نظریاتی دنیا میں اعتبارحاصل کرنارائٹ ونگ کی تمنا رہی ہے، لیکن جب تک وہ اس بنیادی بات کو نہیں سمجھ لیتا کہ اعتبارحاصل کرنا پڑتا ہے، اس کو خریدا نہیں جا سکتا یہ کبھی بھی زیادہ دوری نہیں طے کر پائےگا۔
(فوٹو بہ شکریہ: گروڑ پرکاشن(
بعض مصنفین اور مبصرین کی یہ شکایت کہ بلومسبری سے شائع ایک کتاب کا مسئلہ اٹھانے والے لوگ بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹ رہے ہیں،بے حد مضحکہ خیزہے۔بلومسبری نےاپنے یہاں سے شائع کتاب دہلی رائٹس 2020:دی ان ٹولڈا سٹوری کو اپنے ہی مصنفین کی
مخالفت کے بعد واپس لے لیا۔
یہ مصنف کتاب کے کچھ حصوں سے حیران رہ گئے تھے، جس میں غیرمصدقہ دعووں کی کثرت تھی۔ یہ‘اربن نکسلوں اور اسلامسٹوں’کے خلاف بے تکےالزامات کے ساتھ ہی فسادات کے پیچھے کی وجوہات کو لےکرکانسپریسی تھیوری بننےوالوں کے دعووں سے بھری ہوئی تھی۔
اس کتاب کی مصنف نے اسکالر وینڈی ڈونگیر کی ہندو مذہب پر کتاب کے کچھ حصوں کو ہٹانے کی مانگ کرنے والے عرضی گزاروں کی قانونی پیروی کی تھی۔ اس کے بعد پینگوئن نے اس کتاب کو واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔دہلی فسادات پر مبنی اس کتاب کا رسم اجرا ایک پروگرام میں ہونا تھا، جہاں عام آدمی پارٹی سے بی جے پی میں آئے کپل مشرا کا نام معزز مہمانوں میں شامل تھا۔
غورطلب ہے کہ 23 فروری کے
کپل مشرا کے ہیٹ اسپیچ کے بعد دہلی میں فسادات بھڑکے تھے، جن میں 53 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھا۔ کئی کو اپنے گھر اورملکیت سے ہاتھ دھونا پڑا۔مشرا کی ہیٹ اسپیچ کی رپورٹس آن لائن دستیاب ہیں،یہاں ان لنکوں کو دینے کا مطلب ایک طرح سے اس کا پروپیگنڈہ کرنا ہی ہوگا۔
دہلی رائٹس2020 جون میں شائع ایک‘فیکٹ فائنڈنگ’رپورٹ پر مبنی ہے۔ یہ رپورٹ وزیرداخلہ امت شاہ کو سونپی گئی اور انہوں نے اس کو من وعن قبول کر لیا۔اس نے دیگرکے ساتھ ساتھ ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ اور اس کے ساتھ ہی کچھ ‘شدت پسند’گروپس، جن میں ہاسٹل اور کالج میں غیر معقول پابندیوں کی مخالفت کرنے کے لیے شروع کیا گیا پنجڑہ توڑ بھی شامل ہے، پر الزام لگایا۔
ایک جانچ میں اس رپورٹ کی کئی خامیوں اور غلط نتائج کو اجاگر کیا گیا ہے۔ایک معروف کمپنی کی جانب سے ایسی مکروہ کتاب کی اشاعت ہی اپنے آپ میں گھنونی بات تھی۔ لیکن مجوزہ پروگرام میں مشراکی موجودگی نے برداشت کی ساری حدوں کو پار کر دیا۔اس کے بعد بلومسبری تنقید کے نشانے پر آ گیا اور اس نے پہلے تو یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کتاب کے رسم اجرا کے پروگرام میں شامل نہیں تھا اور پھر اس نے بغیر کوئی وقت ضائع کیے کتاب کو واپس لے لیا۔
کتاب کے اجرا سے متعلق سوشل میڈیا میں شیئر کی گئی تصویر۔
