نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں پولیس حراست میں سب سے زیادہ اموات کے معاملے میں مدھیہ پردیش تیسرے نمبر پر ہے۔ اگست 2023 میں حکومت نے بتایا تھا کہ 1 اپریل 2018 سے 31 مارچ 2023 تک اس طرح کی اموات کے معاملے میں گجرات پہلے اور مہاراشٹر دوسرے نمبر پر تھا۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)
مدھیہ پردیش کے گنا میں 14 جولائی کوپولیس نے ایک دولہے کو اس کی شادی والے دن پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا اور بعد میں اس کی مشتبہ حالات میں موت ہو گئی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ نوجوان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، جبکہ اہل خانہ کا الزام ہے کہ حراست میں اس کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔ معاملے نے اس وقت طول پکڑ لیا جب اہل خانہ نے کلکٹریٹ میں احتجاج کرتے ہوئے اپنے کپڑے اتارنے شروع کردیے۔ مجسٹریٹ جانچ کی یقین دہانی کے بعد اس پر قابو پایا جا سکا۔
مدھیہ پردیش میں پولیس حراست میں موت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این ایچ آر سی) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں پولیس حراست میں سب سے زیادہ اموات کے معاملے میں مدھیہ پردیش تیسرے نمبر پر ہے۔
یکم اگست 2023 کو پارلیامنٹ میں ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے ملک بھر میں پولیس حراست میں ہونے والی اموات کا ڈیٹا پیش کیا تھا۔ یکم اپریل 2018 سے 31 مارچ 2023 تک پولیس حراست میں ہوئی اموات کے معاملے میں گجرات پہلے، مہاراشٹر دوسرے اور مدھیہ پردیش تیسرے نمبر پرتھا۔
ان پانچ سالوں کے دوران گجرات میں جہاں81 اموات پولیس حراست میں ہوئیں، مہاراشٹر میں 80 اور مدھیہ پردیش میں 50، بہار میں 47 اور اتر پردیش میں اسی عرصے میں41 اموات ہوئیں۔
دو سرکاری ایجنسیوں کے اعداد و شمار میں چار گنا سے زیادہ کا فرق
ملک میں پولیس حراست میں اموات کی اصل تصویر کا سامنے آنا بہت مشکل ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار میں فرق ہے۔
این ایچ آر سی کی2021-22 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، یکم اپریل 2021 سے 31 مارچ 2022 تک ملک بھر میں پولیس حراست میں موت کی 175 شکایتیں موصول ہوئیں۔ جبکہ این سی آر بی کی ‘کرائم ان انڈیا 2022’ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1 جنوری 2022 سے 31 دسمبر 2022 کے درمیان ملک بھر میں پولیس حراست میں 41 اموات ہوئیں اور حراستی موت کے صرف 9 معاملات میں ایف آئی آر درج کی گئیں۔ اگرچہ دونوں رپورٹ کا وقت مختلف ہے، لیکن 12 مہینے میں اموات کے اعداد و شمار میں چار گنا سے زیادہ کا فرق ہے۔
حراست میں موت پر پولیس کو فوراً ایکشن لینا ہوتا ہے
تاہم، اس فرق کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ این ایچ آر سی حراست میں ہونے والی ہر طرح کی موت کی شکایات کا نوٹس لیتا ہے، جبکہ پولیس اپنی حراست میں ہونے والی موت کے بہت سے معاملات کو خودکشی ، دل کا دورہ یا پرانی بیماری کی وجہ سے ہونے والی موت قرار دیتی ہے۔
پولیس پر مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حراست میں ہونے والی اموات کے معاملوں کو چھپانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً، انسانی حقوق کمیشن، خواتین کمیشن، شیڈول کاسٹ-ٹرائب جیسے کمیشن اور عدالتیں بھی ان مسائل کا از خود نوٹس لیتے ہیں۔ لہذا، حراست میں موت کے معاملے میں پولیس کو کم از کم درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے؛
