سکھوں کی مذہبی علامتوں کی مبینہ بے حرمتی کے الزام کے سلسلے میں گزشتہ دنوں پنجاب میں میں دو افراد کو بھیڑ نے قتل کر دیا۔عوامی جذبات لنچنگ کے ان واقعات کے حق میں کھڑےنظر آتے ہیں اور مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں اور سکھ دانشور، ان جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچاناچاہتے۔
پنجاب کی مذہبی وسماجی سیاست میں اندرتک پیوست خامیاں اب کھل کر سامنے آ گئی ہیں، کیونکہ امرتسر اور کپورتھلا میں مذہبی علامتوں کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں بھیڑ کے ہاتھوں دو لوگوں کی لنچنگ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ان واقعات نے
رواں سال کےاکتوبر میں وحشیانہ، غیر انسانی اور سفاکانہ انداز میں لنچنگ کے ایک اور واقعے کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔اس وقت سنگھو بارڈر پر کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کے بیچ اسی طرح کی بے ادبی کے الزامات میں ایک شخص کو قتل کر دیا گیا تھا۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ کس طرح ان گھناؤنے قتل کی قبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، ریاست صرف خاموش تماشائی بن کر کام کر رہی ہے اور مقدمات درج کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔
کئی سکھ دانشوروں، صحافیوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان سے بھی جب جب دی وائر نےبات کی تو انہوں نے خاموشی اختیار کرلی یا ان ہلاکتوں(لنچنگ) کوپرانے بے ادبی کے مقدمات میں فوراً انصاف کرنے میں ریاست کی بے عملی سے جوڑ دیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس بے عملی اور بے حسی نے لوگوں کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے مجبور کیا۔
سال 2015 میں پنجاب کی گلیوں میں گرو گرنتھ صاحب کے پھٹے ہوئے صفحات ملے تھے۔اس کے بعد سے اس مقدس کتاب کی توہین کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔ لیکن متعلقہ حکومتیں، چاہے وہ شرومنی اکالی دل-بی جے پی حکومت (2012-2017) ہو یا موجودہ کانگریس حکومت، ان معاملوں کو ان کے منطقی انجام تک نہ پہنچانے کی قصوروار رہی ہیں۔
امریندر سنگھ کو حال ہی میں نوجوت سنگھ سدھو کی قیادت میں ان کی اپنی پارٹی کےاتحادیوں کے ذریعے برطرف کرنا بھی بے ادبی کے مقدمات کو حل کرنے میں بروقت کارروائی کرنے میں امریندر سنگھ کی ناکامی سے وابستہ ہے۔
اس تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان ہلاکتوں کو صحیح ٹھہرانے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
اکال تخت (ایک طاقتور سکھ مذہبی اتھارٹی)کے قائم مقام جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ کے حالیہ بیان میں بھی اسی طرح کے جذبات کی بازگشت سنائی پڑتی ہے۔
کانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی نے ٹوئٹ کرکے بے ادبی اور لنچنگ ،دونوں واقعات کی یکساں طورپر مذمت کی تھی۔اس ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے گیانی ہرپریت سنگھ نے سوال کیا کہ حالات یہاں تک آخرکیوں پہنچ گئے جہاں سنگت کوقتل کرنا پڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ،جب قانون ماضی میں ہونے والے بے ادبی کے واقعات میں مجرموں کو سزا دے کر انصاف کرنے میں ناکام رہاہے تو اپنے مجروح جذبات/زخمی دلوں کے ساتھ سکھوں کو کیا کرنا چاہیے؟
اکال تخت کے جتھیدار نے اپنی بات کوجاری رکھتے ہوئے سوال کیا کہ، انصاف کے انتظار میں اپنی آخری سانسیں گن رہے 1984 کے قتل عام کے متاثرین کو کیا کرنا چاہیے؟ ڈاکٹر منو سنگھوی کو یہ بتانا چاہیے۔
سینئر صحافی جگتار سنگھ نے دی وائر کو بتایا کہ گولڈن ٹیمپل میں بے ادبی کاواقعہ کوئی واحد معاملہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی سالوں میں اس طرح کے بہت سے معاملےسامنے آئے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ متعلقہ ریاستی حکومتیں انہیں حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ، اسی لیے لوگ اب ان ہلاکتوں کو صحیح ٹھہرا رہے ہیں۔
یہاں تک کہ سکھ گرودوارہ مینجمنٹ کمیٹی(ایس جی پی سی)کے صدر ہرجیندر سنگھ دھامی نے بھی کہا کہ یہ بے ادبی کے معاملوںمیں حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے گولڈن ٹیمپل میں لنچنگ ہوئی۔
