بی جے پی جو اس ریاست کو بھگوا بنانا چاہتی ہے، یہ نہیں جانتی کہ دیودار کے جنگلات اپنی زندگی کی توانائی مقامی دیویوں سے حاصل کرتے ہیں اور برفانی پہاڑوں پر اس کرہ ارض کی چند بے مثال اور قدیم بدھ خانقاہیں سرد دھوپ میں چمکتی ہیں۔
تاشی گانگ میں ہندوستان کا بلند ترین پولنگ بوتھ۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)
منڈی/شملہ: ہماچل پردیش کی آبادی صرف 75 لاکھ ہے، ہندوستان کے کئی میٹروپولیٹن شہروں سے بھی کم، لیکن تاریخ اور سیاست کے متعدد دھارے اس پہاڑی ریاست کے جغرافیہ سے گزرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، منڈی انتخابی حلقہ کی چینی تحصیل میں آزاد ہندوستان کی پہلی ووٹنگ درج کی گئی تھی۔ پورے ملک نے 1952 کے آغاز میں پہلی لوک سبھا کے لیے ووٹ ڈالے تھے، لیکن الیکشن کمیشن نے اکتوبر 1951 میں ہی چین میں ووٹنگ کروائی تھی کیونکہ سردیوں میں یہ علاقہ دنیا سے منقطع ہو کر برفیلے جزیرے کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ اس چھوٹے سے علاقے میں تبت کے پنچن لاما سے عقیدت رکھنے والے بدھ مت کے صرف چند پیروکار رہتے تھے، لیکن ان دنوں ہندوستانی حکومت جمہوریت کو ملک کے ہر گوشے تک لے جانے کے لیے پرعزم تھی۔
اسی کڑی میں وجود میں آیا وادی سپیتی کے برفانی صحرا میں ہندوستان کا بلند ترین پولنگ بوتھ تاشی گانگ، جہاں آج صرف
52 رجسٹرڈ ووٹر ہیں لیکن یہ سب بڑے جوش وخروش کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ 2019 کے انتخابات میں یہاں سو فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی تھی۔
بائیں بازو کی طلبہ سیاست اور سماجی ڈھانچہ
اس ریاست کی طلبہ سیاست بھی ایک پیچیدہ ترتیب میں پروئی ہوئی ہے۔ ہماچل نے انتہائی متحرک بائیں بازو کی طلبہ تحریک کا مشاہدہ کیا ہے، آج بھی کئی جگہوں پر لال جھنڈے نظر آجاتے ہیں، لیکن وہ انتخابی کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ کئی دہائیوں تک اسٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) ریاست میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کو چیلنج پیش کرتی رہی، لیکن یونیورسٹیوں میں انتہائی سرگرم رہنے والے بائیں بازو کے طلباء اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راہیں بدل لیتے تھے اور انتخابی سیاست دو بڑی جماعتوں کے پاس چلی جاتی تھی۔
اس نمائندے نے ایک بار بی جے پی کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ جئے رام ٹھاکر سے پوچھا تھا کہ ایس ایف آئی کارکن کہاں غائب ہو جاتےہیں؟
انہوں نے کہا تھا، ‘کمیونسٹ پس منظر والے زیادہ تر لوگ جب سیاست میں داخل ہوتے ہیں تو کانگریس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ جب وہ (ایس ایف آئی سے وابستہ نوجوان) کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہوتے ہیں، تب بھی وہ اپنے امیدوار کو ووٹ دینے کے بجائے کانگریس کو ووٹ دیتے ہیں۔’
دی وائر سے بات کرتے ہوئے شملہ کے سابق ڈپٹی میئر ٹکیندر پنوار ایک نیا نظریہ پیش کرتے ہیں۔
ہماچل پردیش میں بائیں بازو کی طلبہ تحریک بہت مضبوط رہی ہے۔ کیرالہ اور مغربی بنگال جیسی چند ریاستوں کو چھوڑ کر، آپ کو کسی بھی ریاست میں ایسی تحریک نظر نہیں آئے گی،’ وہ کہتے ہیں۔
لیکن یہ تیور سیاسی غلبے میں تبدیل کیوں نہ ہوپائے؟