اب بلومسبری مذمت کے دوسرے مرحلے کا سامنا کررہا ہے۔ اس بارتنقید کرنے والے ہیں کتاب کے حمایتی ۔ اور کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان کا ساتھ دے رہے ہیں لبرلس کو بھلا برا کہنے والے کیونکہ اس کھیل میں شامل ہوئے بغیر کسی عوامی بحث کا ان کے لیے کوئی مطلب نہیں ہے۔
ایسے میں جبکہ دونوں طرف سے آن لائن ہاتھاپائی چل رہی ہے، ایک سوال لگاتار بنا ہوا ہے اس کتاب کے مصنف بلومسبری سے کتاب چھپوانا ہی کیوں چاہتے ہیں؟مصنف، خاص طور پر جن کی کتاب پہلی بار شائع ہو رہی ہے، معروف پبلشنگ ہاؤس سے وابستہ شہرت کے طلبگار ہوتے ہیں، جو انہیں اچھی اوربہتر ایڈیٹنگ، ڈیزائن اور تقسیم کے فائدے کے ساتھ ساتھ ایک اعتماد بھی فراہم کرتا ہے۔
لیکن کیا ایک نیشنلسٹ کے طور پر انہیں ایک بیہودہ ملٹی نیشنل کمپنی کو خارج کرکے کسی ملکی اشاعتی ادارےکا ہاتھ نہیں تھامنا چاہیے تھا؟اس کے علاوہ جیسا کہ اب تک سامنے آئے حصوں میں پیشہ ورانہ ایڈیٹنگ کی کوئی خاص جھلک نہیں ملتی اور حقائق کی جانچ کا کام تو اور بھی سطحی قسم کا ہے۔
ہندوستان کے زیادہ تر اہم اشاعتی ادارے خاص طور پر وہ جن کی کافی شہرت ہے اور جو بین الاقوامی گروپس کا حصہ ہیں، انہیں لبرل، سیکولر دنیا کا حصہ مانا جاتا ہے۔وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے انگریزی داں قسم کے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ بدنام زمانہ‘خان مارکیٹ گینگ’ کا حصہ ہے، جو ایک بند اور دوسروں کے لیے ممنوعہ نظام ہے، جو الگ رائے رکھنے والوں کو اپنے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔
سرکار کے چیف اکانومک ایڈوائزر اور مصنف سنجیو سانیال نےاشاعتی دنیا میں‘بیرونی لوگوں کو اپنے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ دینے والی اقربا پروری’ کی
تنقیدکی اور کھلی بحث کامطالبہ کیا ہے۔انٹرا اسپیکشن ہمیشہ ایک اچھا خیال ہے اور اشاعتی دنیا کو بھی ایسا کرنا چاہیے، لیکن جب تک چیزیں ہر کسی کے لیے اطمینان بخش انداز سے نہیں بدلتی ہیں، ایسے اشاعتی اداروں کو نہ صرف بیرونی بلکہ ان سب کے لیے، جودلائل اور ‘نظریات’کےمنظور شدہ دائرے کے اندر نہیں آتے، کے بارے میں متعصب ہونے کی مذمت کا شکار ہونا پڑےگا۔
لیکن، بلومسبری اور دوسرے اشاعتی اداروں کے مصنفین کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے پر یہ پتہ چلےگا کہ ایسا کہیں سے بھی سچ نہیں ہے۔چیتن بھگت یا امیش جیسے کئی خوب بکنے والے مصنف، جن کی زبردست مقبولیت اورمداحوں کی لمبی قطار ہے، کہیں سے بھی ‘لیفٹ لبرل’ نہیں ہیں۔
لیکن وہ ستھری زبان میں اور اچھا لکھتے ہیں اورنفرت کے پروپیگنڈہ میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ وہ ایک سخت گیر مدیرانہ نگرانی سے گزرتے ہیں اور کافی کماتے ہیں۔دہلی رائٹس2020 اس معیارکو پورا نہیں کرتی یہ بےوقوفی بھرے دعوے کرتی ہے، مثلاً ‘تاریخی طور پر لیفٹ نے ہمیشہ سے اسلامی شدت پسند کا استعمال اپنے ہتھیار کے طور پر کیا ہے۔’