حراست میں موت کے 24 گھنٹے کے اندر، متعلقہ تھانہ این ایچ آر سی کو اس کی جانکاری دے گا۔
پوسٹ مارٹم کی ویڈیو ریکارڈنگ، پوسٹ مارٹم رپورٹ، ویزرا کی جانچ کی رپورٹ این ایچ آر سی کو بھیجی جائے گی۔
واقعہ کی مجسٹریٹ جانچ کی رپورٹ دو ماہ کے اندر این ایچ آر سی کو بھیجی جائے گی۔
تیرہ کیمروں کی نگاہ میں ہونا چاہیے ایک تھانہ، لیکن کئی جگہوں پر ایک کیمرہ بھی نہیں
حراست میں مار پیٹ یا موت کے اسی طرح کے واقعات سے بچنے یا انہیں کم کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے اہم ہدایات دی ہیں۔ سپریم کورٹ نے 2 دسمبر 2020 کو ‘پرم ویر سینی بنام بلجیت سنگھ اور دیگر’ معاملے میں ملک کے تمام تھانوں کو سی سی ٹی وی سے کور کرنے کے حوالے سے ہدایات جاری کی تھیں۔
ان رہنما خطوط میں کہا گیا تھا کہ ایک تھانے کو 13 کیمروں سے کور ہونا چاہیے، لیکن پھر بھی ملک میں کئی تھانے ایسے ہیں جہاں ایک بھی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں ہے۔
پولیس اسٹیشنوں کو سی سی ٹی وی کیمروں سے کور کرنے کے لیے ریاستیں اپنا بجٹ مختص کرتی ہیں اور مرکزی فنڈکا بھی استعمال کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، ‘انڈیا جسٹس رپورٹ (آئی جے آر) 2022’ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنوری 2022 تک ملک کے چار میں سے ایک تھانے میں ایک بھی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں لگایا گیا تھا۔
آئی جے آر کی آر ٹی آئی میں آدھے سے زیادہ صوبوں نے گول کردیا جواب
‘انڈیا جسٹس رپورٹ’ کی جانب سےتمام 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے آرٹی آئی کے تحت تھانوں میں سی سی ٹی وی سے متعلق میں پوچھے گئے تمام سوالوں کا جواب آدھے سے بھی کم ریاستوں نے دیا۔
مدھیہ پردیش پولیس نے جواب دیا کہ ریاست کے تھانوں میں کل 3436 سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔ تاہم، یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنے تھانوں میں کم از کم ایک سی سی ٹی وی کیمرہ ہے۔
لیکن وزارت داخلہ کی ‘ڈیٹا آن پولس آرگنائزیشنز’ کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 1 جنوری 2023 تک مدھیہ پردیش کے 1350 تھانوں میں سے 1136 تھانوں میں یعنی 84 فیصد تھانوں میں کم از کم ایک سی سی ٹی وی کیمرہ نصب تھا۔
تھانے میں سی سی ٹی وی کیمروں کی اہمیت
پولیس حراست میں ہونے والی اموات کے معاملے میں سب سے آگے رہنے والے گجرات کی بات کریں، تو وزارت داخلہ کی ‘ڈیٹا آن پولیس آرگنائزیشنز’ رپورٹ کے مطابق، یہاں صرف 69 فیصد پولیس اسٹیشن سی سی ٹی وی کیمروں سے کور ہیں اور مہاراشٹر میں 82 فیصد تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔
یکم جنوری 2023 تک گجرات کے 957 تھانوں میں سے 662 اور مہاراشٹر کے 1320 تھانوں میں سے 1082 میں کم از کم ایک سی سی ٹی وی کیمرہ نصب تھا۔
ایسے کئی واقعات ہیں، جو تھانے میں لگے سی سی ٹی وی کی اہمیت کو ثابت کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف حراست میں ملزمان بلکہ پولیس اہلکاروں کے لیے بھی ضروری ہے۔
پچھلے دنوں 22 جولائی 2024 کو گجرات ہائی کورٹ کی جسٹس گیتا گوپی نے ایک ضمانت کےمعاملے پر سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں تھانے میں سی سی ٹی وی کیمروں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ تھانوں میں سی سی ٹی وی ہونے سے پولیس اور متاثرہ فریق کے درمیان الزام تراشیوں کی حقیقت کوجاننا آسان ہو جاتا ہے۔