‘کیرالہ میں بائیں بازو کے باصلاحیت طلبہ لیڈروں نے پارٹی سیاست میں قدم رکھا، الیکشن لڑا اور وزیر بن گئے۔ ہماچل کے ہونہار طلباء دوسری نوکریوں میں چلے گئے،’ پنوار کہتے ہیں، جو خود سی پی ایم لیڈر ہیں۔
ایسا نہیں ہوا کہ ان طلباء نے اپنے ترقی پسند شعور کو ترک کر دیا، بلکہ پالیٹکل اسپیس کے فقدان میں وہ دوسری سمتوں میں چلے گئے۔
کلو میں ایک انتخابی جلسہ میں منڈی سیٹ سے کانگریس کے امیدوار وکرم آدتیہ سنگھ ۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@VikramadityaINC)
اس کی ایک وجہ ہماچل کے پہلے وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر وائی ایس پرمار کے طویل اور بااثر دور میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اصلاحات اراضی جیسے اشتراکی مطالبات کو نافذ کیا اور کمیونسٹ سیاست کے لیے جگہ کم کردی۔
‘وائی ایس پرمار دل سے کمیونسٹ لیڈر تھے۔ اپنے دور میں انہوں نے بائیں بازو کے سروکاروں کو کئی کمیونسٹ لیڈروں سے کہیں بہتر انداز میں پیش کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ کیرالہ اور جموں کشمیر کے بعد ہماچل کی اصلاحات اراضی ملک میں سب سے زیادہ مؤثر رہی ہیں،’ پنوار کہتے ہیں۔
اگر اصلاحات اراضی نے کسانوں کو اہم حقوق دیے تو سیب اور دیگر نایاب نقدی فصلوں نے خطے کو خوشحال بنا دیا۔ ہماچل میں سیب کے باغات ہیں، لیکن آپ کسی ہماچلی کو ان باغات میں کسانی یا ڈھلائی کرتے ہوئے شاید ہی کبھی پائیں گے- یہ کام نیپالی یا دیگر ہندوستانی ریاستوں کے باشندوں کو دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ہماچل کا بارہماسی سیاحت ہے جس نے دور افتادہ گاؤں کو بھی خوشحال بنا دیا ہے۔
‘ہماچل میں کوئی ورکنگ کلاس نہیں ہے، وہاں صرف سروس سیکٹر کے ملازمین اور افسران ہیں،’ پنوار کہتے ہیں۔
ان تمام عوامل کی وجہ سے سرگرم طلبہ تحریک کے باوجود بائیں بازو کی سیاست کو پھلنے پھولنے کے لیے زمین نہیں مل سکی۔
کنگنا پر کانگریس کے بیہودہ حملے
اس ریاست کے سماجی ڈھانچے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کی درج فہرست ذاتیں دوسری ہندی بیلٹ کی ریاستوں کے مقابلے کافی خوشحال ہیں۔ دور افتادہ لاہول میں درج فہرست قبائل کا ایک چھوٹا سا علاقہ عرصے سے ‘آئی اے ایس افسران کا گاؤں’ بنا ہوا ہے۔ خواتین کی حالت بھی دیگر ریاستوں کے مقابلے کہیں بہتر ہے، وہ زیادہ خود مختار ہیں۔ وہ شہروں اور دیہاتوں کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر بے خوفی سے ٹہلتی نظر آتی ہیں۔ سیاسی جلسوں میں بھی ان کی شرکت زیادہ نظر آتی ہے۔
لیکن اس کے باوجود منڈی سیٹ سے بی جے پی امیدوار کنگنا رناوت کے خلاف کانگریس انتہائی قابل اعتراض حملے کر رہی ہے۔
ستائیس مئی کو منڈی ضلع میں ایک بڑی انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے سابق ایم ایل اے بمبر ٹھاکر نے کنگنا کو غیر مہذب انداز میں مخاطب کیا تھا، ‘یہ ناری شکتی کے نام پر دھبہ ہے۔ ہم اسے بہن نہیں کہہ سکتے… کہتی ہے کہ میں لڑکی ہوں۔ لڑکی وہ ہوتی ہے جس کی شادی نہیں ہوئی ہوتی۔یہ تو کہتی ہے کہ جس بھی فلم کے لیے اندر جاتی ہوں، وہاں پر جو ہیرو ہوتا ہےاس کے ساتھ مجھے بیوی کے طو رپر رہنا پڑتا ہے… ہیرو کے ساتھ ہی نہیں، ڈائریکٹر کے ساتھ بھی۔’
