مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے حال ہی میں ہندوستان میں مسلمانوں کی صورتحال کو اس بنیاد پر درست قرار دیا تھا کہ ملک میں ان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر توجہ نہیں دی کہ ہندوستانی مسلمان، بالخصوص عوامی زندگی میں، کم نمائندگی کے سنگین بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ہندوستان میں مسلمانوں کے بارے میں حالیہ تبصرے پر کافی ردعمل سامنے آیا ہے۔
واشنگٹن میں پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، سیتا رمن نے 10 اپریل کو کہا تھا، ہندوستان دنیا میں مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے اور اس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر کوئی ایسا خیال ہے، یا حقیقت میں ہے کہ ان کی زندگی مشکل ہے یا حکومت کی طرف سے ان کی زندگی کو مشکل بنایا جا رہا ہے، جیسا کہ ان مضامین میں سے اکثر میں اشارہ کیا جاتا ہے، تومیں پوچھتی ہوں کہ اگر ہندوستان میں ایسا ہوتا تو کیا 1947 کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہوتا؟
تاہم، مسلمانوں کے اچھے حالات کے پیمانے کے طور پر ‘بڑھتی ہوئی’ مسلم آبادی کا حوالہ دینا کئی سطحوں پر پریشان کن ہے۔
سنگھ کا پروپیگنڈہ
طویل عرصے سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، جن سنگھ، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، اورہندوستان میں دیگر ہندوتوا تنظیموں کے لیے ‘بڑھتی ہوئی مسلم آبادی’ ہندوؤں کو متحد کرنے کا نعرہ ہے۔ ان حلقوں میں ملک کی ڈیموگرافی میں آنے والی تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کیا جاتاہے۔ اور کئی مواقع پر ہندوتوا تنظیموں نے اس کا اظہار کیا ہے۔
حال ہی میں آر ایس ایس کے ماؤتھ پیس آرگنائزر میں اس موضوع پر ایک مضمون شائع ہوا تھا، جس کا عنوان تھا ‘ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی باعث تشویش کیوں ہے’۔
ایک اور مثال لیں تو، اکھل بھارتیہ سنت پریشد کے ہماچل پردیش کے انچارج یتی ستیہ دیوانند سرسوتی نے ہندوستان کو اسلامی ملک بننے سے روکنے کے لیے ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی جنوری 2020 میں یہی دلیل دی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ‘مسلم آبادی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان کو مراعات حاصل ہیں’۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے حال ہی میں کہا کہ آسام میں ’35 فیصد’ مسلمان ہیں اور وہ ‘اقلیت نہیں ہیں۔’ انہوں نے یہ بھی کہا، ‘مسلم آبادی ریاست کی کل آبادی کا 35 فیصد ہے۔ سکستھ شیڈول کے علاقوں میں رہنے والے آدی واسیوں کی زمین پر تجاوزات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر داس، کلیتا برمن، گگوئی، چٹیا اپنی زمینوں پر نہیں بسے ہیں ، تو اسلام اور رحمان کو بھی ان زمینوں پر بسنے سے روکنا چاہیے۔
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کاراگ اس وقت بھی سامنے آیا تھا جب بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے گزشتہ سال نومبر میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور لا کمیشن کو آبادی کنٹرول سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی یا قانون بنانے کی ہدایت دینے کی درخواست کی۔ تاہم عدالت نے ان کی درخواست پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔
حقیقت
سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوؤں کی آبادی 79.80 فیصد یعنی 96.62 کروڑ اور مسلمانوں کی آبادی 14.23 فیصد یعنی 17.22 کروڑ تھی۔
خاندانی بہبودکے پروگرام کا جائزہ لینے والی قومی کمیٹی کے سابق چیئرمین دیویندر کوٹھاری نے سائنسی تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگلی مردم شماری میں مسلم آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی آئے گی۔
