وہاٹس ایپ یا فیس بک کے برعکس ایپل متنازعہ نہیں ہے اور مودی حکومت اس کو اعلیٰ پائیدان پر رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں اب تک پیگاسس کے استعمال سےانکار کرتی آئی حکومت ہند کے لیے ایپل کے آپریٹنگ سسٹم میں ہوئی دراندازی کے سلسلے میں کمپنی کے نتائج کو مسترد کرنا بہت مشکل ہوگا۔
ایپل انک نے پیگاسس اسپائی ویئر کے توسط سے آئی فون صارفین کی غیرقانونی نگرانی کے لیےاسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ پر مقدمہ دائر کیا ہے، جس کا سپریم کورٹ کے ذریعےاس معاملے کے لیےمقرر کمیٹی کے زیر اہتمام چل رہی جانچ پر سنگین اثر ہوگا۔ یہ قدم، جو کچھ بھی ہوا اس کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان اور دیگر جگہوں پر ملٹری گریڈ کے سرولانس اسپائی ویئر کا استعمال اصل میں اپوزیشن کےلیڈروں، کارکنوں، صحافیوں، ججوں وغیرہ کو غیر قانونی طور پرٹریک کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایپل نے ہندوستان(اور دی وائر کےصحافیوں)سمیت مختلف ممالک کے آئی فون میں پیگاسس کے نشان ڈھونڈنے کے لیے ٹورنٹو یونیورسٹی کی سٹیزن لیب اور ایمنیسٹی ٹیک کے ذریعےاستعمال میں لائے گئے طریقوں پراعتبارکیا ہے۔
کمپنی کے بیان میں کہا گیا،‘ایپل سائبر سرولانس کے غلط استعمال اور متاثرین کے تحفظ کے لیے بہترین کام کرنے کے لیےسٹیزن لیب اور ایمنیسٹی ٹیک جیسےگروپوں کی تعریف کرتا ہے۔ اس طرح کی کوششوں کو مضبوط کرنے کےلیےایپل سائبر سرولانس ریسرچ کر رہےاداروں کو ایک کروڑ ڈالر کی خدمات دےگا اور ساتھ میں اس مقدمے سے ہوئے نقصان کی بھی بھرپائی کرےگا۔’
سٹیزن لیب اور ایمنیسٹی ٹیک کی طرف سے اپنائے گئے پروٹوکال اور طریقوں کی حمایت کرکے ایپل نے سپریم کورٹ کمیٹی کے کسی بھی تکنیکی ممبر کے لیے ان سےسنجیدگی سے سوال کرنے کو لگ بھگ ناممکن بنا دیا ہے۔
اصل میں، ایپل نے اس معاملے میں اپنا کام کر دیا ہے اور ممکن ہے کہ کیلی فورنیا کی ایک عدالت، جہاں وہاٹس ایپ پہلے سے ہی2019 میں اپنے سسٹم میں سیندھ لگانے کے لیے این ایس او کے خلاف معاملہ لڑ رہا ہے، میں اپنے نتائج پیش کرے۔
اتفاق سے وہاٹس ایپ نے حال ہی میں ایک اہم لڑائی جیتی ہے، جہاں ایک امریکی عدالت نے کہا کہ نجی اسرائیلی سرولانس کمپنی کو امریکی عدالتوں میں غیرملکی حکومتوں کو ملنےوالی سول مقدمے بازی سے چھوٹ نہیں ملے گی۔
سال 2019 کے اس وہاٹس ایپ سیندھ کواس کو لےکر ہوئے مقدمے کی یقینی طور پر حکومت ہند کے ذریعے سنجیدگی سے جانچ نہیں کی گئی تھی۔
پیگاسس کے استعمال کو لےکر کئی عدالتوں کے ذریعےجانچ کے پس منظر میں ایپل کے عدالت جانے سے ہندوستان ذمہ داری سے جواب دینے کے لیےمجبور ہے۔ اب تک حکومت ہند اس بات سے انکار کرتی رہی ہے کہ ہندوستانی شہریوں کے خلاف پیگاسس کا استعمال کیا گیا تھا۔ مودی سرکار نے سٹیزن لیب اور ایمنیسٹی ٹیک کے استعمال کے طریقے پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔
اس لیے، ایپل کا اس پراتفاق بہت اہم ہے۔
وہاٹس ایپ یا اس کے مالک فیس بک کےبرعکس ایپل متنازعہ نہیں ہے اور مودی حکومت کے ذریعے اس کواعلیٰ پائیدان پر رکھا گیا ہے۔ اصل میں گزشتہ پانچ سالوں میں آئی فون بنانے کے لیےہندوستان میں ایپل کی سرمایہ کاری کو سرکار نے ہندوستان کی بڑی’آتم نربھر’پہل بتایا ہے، جس سے چینی موبائل الکٹرانکس پرانحصار کم ہو رہا ہے۔ سابق آئی ٹی وزیر روی شنکر پرساد نے ایپل کے ذریعے آئی فون بنانے کےسسٹم کے ایک بڑے حصہ کو چین سے دورکر ہندوستان لانے کے لیے کمپنی کی بہت تعریف کی تھی۔
اس پس منظر میں حکومت ہندکے لیے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے اپنے آپریٹنگ سسٹم کے بڑے پیمانے پر ہوئی دراندازی کے سلسلے میں ایپل کےنتائج کو مسترد کرنا بہت مشکل ہوگا۔
اب یہ ہندوستان میں پیگاسس سرولانس کی جانچ کر رہی سپریم کورٹ کی کمیٹی اور لوکورکمیشن پر منحصر ہےکہ وہ ایپل کے اعلیٰ عہدیداروں کو گواہی دینے کے لیے بلائیں۔اگر ایپل کے حکام کہتے ہیں کہ ہندوستان میں پیگاسس کا استعمال ہوا ہے تو یہ مودی حکومت کے لیے بےحد شرمناک ہوگا۔
کچھ مہینے پہلے میں نے ہندوستان میں ایپل کے ایک افسر سے پوچھا تھا کہ کمپنی پیگاسس کے ذریعے اس کی پرائیویسی کی برانڈنگ کو بھاری جھٹکا کیسے برداشت کر سکتی ہے۔ایپل نے، بھلے ہی کچھ دیر سے، پر جواب دینا چنا ہے۔ عدالت جاکر ایپل اپنی گلوبل برانڈامیج کو بچا رہا ہے، جو کافی حد تک لاکھوں آئی فون گراہکوں کو دی جانے والی پرائیویسی کے بل بوتے پربنی ہے۔
ایپل نے دکھایا ہے کہ گراہکوں کی حفاظت سب سے اوپر ہے، بھلے ہی یہ ان کچھ سرکاروں کو شرمندہ کرے، جن کے ساتھ وہ کاروبار کر رہے ہیں۔ یہی ایک مثبت بات ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)