کانگریس نے اگنی پتھ اسکیم کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور فوج میں ہماچل رجمنٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی کو اس معاملے پر ووٹروں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ فی الحال
46960 فوجی ہماچل پردیش سے ہیں ۔ ملک کی آبادی میں ہماچل کا حصہ صرف 0.57 فیصد ہے، لیکن فوج میں اس کا حصہ 4 فیصد ہے۔ اگنی پتھ اسکیم کے آغاز سے پہلے یعنی 2018-19 اور 2019-20 کی آخری دو باقاعدہ بھرتیوں میں ہماچل سے بالترتیب 4202 اور 5882 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔
لیکن کانگریس اپنے سب سے اہم وعدے یعنی خواتین کے احترام کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کنگنا پر گھٹیا سطح کے حملے کرکے اور ‘سگریٹ نوشی’ کے لیے عوامی طور پر ان کا مذاق بنا کر کانگریس لیڈروں نے وہ اخلاقی بنیاد کھو دی ہے جس کی راہل گاندھی وکالت کرتے ہیں۔
انتخابی ہلچل
لیکن لوک سبھا کی صرف چار سیٹوں والی اس ریاست میں سرکردہ لیڈروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آنجہانی وزیر اعلیٰ ویربھدر سنگھ کے بیٹے وکرم آدتیہ سنگھ کنگنا کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ وکرم آدتیہ کا خاندان اس منڈی سیٹ کو چھ بار جیت چکا ہے۔
مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر ہمیر پور میں بی جے پی کے امیدوار ہیں، جبکہ سابق مرکزی وزیر آنند شرما کانگڑا میں کانگریس کے امیدوار ہیں۔ ہماچل بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کی آبائی ریاست بھی ہے، جن کی انوراگ ٹھاکر کے ساتھ رقابت اورچشمک کےچرچے ہوتے رہتے ہیں۔
شملہ میں بی جے پی کی ریلی۔ (تصویر: آشوتوش بھاردواج/دی وائر)
لیکن ایک جون کی اہمیت صرف یہ نہیں ہے۔ اس دن ہماچل پردیش میں چھ اسمبلی سیٹوں کے لیے بھی ووٹنگ ہو رہی ہے، جو اس سال کے شروع میں راجیہ سبھا انتخابات میں کراس ووٹنگ کے لیے کانگریس کے چھ ایم ایل اے کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد خالی ہوئی تھیں۔
بی جے پی نے ان سب کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیا اور انہیں انہی حلقوں سے ٹکٹ دیا جہاں سے انہوں نے 2022 کے اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کی تھی۔ یہ امیدوار راجندر رانا (سجان پور)، سدھیر شرما (دھرم شالہ)، روی ٹھاکر (لاہول-اسپیتی)، اندر دت لکھن پال (برسر)، دیویندر کمار بھٹو (کٹلیہر) اور چیتنیہ شرما (گگریٹ) ہیں۔
اس ضمنی انتخاب کا ریاست کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟
ارسٹھ (68) سیٹوں والی اسمبلی میں کانگریس کے 34 ایم ایل اے ہیں۔ اگر اسے ان چھ میں سے ایک سیٹ بھی مل جاتی ہے تو اسے مکمل اکثریت حاصل جائے گی۔ لیکن اگر بی جے پی تمام چھ سیٹیں جیت لیتی ہے تو اس کے 25 ایم ایل اے کی موجودہ تعداد بڑھ کر 31 ہو جائے گی، جس کے باعث آزاد اور کچھ کانگریس ایم ایل اے کے پارٹی بدلنے کا امکان بڑھ جائے گا۔
لیکن کسی بھی ہماچلی کے لیے سب سے بڑی تشویش ریاست کا سماجی ماحول ہونا چاہیے۔ بہر حال، یہ واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی فرقہ پرستی کو ہوا میں گھول نہیں پائی ہے، ایک ایسی حکمت عملی جس کو اس نے پڑوسی ریاسٹ اتراکھنڈ میں بخوبی بھنا لیا ہے۔ اگر اس کی ایک وجہ بائیں بازو کی طلبہ تحریک رہی ہے، جس نے کئی دہائیوں تک اے بی وی پی-بی جے پی کا کامیابی سے مقابلہ کیا، تو دوسری وجہ پہاڑی ثقافت کی گرمجوشی اور فطری مذہبیت ہے۔
