اگلے چھ مہینوں میں دنیا کی دوسری معیشت کے مقابلے ہندوستانی معیشت میں زیادہ تیزی سے ہونے والی جن اصلاحات کو لےکر وزیر اعظم اتنے مطمئن ہیں، وہ بھاری بھرکم سرکاری خرچ کے بغیر ناممکن معلوم ہوتے ہیں۔معیشت کو اتنا نقصان پہنچایا جا چکا ہے کہ اصلاحات کاکوئی لائحہ عمل مرتب کرنے یا حکمت عملی پیش کرنے سے پہلے سنجیدگی سے اس کامطالعہ کرنا ضروری ہے۔
ہندوستان کے محنت کش طبقے، بالخصوص مہاجرمزدوروں اور سیلف ایمپلائمنٹ میں لگے کروڑوں لوگوں کی مشکلات کو واضح لفظوں میں قبول کرنے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو پورے دو مہینے کاعرصہ لگ گیا۔لاک ڈاؤن 4.0 کے اختتام پر ملک کے نام لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا، ‘ہمارے مزدوروں، مہاجرمزدوروں، چھوٹے کاروبار کے دستکاروں اورکاریگروں، پھیری والوں اور ان کے جیسے ان کے ہم وطنوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرناپڑا ہے۔ لیکن ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہم جن پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں، وہ کہیں آفات میں نہ بدل جائیں۔’
Penned a letter to my fellow citizens.
It takes you through the year gone by and the way ahead. https://t.co/t1uHcAKkAH pic.twitter.com/Ci8TImK3CU
— Narendra Modi (@narendramodi) May 30, 2020
شکر ہے، کم سے کم وزیر اعظم یہ قبول تو کر رہے ہیں کہ اگر اس پہلو پر چیزوں کو سہی طریقے سے نہیں سنبھالا گیا تو ہندوستان ایک نہیں کئی‘آفات’ کا سامنا کر سکتا ہے۔مودی نے 130 کروڑہندوستانیوں جن میں سے زیادہ ترمزدور طبقے کے ہیں اور جنہوں نے ناقابل بیان نقصان کو برداشت کیا ہے ،ان کی قوت برداشت کا بھی ذکر کیا، جن کی مدد سے باقی دنیا کے مقابلے ہندوستانی معیشت زیادہ تیز رفتاری سے پٹری پر لوٹ آئےگی۔
یقینی طور پر ان کے ذریعے محنت کش طبقے، جو ہندوستان کی اکثریت کی تشکیل کرتے ہیں، ان کی قوت برداشت کا ذکر المیوں سے بھرا ہوا ہے۔ آخر دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے سب سے سخت لاک ڈاؤن کے دوران جب غریب مزدور اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے، جو 70 سال کی تاریخ میں شہروں سے ہونے والی سب سے بڑی ریورس مائیگریشن تھی،اقتدار نے ان سے پوری طرح سے اپنا پلہ جھاڑ لیا۔
فروری سے اب تک بےروزگاروں کی تعداد تین گنی (12 کروڑ) ہو چکی ہے اور شاید دوسرے 15 کروڑ لوگ اپنی نوکری واپس شروع کرنے کی امید میں بیٹھے ہیں۔ ممکنہ طور پر ہندوستان کی نصف افرادی قوت بغیر کسی مستقل آمدنی کے اپنے گھر پر بیٹھی ہے۔سچ کہا جائے تو ‘آتم نربھر بھارت’ کا مودی کا نعرہ ایک بھدے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے، بالخصوص 2 ڈالر یومیہ سے کم آمدنی پر رہنے والی ہندوستان کی 90 فیصدی آبادی کے لیے۔ ہندوستانی اقتدارفعال معاشی شراکت داروں کی حیثیت سے ان کی موجودگی کا اندازہ ہی نہیں کر پائی۔
اور اس بات کو کسی اور نے نہیں خود وزیر خزانہ نے قبول کیا، جب انہوں نے کہا کہ سرکار کے پاس مہاجر مزدوروں کا کوئی اعداد وشمار ہی نہیں ہے۔ ایسے میں محنت کش آبادی کے بڑے حصہ کے پاس کووڈ 19 کے دور میں اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ اپنے گزر بسر اور ہیلتھ سسٹم کا انتظام خود کریں۔