اس کے بعد اس بات کو لےکر الاہنا دیا گیا ہے کہ ‘کیسے لیفٹ ہندوستان کی متعددقومیت والے ملک ہونے کے خیال کا حامی رہا ہے اور اس نے اقلیتوں اورہیومن رائٹس کے لیے ہمیشہ سے آنسو بہائے ہیں، لیکن یہ تین طلاق اورحلالہ جیسی روایات پر اپنی سہولت سےخاموشی اختیارکرلیتا ہے۔’
ہندوستانی لیفٹ کےتنقیدی تجزیے کی ضرورت یقینی طور پر ہے، لیکن کیا کوئی بھی اس طرح کی تحریرکوسنجیدگی سے لے سکتا ہے؟ان ساری چیزوں کی پھر سے ایڈیٹنگ کی جا سکتی تھی، لیکن بلومسبری نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے اسے من وعن جانے دیا۔کیا وہ اس کتاب کو لےکر شرمندہ تھے؟ یا پھر وہ اپنی ناپسند کے باوجود صرف میکانکی کام کر رہے تھے؟
وجہ چاہے جو بھی رہی ہو، لیکن اب یہ ان کے لیے شرمندگی کا سبب بن گیا ہے، جس کے دوررس نتائج ہوں گے جانکاری کے مطابق کتاب کے مصنف اب قانونی اختیارات کی راہ تلاش کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
اس کے ساتھ ہی کئی دوسرے مصنف اس اشاعتی ادارے کے ساتھ اپنے رشتوں پر نئےاز سرنوغور کریں گے۔
اس کتاب کی اشاعت اب گروڑ کے ذریعے کی جائےگی، جس کا مشن ‘ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کرنا ہے جہاں ہندوستانی تہذیب کے تناظرات اور اس کے نیریٹو کو سامنے لانے والی کہانیاں کہی جا سکیں۔ دہائیوں سے نہیں، بلکہ صدیوں سے ہم اپنا نیریٹو کہنے اور آگے بڑھانے میں قاصر رہے ہیں۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ ہماری کہانیاں قاعدے کی نہیں ہیں۔’
اس سے پہلے اس نے وویک اگنی ہوتری کی کتاب اربن نکسلس ، ماریا ورتھ کی کتاب تھینک یو انڈیا، جو ‘ہندوستان اور اس کے قدیم علوم کی توصیف’ہے، ایک کتاب مودی اگین اور سیفرن سوورڈس جو کہ ‘حملہ آوروں کے خلاف صدیوں کی مزاحمت’کے بارے میں ہے، اور ہندوستانی وارکامکس کی اشاعت کی ہے۔
اس نے دہلی رائٹس کے ہندی اور انگریزی ایڈیشن کو دو ہفتے میں شائع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو مصنفین کے لیے گروڑ سب سے مفید پبلی کیشن ہوتا، لیکن پھر بھی مصنف بلومسبری کے پاس گئے۔یہ ایک آزاد ملک ہے جو چننے کی آزادی کی گارنٹی دیتا ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ مصنفین کو لگا ہو کہ بلومسبری سے چھپنا ایک ایسا درجہ دےگا، جو دوسرے اشاعتی اداروں سے چھپ کر نہیں ملےگا۔ وہ دنیا کے سامنے اس کا دکھاوا کر سکتے تھے۔
