہاں دیر تو ہے پر اندھیر نہیں۔ ہمیں خدا نے شہزادی بننا تو نصیب نہ کیا لیکن ہمارے نصیبوں میں اس نازک اندام کا دیدار رکھ دیا۔ اور جینے کو کیا چاہیے۔ خدا بھلا کرے سوشل میڈیا کا جس نے بیٹھے بٹھائے ہمیں وہ جنتیں دکھا دیں کہ جن کی جھلک ہزاروں سال کی تپسیا کے بعد ہی ہو پاتی ہے۔
شہزادہ ولیم اور ان کی دلہن کیٹ مڈلٹن پاکستان کے پانچ روزہ دورے پر پاکستان آ چکے ہیں۔ ہمارے نصیب دیکھیے کہ ایک تو شہزادہ شہزادی وہ بھی ملکہ وکٹوریہ کی نسل سے ہمارے ہاں قدم رنجہ فرمانے تشریف لائے۔ رئیسوں کے رئیس اور خاندانی پن میں پوری دنیا میں اپنی مثال آپ جنہوں نے ہم گنہگاروں کو غلامی کا شرف بخشا آج ہمارے گھر آئے ہیں تو ہم کبھی ان کو اور کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔ بچوں کو گھر چھوڑ آئے کہ بڑا لڑکا جارج بہت شور کرتا ہے۔ بڑوں کو بات نہیں کرنے دیتا۔ ایسے لطیفے سناتا ہے کہ جن پر ہنسنے سے سفارتی تعلقات میں چھید آ سکتا ہے۔
شہزادی کیٹ مڈلٹن کوئی عام شہزادی نہیں۔ سروقد اور تلے کی ایسی تار جو دیکھنے سے ٹوٹ جائے۔ نزاکت ایسی کہ پھولوں کو شرما دے۔ شہزادی نے تو آتے ہی یوں بھی ہم سب کے دلوں میں گھر کر لیا کہ برطانیہ سے ہی شلوار قمیص پہن آئی۔ رات کا وقت تھا اس لیے دوپٹہ کی شبیہہ لیے چلی آئی۔ گھبرائی شرمائی شہزادی کیٹ مڈلٹن جہاز سے اتریں تو یوں لگا جیسے کوئی انگریز بہو اپنی پنجابی سسرال سے پہلی بار ملنے آئی ہو۔ یا جیسے لندن میں رہنے والی بہو اپنی سسرال سے اسکائپ پر بات کرتے ہوئے فوراً سیدھی ہو کر بیٹھ جائے۔ ڈپٹی نذیر احمد صاحب کے ناول کی مرکزی کردار اصغری بیگم یاد آ گئیں۔
عوام کا بس نہیں چل رہا کہ ان کی اس ادا پر اپنا تن من دھن قربان کر دیں کہ شہزادی کے کپڑے مشرقی روایات کے تقریباً مطابق ہی ہیں۔ ظاہری بات ہے وہ کیا پہنتی ہے اور کیسی دکھائی دیتی ہے یہ اس بات سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ شاہی جوڑے کے اس دورے کا مقصد کیا ہے اور وہ کن اہم پروگراموں پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے دورے میں تعلیم اور ماحولیات کا اہم ذکر ہے جس سے ہمارا کیا لینا دینا۔ آئیے شہزادی کا لباس ماپتے ہیں۔
آج بھی نیلا شلوار قمیص مع دوپٹہ عوام کے دل موہ لینے پر تلا ہوا ہے۔ تمام مردوں کو شہزادی کو دیکھ کر اپنی عورتوں میں مزید عیب نظر آ رہے ہیں کہ دیکھو جیسا دیس ویسا بھیس۔ تو صاحب، شہزادی کیٹ مڈلٹن تو کشتی بانی کے مقابلے میں شارٹس بھی پہن کر جاتی ہیں۔ کیا آپ کے ہاں ہر دیس میں بھی بدلنے کا قانون صرف گوری چمڑی پر ہی لاگو ہوتا ہے؟ ایک عورت کے جسم اور لباس کے علاوہ بھی اس کی ذات کے کئی پہلو ہیں۔ کیا آپ ان سے واقف ہیں؟