اس طبقے کے پاس اپنی بالکنی سے اپنی’ آتم نربھرتا’ کےمظاہرہ کی سہولت کبھی نہیں تھی اس لیے ان کو کافی حد تک بھیڑ بھری جگہوں میں‘ہرڈ امیونٹی’ کے فروغ کے لیے چھوڑ دیا گیا، چاہے وہ کھچاکھچ بھرے ٹرک ہوں یا شرمک ریل گاڑیاں۔کسی اور نے نہیں گجرات سرکار کے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کرنے سے عوام میں ڈر اور گھبرا ہٹ کی حالت پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ اگر ٹیسٹ کرائے جائیں تو 70 فیصدی آبادی کووڈ 19 سے متاثر ملے گی۔غیر فعال طریقے سے ہرڈ امیونٹی کے فروغ کی پالیسی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟
حکومت ہندایک طرف معاشی لاک ڈاؤن، سماجی دوری، ٹیسٹنگ (جانچ)، ٹریکنگ(نظر رکھنا)، ٹریسنگ (تلاش کرنا)اور ٹریٹمنٹ(علاج)کے سخت ضابطوں کی پیروی کا دکھاوا کر رہی ہے، لیکن حقیقت میں ملک کو خودکار طریقے سے فروغ پانے والی ایک ممکنہ‘ہرڈ امیونٹی’ کی طرف بڑھایا جا رہا ہے۔
اقتصادی مورچے پر بھی، حکومت ہندکے زور شور سے مشتہر کیے جا رہے 20 کروڑ روپے یا جی ڈی پی کے 10 فیصد کے برابر کے مالیاتی پیکیج سے خود کو ہی بھرمائے ہوئے ہے۔ تقریباً سبھی سرکردہ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پیکیج، اگر مستقبل قریب میں براہ راست اضافی مختص کے حساب سے دیکھیں، تو دراصل جی ڈی پی کا تقریباً1فیصدیا 2 لاکھ کروڑ کے برابر ہی ہے۔
دراصل سرکار نے اس سے زیادہ بڑاامدادی پیکیج پی ایم کسان نقد ٹرانسفر کے طور پر (1 لاکھ کروڑ)اور کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی(1.45 لاکھ کروڑ) کے طور پر 2019 میں دیا تھا۔ہندوستان کے سب سے غریب لوگوں مستقبل قریب میں جن کی آمدنی کاامکان کافی کم ہے، ان کے ہاتھوں میں پیسہ دیے بغیرہندوستان کی معیشت میں دوسرے ممالک کے مقابلے زیادہ جلدی اصلاحات ہونے کی بات مودی کس بنیاد پر کر رہے ہیں یہ صاف نہیں ہے۔
زمینی حالات کی سمجھ رکھنے والے زیادہ تر کاروباریوں کا یہ کہنا ہے کہ اگلے سال سے پہلے ہندوستان اقتصادی سرگرمیوں کی پوری صلاحیت کی سطح پر نہیں آ پائےگا۔میڈیم اینڈاسمال انٹرپرائز (ایم ایس ایم ای)سیکٹر، جو سرکار کے پیکیج کا بنیادی ہدف ہیں، پر کیےگئے کچھ فوری سروے کا کہنا ہے کہ ان کی اکثریت مرکز کے 3 لاکھ کروڑ کے گارنٹی لون پیکیج کی بنیاد پر بینک سے قرض لینے میں شاید دلچسپی نہ دکھائے۔
ایک دوسرے سروے کا کہنا ہے کہ میڈیم اینڈاسمال انٹراپرئز کی ایک بڑی تعداد کو خود کو بچانے کے لیے اورخرچ کم کرنے کے لیے اپنے اسٹاف کی تعداد میں کٹوتی کر سکتی ہے۔بدقسمتی سے ملک کے نام وزیر اعظم کا خط جی ڈی پی گروتھ کے اعدادوشمار کے جنوری -مارچ سہ ماہی کے اعدادوشمار کے ساتھ آیا، جس کے حساب سے ہندوستانی معیشت کی شرح نمو اپنے تاریخی نچلی سطح پر پھسل کر 3.1 فیصدی پر آ گئی تھی۔
اس سہ ماہی میں بس نو دن لاک ڈاؤن کا تھا، لیکن جس سچائی کو وزیر اعظم کو عوامی طور پر قبول کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ کووڈ 19 لاک ڈاؤن سے پہلے ہندوستان کی معیشت دنیا میں سب سے خراب مظاہرہ کر رہی معیشت تھی، جس کی تصدیق 2019-20 کی دوسری، تیسری اور چوتھی سہ ماہی میں مینو فیکچرنگ کے منفی اعداد وشمارکرتے ہیں۔
ہندوستان کی مسلسل اقتصادی گراوٹ کے مقابلے چین نے 2019 میں 6 فیصدی شرح سے اضافہ درج کیا۔ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک سہ ماہی کے منفی اضافہ کے بعد چین سے لاک ڈاؤن کے بعد کے دور میں سب سے زیادہ تیز اصلاحات کے اشارےمل رہے ہیں۔