لیکن یہ ان لوگوں کے مخمصے کے بارے میں بتاتا ہے جو پبلی کیشن جیسےاداروں پر لیفٹ لبرلز کے قبضے کی شکایت کرتے ہیں۔ مصنفین، ناقدین، مبصرین،اشاعتی اداروں کی وسیع دنیا بنانےمیں دہائیوں کاعرصہ لگا ہے۔ان اشاعتی گھرانوں کی اپنی تاریخ اور وراثت ہے۔ ان کی شہرت کی بنیادیہ ہے کہ انہوں نے کس طرح کی کتابیں شائع کی ہیں ان کی اتنی مانگ ہونے کی یہی وجہ ہے۔
‘رائٹ ونگ’(اس سے مناسب لفظ دستیاب نہیں)اس کے خلاف صف بندی کر سکتا ہے، لیکن اس کے پاس اس کا کافی کم اختیار ہے۔گزشتہ سالوں کے دوران یہ ایک مساوی ڈھانچے کی تعمیرکر سکتا تھا، لیکن یہ ایسا نہیں کر سکا۔ اگر یہ ایسا کر سکتا تو جن نظریات سے یہ اتنی نفرت کرتا ہے، اس سے الگ نظریات کے لیے ایک مؤثرپلیٹ فارم تیار ہو سکتا تھا۔
ٹرولز نے بھلے سوشل میڈیا پر قبضہ کر لیا ہو، موجودہ نظام کا بھلے ہی ٹیلی ویژن چینلوں اور کچھ ویب سائٹوں پر شدید شکنجہ ہو، جس کی مدد سے یہ اپنے نظریے کو آگے بڑھا رہا ہے، لیکن یہ بس گالی گلوچ کرنے کے پلیٹ فارم بن کر رہ گئے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔مسلسل چلانے سے لمحاتی فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کی اپنی حد ہے اور یہ شعور دلیل کی جگہ نہیں لے سکتا ہے۔
ٹرولنگ کبھی بھی کسی کو کسی نظریے کا قائل بنانے کااہل نہیں ہو سکتا ہے اور جہاں تک ٹیلی ویژن پر ہر رات ہونے والے شور شرابہ کا تعلق ہے، تومقتدرہ پارٹی کے شدت پسند حامی بھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔نظریات کی اس پرانی دنیا میں اعتبارحاصل کرنا رائٹ ونگ کی تمنا ہے، لیکن اسے اب تک یہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں اورثقافتی تنظیموں پر ان کے اپنے لوگ بیٹھے ہیں اور انہیں کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔
اگر اعلیٰ معیار کو برقرار نہ رکھا جائے، تو آنے والے وقت میں ان کی بین الاقوامی شہرت پوری طرح سے ختم ہو جائےگی۔گھریلو سطح پر ان اداروں سے ایسے لوگ نکل کرآئیں گے جو ان کے نظریاتی جھکاؤ کو پسند آنے والی کتابیں لکھیں گے، لیکن انہیں کوئی سنجیدگی سے نہیں لےگا۔
موجودہ سسٹم سے فوراًثقافتی سرمایہ ہتھیانے کی بےتابی کشیدگی کو جنم دیتی رہےگی۔الزام تراشیوں کے دور چلتے رہیں گے۔
رائٹ ونگ اپنے دشمنوں پر دوسروں کے نظریے کو آگے نہ آنے دینے اور اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کا الزام لگا سکتا ہے، لیکن جب تک وہ اس بنیادی بات کو نہیں سمجھ لیتا کہ اعتبارحاصل کرنا پڑتا ہے، اس کو خریدا نہیں جا سکتا یہ کبھی بھی زیادہ دوری نہیں طے کر پائےگا۔
بھروسہ تب آئےگا، جب سنجیدہ مصنف اورخیالات سامنے آئیں گے، جو دانشورانہ اوزار کا استعمال کرکے تاریخ اور سماج کی لیفٹ توضیحات کے خلاف مضبوط دلیل دے سکیں۔ اور یہ کام ایک دن میں نہیں ہو سکتا۔یہ کتاب بیسٹ سیلر بن جائےتو بھی اس کو بس ایک پرچے کی طرح ہی دیکھا جائےگا، چاہے اس کی اشاعت بلومسبری کرے یا کوئی اور پبلی کیشن ۔