ہندوتوا حامی ایک پورٹل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چاروں شنکراچاریہ مندر پر سیاست، حفظ مراتب کا خیال نہ رکھنے اور قبل از وقت پران —پرتشٹھا کی تقریب کرنے سے ناراض ہیں۔ اس کے مطابق، ان کا کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کو عملی جامہ پہنانے کے باوجود حکومت ‘سیاسی فائدے کے لیے ہندوؤں کے جذبات کا استحصال کر رہی ہے’۔
نئی دہلی: سناتن/ہندو مذہب کے روحانی گرو، یعنی چار شنکراچاریہ، ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب کا حصہ نہیں ہوں گے، جیسا کہ دی اسٹرگل فار ہندو ایکزسٹینس نے 7 جنوری کو اپنی رپورٹ میں بتایا ہے ۔
دی اسٹرگل فار ہندو ایکزسٹینس اعلانیہ طور پر ہندوتوا حامی پورٹل ہے، جو عالمی سطح پر ہندوؤں کے تحفظ اور جدوجہد کے لیے وقف ہے۔
پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بطور ‘مہمان خصوصی’ شرکت نے ایودھیا میں 22 جنوری کو مجوزہ پران — پرتشٹھا کی تقریب کے حوالے سے سینئر سنتوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔
پورٹل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، ‘انہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اس تقریب کی مرکزی پس منظر میں آ جائیں گے، جو ممکنہ طور پر سناتن شاستروں کے ذریعے طے شدہ روایتی رسومات کو کمزور کر رہے ہیں۔ رام مندر پران — پرتشٹھا کے لیے عوامی جوش و خروش کے باوجود، شنکراچاریہ کی غیر موجودگی عقیدت مند ہندوؤں کے درمیان تنازعہ کا موضوع ہے۔’
‘پاکیزگی اور تعظیم کا فقدان’
گووردھن مٹھ پوری پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی شری نشچلانند سرسوتی نے ایودھیا رام مندر پران — پرتشٹھا پروگرام میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ‘حکومت کی توجہ ایک ‘مقدس مندر’ کی تعمیر پر مرکوز نہیں ہے، بلکہ ان کے الفاظ میں، ‘ایک سمادھی’ کی تعمیر پر مرکوز ہے۔
یہ تصویر کشی اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ اس منصوبے میں ‘روایتی مندر کی تعمیر’ میں مضمر تقدس اور احترام کا فقدان ہے۔ ان کا شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اس اصول پر مبنی ہے کہ کسی ایسی جگہ کا حصہ نہیں بننا چاہے جہاں حفظ مراتب کا خیال نہ رکھا جاتا ہو۔
پروگرام میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ان کے عہدہ سے وابستہ وقار اور شان کو برقرار رکھنے کے عزم میں مضمر ہے۔ پران — پرتشٹھا میں شرکت سےگریز شری رام کی عقیدت سے انکار نہیں ہے، بلکہ کچھ لیڈروں کی موقع پرست اور جوڑ توڑ کی سیاست کے خلاف ایک اصولی موقف ہے۔
یہ موقف روحانی قیادت، جسے ‘شاطر’ سیاسی شخصیات کے اثر و رسوخ سے پاک مانا جاتا ہے، کی آزادی اور اخلاقی سالمیت پر زور دیتا ہے۔
‘مندر ابھی بھی زیر تعمیر ہے’
بتایا جا رہا ہے کہ سرینگری شاردا پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی شری بھارتی تیرتھ جی نے رام مندر کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کرنے کے باوجود دعوت قبول نہیں کی ہے۔
ان کا اعتراض اس بات پر ہے کہ مندر ابھی بھی زیر تعمیر ہے۔وہ ایسے ‘کام کی حرمت’ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک ایسے ڈھانچے میں بھگوان کو قائم کرنے کو نامناسب سمجھتے ہیں جو ابھی تک مکمل نہیں ہے۔
نظر انداز کیے جانے کے احساس نے ان کے عدم اطمینان کو مزید بڑھا دیا ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دیگر معزز شخصیات کے ساتھ مل کر رام مندر کے حوالے سے عدالت میں ثبوت پیش کیے تھے۔
تاہم، ان کے بیان کے مطابق، رام مندر ٹرسٹ نے ان سے یا ان کے نمائندوں سے مشورہ نہیں کیا، جو ممتاز روحانی رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کی کمی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