چین کے اکثرحصوں میں اقتصادی سرگرمیاں معمولات پر لوٹ آئی ہیں، جبکہ ہندوستان اپنی اکثریت مہاجرانفرادی قوت کی خدمات سےمحروم ہو جانے کے انسان کے پیدا کیے ہوئے بحران سے ابھی بھی جوجھ رہا ہے، کیونکہ وہ پروڈکشن سینٹر سے دور اپنے گاؤں کے گھروں میں بیٹھا ہے۔
اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہوگی، اگر چین 2020 میں مثبت جی ڈی پی گروتھ درج کرنے والی واحد بڑی معیشت کے طور پر ابھرے۔ یاد کیجیے کہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد چین اور ہندوستان نے عالمی معیشت کی قیادت کی تھی ، جبکہ مغربی معیشت کو بحران سے پہلے کے جی ڈی پی کی سطح پر واپس لوٹنے میں کچھ برسوں کاعرصہ لگ گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ 130 کروڑ ہندوستانیوں کی‘قوت برداشت ’ کو لےکر وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ دوسرے ممالک کے مقابلے ہندوستان کی معیشت میں زیادہ تیزرفتاری سے اصلاحات لانے میں مدد کرےگی۔ لیکن یہ ہوا میں نہیں ہو سکتا ہے۔معیشت کو اتنا نقصان پہنچایا جا چکا ہے کہ اس میں اصلاحات کا کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے یا حکمت عملی پیش کرنےسے پہلے اس کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ مودی کو سب سے پہلے نوٹ بندی کے بعد ہندوستان کی سیاشی معیشت کو پہنچے بڑے پیمانے پر نقصان کو قبول کرنا ہوگا۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا مقصد ایک جھٹکے میں ہندوستان کی معیشت کو رسمی بنانا تھا۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ حقیقت میں اس کا الٹا ہو رہا ہو اور لاکھوں کروڑوں مزدوروں کا ریورس مائیگریشن اور میڈیم اینڈ اسمال انٹرپرائز کا منفی فروغ اس رجحان کو اور مضبوطی دے سکتا ہے۔
سال 2019 میں کثیر جہتی غریبی پراقوام متحدہ کی جانب سےجاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستان میں 2006 سے 2016 تک 27.1 کروڑ لوگ خط افلاس سے باہر نکالے گئے۔ اس عرصے میں 3.5 کروڑ محنت کش فارم ملازمت کو چھوڑکر شہری معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنے، خاص طور پر کنسٹرکشن کے سیکٹر میں۔
پچھلے چار سالوں میں ہو سکتا ہے کہ ہم نے ان حصولیابیوں میں کافی کچھ کو گنوا دیا ہو کیونکہ نجی کنسٹرکشن جیسے اہم سیکٹر، جس میں کسانی سے نکل کر آنے والے کافی افرادی قوت کو کھپا لیا تھا، لگ بھگ ختم ہوگئے ہیں۔ اس بات کی تصدیق منریگا کام کی مانگ میں زبردست اضافے سے ہوتی ہے۔
کووڈ لاک ڈاؤن کے بعد کی مدت میں ہم ان رجحانوں کو اور گہرا ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ مسائل کو بڑھاتے ہوئے پچھلے دو سالوں میں ہندوستان کی نمو میں مسلسل گراوٹ نے ایک شدید عوامی مالیاتی بحران کو کھڑا کر دیا ہے، جس نے موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے ضروری خرچ کرنے کی سرکار کی صلاحیت کوکم کر دیا ہے۔
اگلے چھ مہینے میں بھاری بھرکم سرکاری خرچ کی غیرموجودگی میں، دنیا کی دوسری معیشت کے مقابلے ہندوستانی معیشت میں زیادہ تیزرفتاری سے اصلاحات، جس کو لےکر وزیر اعظم اتنے مطمئن نظر آ رہے ہیں، ناممکن لگتا ہے۔ دعووں اور حقائق کے بیچ فرق کرنا آج کی ضرورت ہے۔