دیودار اور برانش کے جنگلات مقامی دیویوں سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں، اور اسپیتی کے برفیلے پہاڑوں پر اس کرہ ارض کے چند سب سے بے مثال اور قدیم بدھ خانقاہیں سرد دھوپ میں چمکتی ہیں۔ میں ایک بار لاہول میں سیسو کے قریب ایک
بدھ گھر میں رام چرت مانس کا ڈیڑھ سو سال پرانا اردو نسخہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا ۔
لیکن یہ بیتی رتوں کا قصہ ہے۔ ایک دہائی قبل ہماچل کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کے انتخابات پر پابندی کے بعد بائیں بازو کی طلبہ تحریک کی رفتار سست پڑتی گئی ہے۔ ‘ہمیں اب پہلے جیسے بہترین طلبہ نہیں ملتے۔ اب وہ اے بی وی پی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں ہم ریاست کے تقریباً تمام کالجوں میں موجود تھے۔ اب نہیں ہیں،’ سی پی ایم لیڈر کہتے ہیں۔
اس کے ساتھ ریاست کو بھگوا رنگ دینے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ہندوتوا کی گرامر کو اپناتے ہوئے اور خود کو ‘مودی بھکت’ کے طور پر پیش کرتے ہوئے کنگنا نے ایک ایسے ڈسکورس کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے جو اس پہاڑ پر عموماً کم سنائی پڑتا تھا۔
غورکریں، بی جے پی کی بہت سی مشہور اسکیموں کے مستفید ہونے والے یہاں کم ملیں گے۔
منڈی کے ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم چنت رام کہتے ہیں، ‘مودی ہمیں کیا دیں گے؟ ویربھدر کے دور سے ہی ہمیں مفت راشن مل رہا ہے۔ اس ریاست میں سو فیصد بجلی اسی کی دہائی میں ہی آ گئی تھی۔شملہ کے سرکاری اسپتال پر ہماچل کے شہریوں کا بھروسہ کسی بھی پرائیویٹ اسپتال سے کہیں زیادہ ہے۔
چنت رام کا کہنا ہے کہ کانگریس نے 2022 میں پرانی پنشن اسکیم کو لاگو کرنے کا وعدہ کیا تھا، جسے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی جیت کی ایک بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ کانگریس نے اسے نافذ کیا ہے، اس لیے اسے لوک سبھا انتخابات میں بھی اس کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ ریاست میں 1.60 لاکھ سے زیادہ سرکاری ملازمین اور اتنی ہی تعداد میں پنشن پانے والے ہیں۔
ہماچل پردیش نے پرشانت کشور کی 2022 کے انتخابات میں ‘کانگریس کے خاتمے’ کی قیاس آرائی کو غلط ثابت کیا تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پرشانت کشور کو کتنی بری طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دراصل بی جے پی کا صفایا ہو گیا تھا۔ پارٹی کے 11 میں سے 8 وزراء کو شکست ہوئی تھی۔ نویں وزیر نے اپنی جگہ اپنے بیٹے کو میدان میں اتارا – وہ بھی ہار گئے۔
بی جے پی کو یہ شکست اس وقت اٹھانی پڑی جب کانگریس بری طرح بکھری ہوئی تھی۔ ویربھدر سنگھ گزر چکے تھے۔ کانگریس کے پاس وزیر اعلیٰ کا کوئی چہرہ نہیں تھا۔ اس کے پاس مضبوط اور متحد قیادت نہیں تھی، اور پارٹی تین بڑے کیمپوں – پی سی سی صدر پرتبھا سنگھ، سابق پی سی سی صدر سکھوندر سنگھ سکھو اور اپوزیشن لیڈر مکیش اگنی ہوتری کے درمیان جھول رہی تھی۔
لیکن پھر بھی اس ریاست نے بھگوا سیاست کو مسترد کر دیا تھا۔
ٹھیک اسی وجہ سے ہماچل کے لیے 4 جون کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