آبادی اور ترقیات کے ماہر نے اپریل 2022 میں پی ٹی آئی کو بتایا تھا، اگلی مردم شماری میں آبادی میں ہندو آبادی کے حصے میں معمولی اضافہ دیکھا جائے گا، جو 2011 میں 79.80 فیصد کے مقابلے میں 80.3 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ مسلم آبادی کی حصہ داری یا تو مستحکم رہے گی یا کم ہوگی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان کی آبادی کا تناسب 1951 میں مسلمانوں کی آبادی کے 9.8 فیصد سے بڑھ کر 2011 میں 14.2 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آخری مردم شماری 2011 میں ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ،یہ اسی عرصے میں ہندوؤں کی آبادی میں کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ 1951 میں 84.1 فیصد ہندو تھے جبکہ 2014 میں 79.8 فیصد ہندو تھے۔ تاہم 60 سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ صرف 4.4 فیصد پوائنٹس ہے۔
اپنی کتاب ‘دی پاپولیشن متھ’ میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے مسلمانوں کی آبادی میں ہونے والے دھماکے کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہوں کا پردہ فاش کیا ہے۔
عدم نمائندگی کا بحران
قریشی کہتے ہیں کہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پولرائزیشن کوبڑھاوا دینے کے لیے مسلمانوں کے اپیزمنٹ کا ایک ‘متھ’ بنایاگیا تھا اور 14 فیصد سے زیادہ آبادی ہونے کے باوجود سول سروسز اور دیگر سرکاری کاڈروں میں مسلمانوں کی نمائندگی تقریباً 2 سے 3 فیصد ہے۔
مسلم سماجی، تعلیمی اور معاشی پسماندگی پر وزیر اعظم کی اعلیٰ سطحی کمیٹی، جسے سچر کمیٹی کہا جاتا ہے، نے 2006 میں بیوروکریسی میں مسلم نمائندگی کی کم سطح کے بارے میں چونکا دینے والی تفصیلات کا انکشاف کیا تھا۔
لیکن، آزاد ہندوستان میں پہلی بار مرکزی کابینہ میں اس برادری کا کوئی وزیر نہیں ہے۔ آکار پٹیل نے حال ہی میں لکھا، ‘بی جے پی کے 303 لوک سبھا اور 92 راجیہ سبھا ممبران اسمبلی میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ حیرت انگیز طور پر، پورے ہندوستان میں بی جے پی کے 1000 سے زیادہ ایم ایل اے میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔
سیاسی مبصرین 2014 کے بعدسے کہہ رہے ہیں کہ عوامی زندگی میں مسلمانوں کی عدم موجودگی گمبھیر ہے۔
ماہر سیاسیات اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سابق پروفیسر زویا حسن نے نمائندگی کی سیاست: ہندوستان کی جمہوریت میں تاریخی طور پر پسماندہ گروپ، میں لکھا ہے کہ’ پارلیامنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی 2014 میں تاریخ کی سب سے کم سطح پر تھی۔ 1980 کے انتخابات میں منتخب ہونے والوں میں سے تقریباً 10 فیصد مسلمان تھے۔ 2014 میں ان کی تعداد 4 فیصد سےبھی کم تھی، جو 1952 کے بعد سب سے کم ہے۔
مسلم کمیونٹی کی آبادی 1981 میں 6.8 کروڑ تھی اور 2011 میں دوگنی سے سے بھی زیادہ یعنی کر 17.2 کروڑ ہوگئی، اس کے باوجود ان کی نمائندگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مسلم ارکان پارلیامنٹ کی تعداد 1980 میں 49 سے کم ہو کر 2014 میں 23 رہ گئی، جو 2009 میں 30 سے کم تھی۔ 14.3 فیصد آبادی کے تناسب کے مقابلے میں مسلمانوں کی کم نمائندگی واضح اور سنگین ہے۔ ان کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ‘لوک سبھا میں ان کے کم از کم 77 ایم پی ہونے چاہیے، لیکن ان کی تعداد 23 ہے، یعنی 54 ایم پی کم ہیں’۔
اسے بجا طور پر ہندوستانی جمہوریت کی تاریخ کا ایک بے مثال لمحہ قرار دیا گیا ہے۔
اس پس منظر کے برعکس مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوال نہ اٹھائے جانے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے مرکزی وزیر خزانہ کا 1947 کے بعد سے مسلمانوں کی ‘بڑھتی ہوئی آبادی’ کا حوالہ دینا سنگھ پریوار کے بدترین تعصبات کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا یہ بیان ایک جامع جمہوریت کے تئیں موجودہ حکومت کی نیت اور عزم کے بارے میں جوابات سے زیادہ سوالات اٹھاتا ہے جو تمام شہریوں کو برابر کے طور پر دیکھتی ہے۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)