نریندرمودی سرکار کو موجودہ بحران کےلیےیو پی اے کو مورد الزام ٹھہرانا آسان لگتا ہے،لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ کوئلے کی ذخیرہ اندوزی اور بجلی پروڈکشن کو بڑھاوا دینے میں بری طرح سے ناکام رہی ہے۔
(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)
سرکارکی جانب سےپٹرول اور ڈیزل پر لگائے گئےغیرمعمولی ٹیکسوں کی وجہ سے آسمان چھو رہی قیمتوں کا بوجھ اٹھا پانا پہلے ہی ہندوستانیوں کے لیےمشکل ہو رہا ہے، اب بجلی کی کمر توڑ شرحوں کا بھی خطرہ ان کے سر پر منڈرانے لگا ہے۔
پاور ٹریڈنگ ایکسچینج میں بجلی کی سپاٹ شرحیں ایک مہینے سے کچھ پہلے
20 روپے فی یونٹ کو چھو چکی تھیں، جو زیادہ دن نہیں ہوئے 5 روپے ہوا کرتی تھی۔ بجلی کی کمی والےصوبوں کو بازار سے بجلی کی خریداری کافی اونچی شرحوں پر کرنی ہوگی۔
اس صورتحال کے پیدا ہونے میں کوئلے کی کمی کارول ہے، جس کی قیمتیں اس سال جنوری سےتقریباً 300 فیصدی بڑھ گئی ہیں۔اس کی قیمتوں میں کووڈ 19کی دوسری لہر کے بعد عالمی معیشت میں اصلاح شروع ہونے کے ساتھ پر لگ گئے ہیں۔ یورپ میں بھی گیس کی قیمت400 فیصدی بڑھ گئی ہے، جس نے گیس پر مبنی الکٹرک پاور مارکیٹ کے بازار میں دہشت پیدا کر دی ہے۔ چین ہنگامی طریقے سے کوئلہ کی پیداوارکو بڑھا رہا ہے۔
توانائی کی بڑھتی قیمتوں نے ہندوستان اور بیرون ملک میں معاشی ترقی کی پھر سے بحالی پر خطرے کی تلوار لٹکا دی ہے۔ ہندوستان نے حرکت میں آنے میں دیری کر دی ہے۔وزیر توانائی آر کے سنگھ کی طرف سے پچھلے ہفتے کوئلے کی کمی کے سلسلے میں
وارننگ آئی، جب کئی بجلی پلانٹس میں کوئلے کا اسٹاک گھٹ کر چار دن سے بھی کم پر آ گیا تھا۔صارفین کو جلدی ہی بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ذریعےاونچی قیمتوں پر خریدی گئی بجلی کے لیے زیادہ قیمت چکانی پڑےگی۔ سوال ہے کہ کیا کوئلے کی اس کمی کو ٹالا جا سکتا تھا؟
وزیرنے وارننگ دی ہے کہ 100 گیگاواٹ تک تھرمل پاور پیدا کرنے والے بجلی پلانٹس کے پاس تین دن سے بھی کم کا کوئلہ بچا ہے۔اگلے کچھ ہفتوں یہاں تک کہ مہینوں تک پورے ملک میں بجلی فراہمی میں شدید تعطل دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ کچھ وزرائے اعلیٰ نے سر پر کھڑے بحران کو لےکروزیراعظم کو چٹھی لکھی ہے۔
عام طور پر بجلی پلانٹس کم ازکم 20 دن کا کوئلے کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔ کوئلے کی کل کھپت کا 30 فیصدی امپورٹ سے پورا ہوتا ہے۔ کوئلے کی بین الاقوامی قیمتوں کے اس سال کی شروعات کے 75 ڈالرفی ٹن سے بڑھ کر 270 ڈالر فی ٹن پر پہنچ جانے کی وجہ سے کوئلے کے امپورٹ میں کمی آئی ہے۔
کچھ بڑے نجی امپورٹر باربار غیرمتوقع صورتحال کا حوالہ دےکر اپنےوعدوں کو پورا کرنے سے مکر رہے ہیں۔ غورطلب ہے کہ ہندوستان کل بجلی سپلائی میں کوئلہ پرمبنی بجلی کا حصہ تقریباً66فیصد ہے۔ کوئلے کی بین الاقوامی شرحوں میں آ رہے اتار چڑھاؤ سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیےہندوستان نے کوئلے کے گھریلو پروڈکشن کو کیوں نہیں بڑھایا؟
ہندوستان کےکوئلےکےبڑے ذخائر کااستعمال کرنے کےلیےمودی سرکار نے2016میں
جامع اصلاحات کو لاگو کیا تھا تاکہ کول انڈیاکے ذریعے گھریلو پروڈکشن کو بڑھاوا دیا جا سکے۔ ساتھ ہی بڑے بڑے تھرمل پاور پراجیکٹس والی نجی کمپنیوں کو کیپٹی مائنز الاٹ کیا تھا۔
بجلی کا پروڈکشن کرنے کے لیے نجی شعبے کو نیلام کیے گئے کول بلاکوں کا اضافی130-150 ملین ٹن کوئلہ کہاں ہے؟
اس وقت کے کوئلہ وزیر پیوش گوئل نے ان اصلاحات کو کوئلہ کےشعبے میں یو پی اے سرکار سے وراثت میں ملی بدانتظامی کو درست کرنے والا بڑا قدم بتایا تھا۔ لیکن حقیقت میں این ڈی اے نے ایک زیادہ بڑی بدنظمی کو جنم دیا ہے۔ کیسے، اسے آگے سمجھتے ہیں۔
مرکزی حکومت آج کہہ رہی ہے کہ بجلی پلانٹس کے پاس کوئلے کے ناکافی اسٹاک سےبجلی کی بڑی کٹوتیاں ہو سکتی ہیں۔لیکن مرکزی حکومت ہی کوئلےکی اہم سپلائر ہے۔کوئلے کے شعبے میں اجارہ داری رکھنے والی کول انڈیا اس کی ہی ملکیت میں ہے، جو استعمال کیے جانے والے کوئلے کے 50فیصد سے زیادہ کی فراہمی کرتی ہے۔ اور سب سے بڑی تھرمل بجلی پیدا کرنے والی کمپنی این ٹی پی سی بھی ایک پی ایس یو ہے!