تمام مرکزی سیاسی جماعتوں نےتشدد کے اس حالیہ واقعہ پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ حالاں کہ، گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی نے کپورتھلا میں بے ادبی ہونے کے اس واقعہ کی تردید کرتے ہوئے اسےقتل قرار دیا اور معاملے میں نظام پور موڑ گرودوارہ کے نگراں کو بھی اس معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن مقتدرہ کانگریس کے دیگر اراکین سمیت باقی سب کی خاموشی قائم ہے۔
ایک صحافی نے دی وائر کو بتایا،ان واقعات نے ابھی پنجاب میں ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ قتل کی مذمت کرنے والا کوئی بھی بیان بے ادبی کے معاملے پر عوامی جذبات کی توہین کے طور پر دیکھا جائے گا۔ آنے والے اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے یہ اہم مدعا بن گیا ہے۔
سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق، پنجاب کی 57.69 فیصد آبادی سکھ مذہب پر عمل پیرا ہے، جس کی تعداد 16 ملین سے زیادہ ہے۔
سدھو کا تازہ ترین موقف حیران کن نہیں ہے
بے ادبی کے معاملے پر بولنےو الے بھی انتخابی موسم میں سیاسی طور پراہم بنے رہنے کے لیے عوامی جذبات کے خلاف نہیں جا رہے ہیں۔
پنجاب کانگریس کے ریاستی صدر نوجوت سنگھ سدھو نےبے ادبی کے معاملےکا استعمال سب سے پہلے امریندر سنگھ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے لیےکیا اور اب اس کا استعمال دوست سےدشمن بنے نئے وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی پر دباؤ ڈالنے کے لیے کر رہے ہیں۔
پنجاب کے ملیرکوٹلہ میں اپنے عوامی خطاب کے دوران انہوں نے بے ادبی میں ملوث افراد کو ‘
سرعام پھانسی‘ دینے کا مطالبہ کر کے ہلچل مچا دیا۔
بہت سے لوگ ان کے بیان کو لنچنگ کی کھلی حمایت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
بعد میں بے ادبی کے معاملات میں اپنی ہی حکومت کی بےعملی پر سخت تنقید کرتے ہوئے سدھو نے فرید کوٹ میں 2015 کے بےادبی مخالف مظاہروں کےدوران پولیس کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کے
گھر والوں سے ملاقات کی۔
اس دوران انہوں نے کہا کہ اگر لوگوں نے بے ادبی کے حالیہ دونوں واقعات میں خود ہی انصاف کردیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔
پنجاب میں کئی ایس آئی ٹی بے ادبی کے معاملوں کی جانچ کر رہی ہیں۔ جہاں پولیس کی تفتیش کا ایک حصہ سرسا میں واقع ڈیرہ سچا سودا کے پیروکاروں کے رول کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جس کے سربراہ گرمیت رام رحیم پہلے ہی مختلف جرائم میں سزا یافتہ ہیں اور جیل میں ہیں۔
سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی)، جس نے شروعات میں معاملے کی جانچ کی تھی، پہلے ہی بے ادبی کے معاملوں میں ڈیرہ کے پیروکاروں کے رول کو مسترد کر چکی ہے۔
اگرچہ یہ ابھی تک واضح طور پر سامنے نہیں آیا ہے کہ پنجاب میں 2015 کے بے ادبی کےواقعات کے لیے ذمہ دار کون تھا تو اس کے ساتھ ہی بے ادبی کے حالیہ واقعات نے پنجاب پولیس کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں۔
ان چیلنجز کے تحت اس کو یہ پتہ لگانا ہے کہ کیایہ حالیہ واقعات انتخابات سے عین پہلے کسی بڑی سازش کا توحصہ نہیں ہیں، جس کا مقصد انتخابات سےٹھیک پہلے مذہبی خطوط پر پنجابی سماج کو پولرائز کرنا ہے، جیسا کہ بہت سے لوگوں کو اس بات کا خوف بھی ہے۔
پنجاب کے سابق آئی اے ایس افسر کے بی ایس سدھو نے
ٹوئٹ کیا، میں مانتا ہوں کہ اس ناقابل معافی بے ادبی کی کوشش کے پیچھے کوئی سازش تھی۔ اس سازش کا مقصد دنیا بھر کے سکھوں کو غصہ دلانا کم اور پنجابی ہندوؤں کو ڈرانا اور دہشت زدہ کرنا زیادہ ہوگا۔
تعداد کے لحاظ سے،سکھوں اور دلتوں کے بعد ہندو ریاست میں ایک اہم سیاسی قوت ہیں،جن کی حمایت پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی پارٹی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پنجاب میں لنچنگ کے حق میں دلائل کا پہلا اثر یہ ہواہے کہ تعقل پسند آوازوں کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔
سی پی آئی (ایم) پنجاب یونٹ کے سکریٹری سکھویندر سنگھ سیکھون نے دی وائر کو بتایا کہ ماب لنچنگ چاہے پنجاب میں ہو یا کہیں اور یہ قابل مذمت ہے اور اسے کسی بھی قیمت پر روکا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی متوازی حکومت چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی اشتعال انگیز کیوں نہ ہوں۔