سوشل میڈیا پر تمام خواتین سیلبرٹیز کی تصاویر کا نہ صرف ایکسرے کیا جاتا ہے بلکہ اگر وہ اپنی مرضی سے کوئی ایسا لباس پہن لیں جو ان کی معاشرتی روایات کے برعکس ہو تو وہیں ان پر بھرپور لعن طعن اور مغلظات کا بھی بھرپور انتظام کیا جاتا ہے۔ عورتوں کو پردے اور حیا کا درس دینے والی اپنی دفعہ یہ سب بھول جاتے ہیں کہ یہ تو عورت کا ہی فرض ہے۔
یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کہ راجکمار ولیم نے وہی کپڑے پہنے جو وہ برطانیہ میں پہنتے آئے ہیں کہ سفارتی بوجھ صرف شہزادی کی ہی ذمہ داری تھا۔ شہزادہ بھی ہم سا ہی نکلا۔خدا کی قسم اپنے ہاں کے وہ مرد یاد آ گئے جو خود تو مزے سے اپنی زندگی جیتے ہیں لیکن بیویوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان ہی کے گھر والوں کی خوشنودی کے لیے سویرے نور تڑکے جاگیں اور انہی کی مرضی کے کپڑے پہنیں۔ عورت کھیل کے میدان میں بھی پتلون قمیص پہن کر آئے تو روایت شکنی ہونے کو ہوتی ہے جب کہ مردوں کے لیے انگریزی لباس اور روایات میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ویسے سچ پوچھیے تو شہزادی کو دیکھ کر ہمارے دل سے شہزادی کا خمار کچھ اتر سا گیا ہے۔ جس قدر امیر ہو جائے شہزادی کی زندگی بھی وہی ہے جو تمام دیسی بہووں کی ہوتی ہے۔ صبح شام مرحومہ ساس سے موازنہ، اپنی مرضی سے نہ کہیں جا سکنا نہ پہن سکنا کہ دادی ساس برا نہ مان جائیں، لال سرخی اور ناخن پالش پر پابندی، اپنی مرضی سے آلو گوشت تک نہ کھا سکنا کہ کہیں وزن نہ بڑھ جائے اور شاہی امیج میں کوئی فرق آ جائے۔ کیٹ مڈلٹن اور ہمارے ہاں کی بہووں میں بھلا کیا فرق رہ گیا؟
ہاں، بس یہی فرق ہے کہ وہ محل میں رہتی ہے اور اس کی شادی صاحب کے پاس ہمارا ہیرا کوہ نور ہے۔ ورنہ اس کی زندگی کا محور بھی سسرال کی خوشنودی اور آئے گئے لوگوں کا اس کے لباس پر تبصرہ ہے۔ ہمارے دیسی مرد بھی کمال ہیں کہ ان کے تبصرے سے تو برطانوی شہزادی اور مستقبل کی ملکہ بھی محفوظ نہیں۔ ان کا بس چلے تو اسٹیچو آف لبرٹی کا بھی سر ڈھک آئیں اور خود باقی ماندہ بے پردہ عورتوں کو گھورتے پھریں۔
پھر بھی شہزادی کو دل و جان سے خوش آمدید کہیں گے۔ اوہ، معاف کیجئے گا ساتھ میں شہزادہ بھی ہے۔ بچوں کے لیے مٹھائی بھجوا دینی چاہیئے کہ لندن میں لاہور سی اچھی برفی نہیں ملتی۔
(مضمون نگارکا تعلق پاکستان سےہے ، ان دنوں آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ @khwamkhwahان کا ٹوئٹر ہینڈل ہے۔)