پورٹل کے مطابق، شنکراچاریہ نے مودی حکومت پر دوہرا کردار اپنانے کا الزام لگایا ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ حکومت، رام مندر کی تعمیر کوعملی جامہ پہنانے کے باوجود، ‘سیاسی فائدے کے لیے ہندو جذبات کا استحصال کر رہی ہے۔’
یہ دعویٰ حکومت کے ارادوں اور مذہبی برادری کی مجموعی بہبود کے عزم کے بارے میں وسیع پیمانے پر شکوک و شبہات کی عکاسی کرتا ہے۔
‘نامناسب وقت’
دوارکا شاردا پیٹھ کے شنکراچاریہ شری سوامی سدانند سرسوتی نے بھی رام مندر مہوتسو میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پران — پرتشٹھا کے وقت کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ شاستروں کے مطابق پوش کے نامبارک مہینےمیں دیوتاؤں میں پران — پرتشٹھا کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ زیادہ مناسب وقت رام نومی کا ہوتا، جو بھگوان رام کی یوم پیدائش ہے۔ تنازعہ کا مرکزی نکتہ ‘ایونٹ کی مبینہ سیاست کاری’ ہے۔ سوامی سدانند سرسوتی کا کہنا ہے کہ اس وقت ہو رہی پران — پرتشٹھا کی بنیادی وجہ سیاست ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ رام نومی کے دوران انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ رہے گا، جس کی وجہ سے بی جے پی لیڈروں کے لیے سیاسی نقطہ نظر سے پران — پرتشٹھا فائدے کا سودا نہیں ہوگا۔
یہ نقطہ نظر مندر کی پران — پرتشٹھا کے ارد گرد فیصلہ سازی کے عمل کی سیاسی جہتوں کو متعارف کراتا ہے۔
مزید برآں، سوامی سدانند نے سرسوتی مندر کی تکمیل سے قبل اس کی تقدیس کے پیچھے کے جواز پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی گھر میں تب تک داخل نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ پوری طرح تیار نہ ہو جائے۔
‘دھرم شاستر کے خلاف’
جیوتیرمٹھ کے شنکراچاریہ سوامی شری اوی مکتیشورانند سرسوتی نے اپنےخدشات کا حوالہ دیتے ہوئے 22 جنوری کو ایودھیا کے پروگرام میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بارے میں دی وائر نے 9 جنوری کواپنی رپورٹ میں بتایا تھا ۔
انہوں نے کہا، ‘ہم مودی مخالف نہیں ہیں، لیکن ہم دھرم شاستر کے خلاف بھی نہیں جانا چاہتے۔’
اس پورٹل کا کہنا ہے کہ سوامی اوی مکتیشورانند کا دعویٰ ہے، ‘ویدوں میں پروہتوں کے کردار کے لیے خصوصی اہتمام ہے، جو اسے برہمنوں کے لیے محفوظ کرتا ہے۔ ویدک روایات کے مطابق پروہتی خصوصی طور پربرہمن ذات کے لیے مانی جاتی ہے۔’
سوامی اوی مکتیشورانند سرسوتی ویدوں میں مذکور ان طریقوں پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
انہوں نے مندر کے پجاری کے طور پر شودر کی تقرری کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے ویدوں میں مذکور مذہبی اصولوں سے انحراف کے طور پر دیکھتے ہیں۔
پورٹل لکھتا ہے، ‘یہ بھی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک بار نریندر مودی اپنی سیاسی ثروت مندی کے لیے آشیرواد حاصل کرنے کے لیے شنکراچاریہ کے قدموں میں دیکھے گئے تھے، جو اب سناتن اقدار اور وقار کو مجروح کرنے کے لیے ایک غیر مذہبی انسان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔’
اس میں کہا گیا ہے، ‘ رام مندر کی پران — پرتشٹھا میں ہندو مذہب کے سب سے بڑے مذہبی گروؤں کا شامل نہ ہونا واقعتاً بدقسمتی کی بات ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہبی جھٹکا ہے بلکہ اس کے وسیع تر سماجی اور سیاسی اثرات بھی ہیں۔’
سرینگری شنکراچاریہ شری بھارتی تیرتھ مہاسوامی جی نے اپنا آشیرواد دیا ہے کہ ہر آستک کو بھگوان شری رام کی بے پناہ عنایتیں حاصل کرنے کے لیے 22 جنوری کو ایودھیا میں سب سے مقدس اور نایاب پران — پرتشٹھا میں شرکت کرنی چاہیے۔ لیکن، پورٹل کا کہنا ہے، ‘یہ ابھی تک پیغام سے واضح نہیں ہے کہ وہ ایودھیا میں پران — پرتشٹھا کی تقریب میں شرکت کریں گے یا نہیں۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