سیکھون نے کہا، ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ بے ادبی سےمتعلق مقدمات کی جانچ اوراس کو نمٹانے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے دیا جائے اورلاء اینڈ آرڈر کو کمزور کرنے کی اجازت دے دی جائے۔
نوجوت سنگھ سدھو کے ‘سرعام پھانسی’ والے بیان کی نکتہ چینی کرتے ہوئے سیکھون نے کہا کہ حکمراں جماعت کے ریاستی صدر کو ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔
سیکھون پوچھتے ہیں،میں سدھو سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہمارے آئین میں سرعام پھانسی کا کوئی اہتمام ہے؟ اگر نہیں تو وہ لوگوں کو صبر وتحمل کا درس دینے کے بجائے عوامی جذبات کو کیوں بھڑکا رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ،ہمارے ملک کی بنیاد مذہب پر نہیں رکھی گئی ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جو قانون اور آئین سے چلایا جاتا ہے۔ کیسےکوئی حکومت آئین کے دائرے سے باہر جا کر قانون توڑنے والوں کے ساتھ کھڑی ہو کر غلط مثال قائم کر سکتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ، جرم کتنا بھی خوفناک کیوں نہ ہو، مجرم کو ریاستی ایجنسی(پولیس)کے حوالے کیا جانا چاہیے اور قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔
سیکھون کے مطابق، اس بات کا امکان ہے کہ بے ادبی کی ان حالیہ کوششوں کا مقصد پنجاب میں کڑی محنت سے حاصل کیے گئے امن وامان کو خراب کرنا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ قوتیں خواہ اندرونی ہوں یا بیرونی، بے نقاب کی جائیں اور ان کی سازشوں کو سامنے لایا جائے۔
سی پی آئی کے ریاستی سکریٹری بنت سنگھ برار نے دی وائر کو بتایا کہ بے ادبی کے ملزمین کو مار کر بھیڑ نےپولیس کی تفتیش میں بھی خلل ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ، اگر ان بے ادبی کی کوششوں کے ذریعےسماج کو تقسیم کرنے کی کوئی گہری سازش تھی تو اب اس کا انکشاف کیسےہو گا جب اس کو انجام دینے کے لیے بھیجے گئے لوگ ہی زندہ نہیں بچ پائے؟
وہ پوچھتے ہیں کہ پولیس اس نتیجے پر کیسے پہنچے گی کہ اس طرح کے گھناؤنے جرم کی کوشش کرنے والا ذہنی طور پر معذور تھا یا درحقیقت کسی بڑے منصوبے یا سازش کا حصہ تھا۔
برار نے کہا،سنگھو بارڈر پر بے ادبی کی کوشش کے بارے میں مزید پرتیں سامنے آتیں اگر آج ملزم زندہ ہوتا۔ اسی طرح اگر گولڈن ٹیمپل میں بے ادبی کی کوشش کے لیے بھیجا گیا شخص آج زندہ ہوتا تو پولیس اس سے تفتیش کرکے بہت سے اہم سراغ حاصل کرسکتی تھی۔
برار نے مزید کہا کہ گولڈن ٹیمپل میں بے ادبی ایک صاف اور واضح معاملہ تھا، لیکن کپورتھلا میں مبینہ بے ادبی کی کوشش پر سوالیہ نشان اب بھی موجود ہیں جہاں ملزم کو بھیڑکے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، اب وقت آگیا ہے کہ ریاست کا سیاسی طبقہ آگے آئے اور لوگوں کو بتائے کہ بے ادبی کے معاملے میں مشکوک پائے جانے والے افراد کو قتل نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے جانچ کے بعد معاملے کی جڑ تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔
حالاں کہ ،برار نے کہا کہ پنجاب میں مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل کے پیچھے ایک اہم وجہ ہے۔
وہ کہتے ہیں،پنجاب میں انتخابات زیادہ دور نہیں ہیں اور ووٹ بینک کی سیاست سیاسی جماعتوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ ان ماب لنچنگ پر سخت موقف اختیار نہ کریں۔
برار نے کہا، یہ واقعات ریاست کو شدید بحران میں ڈال سکتے ہیں۔ اگر کل کسی کو محض شک کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے تو ہم حالات کوکیسے سنبھالیں گے؟
انہوں نے کہا کہ کسی بھی صورت میں ماب لنچنگ غلط ہے، چاہے یہ کسی بھی مذہب میں ہو یا کسی بھی کمیونٹی میں۔
جب سنگھو بارڈر پر لنچنگ کا واقعہ پیش آیا تو سنیکت کسان مورچہ نے فوراً اس کی مذمت کی تھی اور امن و امان برقرار رکھنے کی بات کہی تھی۔ لیکن، اس بار پنجاب میں اسی طرح کی وحشیانہ ہلاکتوں پر کئی دن گزرنے کے بعد بھی ایس کے ایم یا ذاتی طور پر کسی کسان رہنما کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
رابطہ کرنے پر، پنجاب کی سرکردہ فارم یونینوں میں سے ایک،بی ایچ کے یو-ایکتا اگراہاں کے صدرجوگندر سنگھ اگراہاں نے دی وائر کو بتایا،حالاں کہ یہ بے بے ادبی کے واقعات انتہائی قابل مذمت ہیں، لیکن میں فی الحال لنچنگ پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)