پولیس پر اکثر حراست میں غیر انسانی اور غیر قانونی طریقے اپنانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ سی سی ٹی وی ہونے سے پولیس اسے اپنے دفاع کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔ شکایت کنندہ، ملزم یا گواہ کے ساتھ پولیس کا رویہ کس طرح کا ہے، یہاں تک کہ تھانے کی اندرونی صورتحال بھی سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ سے سمجھی جا سکتی ہے۔
مختلف ریاستوں میں پیش آنے والے یہ چھ واقعات بتاتے ہیں کہ پولیس حراست میں ہونے والی اموات کے معاملات کتنے سنگین ہیں اور ان کے لیے سی سی ٹی وی کاکورڈ ہونا کتنا ضروری ہے؛
پہلا؛ مہاراشٹر کے ممبئی پولیس ہیڈ کوارٹر میں 1 مئی 2024 کو ایک ملزم کی پولیس حراست میں موت ہو گئی۔ ملزم پر فلم اداکار سلمان خان کے گھر کے باہر فائرنگ کا الزام تھا۔ پولیس نے اسے خودکشی قرار دیا۔
دوسرا؛ آندھرا پردیش کے ناندیال ضلع کے متدور پولیس اسٹیشن میں 20 جولائی 2024 کو پولیس حراست میں ایک نوجوان کی موت ہوگئی۔ اسے پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
تیسرا؛ چھتیس گڑھ کے کوربا ضلع میں 19 جولائی 2024 کو ڈکیتی کے ایک ملزم کی پولیس حراست میں موت ہو گئی۔ اہل خانہ نے الزام لگایا کہ متاثرہ کے پاؤں میں گولی کے نشان پائے گئے ہیں۔
چوتھا؛ اروناچل پردیش کے چانگلانگ ضلع میں 19 جولائی 2024 کو ایک 47 سالہ خاتون کی پولیس حراست میں موت ہوگئی۔ خاتون کو ایک روز قبل حراست میں لیا گیا تھا۔
پانچواں؛ گجرات کے راجکوٹ میں 14 اپریل 2024 کو پولیس نے ایک نوجوان کو حراست میں لیا اور اسے دو گھنٹے بعد چھوڑ دیا۔ اہل خانہ نے الزام لگایا کہ حراست میں تشدد کے باعث اس کی جان چلی گئی۔
چھٹا؛ اتر پردیش کے نوئیڈا میں پولیس نے مئی 2024 میں ایک بیکری سپروائزر کو ریپ کے الزام میں پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا تھا، جو 24 گھنٹے کے اندر ہی پولیس بیرک میں لٹکا ہوا پایا گیا۔ اہل خانہ نے اس کا ذمہ دار پولیس کو ٹھہرایا۔
این ایچ آر سی کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں حراست میں اموات کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 20-2019 میں 112، 2020-21 میں 100، 2021-22 میں 175 اور 2022-23 میں 164 اموات کے معاملے سامنے آئے۔ حراست میں اموات یا پولیس تشدد کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا اقدام بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ان ہدایات پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ہر ریاست میں پولیس حراست میں تشدد کی صورتحال ایک جیسی ہے۔ اسی سال جنوری میں سپریم کورٹ نے گجرات پولیس سے کچھ نوجوانوں کو باندھ کرپیٹنے پر سوال کیا کہ پولیس نے کس حق سے ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔
وہیں، تمل ناڈو کے توتوکوڈی ضلع کے ساتھنکلم میں 2020 میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں پولیس نے باپ بیٹے جےراج اور بینکس کو حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے دونوں کی موت ہوگئی۔ جانچ میں تعاون نہ کرنے پر مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ نے پورے تھانے کو ضلع کلکٹر کے کنٹرول میں دے دیا تھا۔ یہ اپنے آپ میں ایک منفرد کیس تھا۔
ہندوستان تشدد (ٹارچر)کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود نہ تو پولیس اور نہ ہی معاشرے میں پولیس تشدد کے بارے میں اتنی بیداری ہے جیسی دوسرے ممالک میں ہے۔
(نینیکا سنگھل اوربھارت سنگھ، انڈیا جسٹس رپورٹ سے وابستہ ہیں۔)