اس لیےیہ پوچھنا منطقی ہے کہ عالمی قلت اور قیمتیں اپنی جگہ پر، مگر کول انڈیا نے پچھلے چار سالوں میں پروڈکشن کیوں نہیں بڑھایا۔ اس میں2017 سے منفی اضافہ ہوا ہے، جس دوران مودی سرکار کوئلے میں ‘آتم نربھرتا’کی بڑی بڑی باتیں کر رہی تھی۔ 2017-18سے سی آئی ایل کا پروڈکشن7-10 ملین ٹن گر گیا۔ یہ پالیسی کےنفاذ میں ناکامی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
مودی سرکار میں کوئلہ کے شعبے میں اصلاحات کی قیادت کرنے والے سابق کوئلہ سکریٹری انل سوروپ نے پچھلے سال
بلومبرگ کوئنٹ میں لکھا تھا کہ 2016 میں سی آئی یل کے پاس 500000 کروڑ کا اضافی ریزرو تھا۔اس کا استعمال پروڈکشن کو بڑھاوا دینے کےلیےکرنے کی جگہ، اس ریزرو کا ایک بڑا حصہ بڑھتے سرکاری خزانے گھاٹے کو پاٹنے کے لیےمرکز کی جھولی میں منافع کے طور پر چلا گیا! مودی سرکار کو یہ بتانا چاہیے کہ پالیسی کے مقصد کے برعکس سرمایہ کاری میں یہ کٹوتی کیسے ہوئی؟
پچھلے پانچ سالوں میں نجی شعبےنے بھی ہمیں مایوس کیا۔اس وقت کےکوئلہ وزیر پیش گوئل کی سربراہی میں ہوئے فخرسے بتائے جانے والے کوئلہ شعبوں کے اصلاحات کے بعدتقریباً80کان کے لیے تیار کول بلاک بجلی پروڈکشن کرنے والوں کو نیلام کیے گئے تھے۔ان میں سے زیادہ تر ان اثاثوں پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور 120-140 ملین ٹن سے زیادہ کی نئی صلاحیت کی پیدا نہیں کی۔
نجی شعبےکوئلے کی بین الاقوامی قیمتوں کےمسلسل نچلی سطح پر بنے رہنے کی وجہ سےمطمئن تھا اور گھریلو صلاحیت میں سرمایہ کاری کرنے کی جگہ امپورٹ کو زیادہ ترجیح دے رہا تھا۔
عام طور پرنجی شعبےکی کان کنی کی کمپنیاں عالمی قیمتوں میں اچھال کی صورتحال میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ ایک طرف جہاں نجی شعبےنے کوئلہ پروڈکشن میں دیری کی، وہیں دوسری طرف مرکزی حکومت نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی اور نئے کول بلاکوں کی کھدائی کے لیے آگے کی اجازت نہیں دی۔
اس طرح سے مودی سرکار نے کوئلہ کے شعبے میں ایک نئی افراتفری تیار کر دی ہے، جس کا اثر آگے بڑھ کر تھرمل پاور تک پہنچ گیا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ بحران صرف ان شعبوں تک ہی محدود نہیں رہےگا۔
بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتیں پہلے ہی پٹرول اور ڈیزل کی بڑھی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اونچی سطح پر بنی ہوئی توانائی کی افراط زراور بڑھائےگی۔ اس کا نتیجہ معیشت کے بڑے فلک والی افراط زر کے طور پر نکلےگا اور یہ لوگوں کی آمدنی کو متاثر کرےگا۔ پٹری پر لوٹنے کے لیےجدوجہد کر رہی معیشت کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)