اگر رام ناتھ گوئنکا زندہ ہوتے اور آج کی ‘غیر اعلانیہ ایمرجنسی’ کے حوالے سے اخبار کے مالکان اور مدیران کو خط لکھتے، تو شاید یہ کہتے کہ وہ پریس جو آزاد ہونے کی اجازت کا انتظار کرتی ہے، اس نے اپنی مرضی سے عمر بھر کا قیدی بننے کا انتخاب کیا ہے۔ اور وہ مدیر جو سچائی سے منہ موڑتا ہے، اس کو اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
(بائیں) رام ناتھ گوئنکا۔ (تصویر بہ شکریہ: پینگوئن انڈیا/پکسابے
پچیس جون، 1975۔ تاریخ کا سیاہ دن۔ ایک ایسا لمحہ جب ہندوستان میں جمہوریت کو نہ صرف خطرہ تھا، بلکہ اس کاگلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ آدھی رات کے سناٹے میں آئین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا تھا، اختلاف رائے کو جرم قرار دیا گیا تھا، پریس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور شہریوں کو موضوع بنا دیا گیا تھا۔
اگر رام ناتھ گوئنکا – انڈین ایکسپریس کےعظیم بانی اور 1975 کی ایمرجنسی کے دوران آمریت کے نڈر اور بے باک نقاد – آج زندہ ہوتے اور اخبار کے مالکان اور مدیران کو خط لکھتے، جسے کئی لوگ ‘غیر اعلانیہ ایمرجنسی’ تصور کرتے ہیں، تو اس خط کا مضمون کیا ہوتا؟ ان کے الفاظ آج کی صورتحال کے لیےاخلاقی طور پر عمل کی دعوت اور میڈیا کی خوداطمینانی پر شدید الزام دھرتے۔
آئیے تصور کریں کہ وہ شخص جسے بی جی ورگیز نے سماج کے چوتھے ستون کا جنگجو کہا تھا، آج ہندوستانی پریس سے کیا کہتا۔
وطن عزیز کے تمام صحافیوں، مدیران اور میڈیا مالکان،
پچیس جون کیلنڈر میں درج کوئی تاریخ نہیں ہے؛ یہ ان تمام لوگوں کے خون اور سیاہی سے لکھی گئی ہے،جنہوں نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔ 1975 میں اسی دن ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ہماری جمہوریہ کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا آغاز ہوا۔ ہم، انڈین ایکسپریس میں، اس لیے احتجاج نہیں کر رہے تھے کہ ہم فطری طور پر بہادر تھے، بلکہ اس لیے کر رہے تھے کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ آج میں اپنی یادداشت سے قطع نظر آپ کواس لیے لکھ رہا ہوں،تا کہ آپ کو ایک بار پھر یاد دلاسکوں کہ آج کی فضا میں بھی ڈر سمایا ہوا ہے۔ آپ کے دروازے پر اقتدارکی دھمک دھیمی ہے، لیکن سنسر شپ زیادہ مہذب انداز میں ہے، دھمکی زیادہ ‘قانونی’ ہے۔
بنیادی اصول ایک ہی ہے؛ اختلاف رائے کو دبانا، سچائی کو دھندلا کرنا، پریس/میڈیا کو پروپیگنڈے کے ٹول کے طور پر استعمال کرنا۔ صحافیوں کو جیل رسید کرنے، چھاپے مارنے اور بدنام کرنے کی متعدد مثالیں ہیں، یہ کام کسی آئینی شق کے تحت نہیں بلکہ انتہائی احتیاط سے کیے جارہے ہیں۔ میڈیا، جو کبھی جمہوریت کا ایک ستون تھا، اب اکثر اقتدار کے سامنے جھک جاتا ہے، سرکاری اشتہارات کو کھونے یا تعزیری تحقیقات کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ کتنی آسانی سےسچ بولنا سیڈیشن کا معاملہ بن گیا ہے، کس طرح عوام کے سوالوں کو ‘ملک کے خلاف’ سازش قرار دیا جاتا ہے، کیسے صحافیوں کو ایجنسیوں کے ذریعے ہراساں کیا جاتا ہے، کس طرح اشتہار دینے والوں کو نافرمانی کی سزا دینے کے لیے ہتھیار بنایا جاتا ہے؟ 1975 میں ہمارے پاس اقتدار کے ظلم و جبر کی واضح وجہ تھی۔ آج ہم اس تاریک دور کوکیا نام دیں گے؟
ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک پریس جو آزاد ہونے کا انتظار کرتی ہے، اس نے اپنی مرضی سے عمر بھر قیدی بننے کا انتخاب کیا ہے۔ اور وہ مدیر جو سچائی سے منہ موڑتا ہے اس کو اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ صرف ایک حکومت یا ایک لیڈر کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس جمہوریہ کی روح سے متعلق ہے اور یہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ کیا ہم چند سرکاری اشتہارات کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کرلیں گے؟ ادارتی آزادی کا سودا اقتدار تک رسائی کے لیے کیا جانا چاہیے کیا؟
میں آپ سے پوچھتا ہوں، اور آپ کو اپنے آپ سے یہ بار بار پوچھنا چاہیے؛ کیا ہم اسٹیٹ کے اسٹینو گرافر یاٹائپسٹ ہیں یا پھر جمہوریت کے مستقل نگراں؟ کیا آپ کی میراث حوصلے کی ہوگی یا ملی بھگت کی؟
آج ہم اقتدار کی تعریف وتوصیف میں جو سیاہی ضائع کر رہے ہیں وہ ایک دن ایسا داغ بن جائے گا جسے ہم کبھی مٹانہیں پائیں گے۔ ہماری موجودہ نسل کے مدیروں کے بارے میں کوئی یہ نہ کہے کہ جب جمہوریت پر حملہ ہوا تو انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اور اس لیے ہمارے پاس سچ بتانے اور دکھانے اور چھاپنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کروں گا کہ آپ سچائی کے ساتھ کھڑے رہیں چاہے اس کے لیے آپ کو کوئی بھی خطرہ کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
آئیے ہم اپنے نیوز روم میں ایک بڑی تختی پر لکھ دیں کہ اگر آج کے دور میں جمہوریت اندھیرے میں دم توڑ گئی تو میڈیا کو اس کی قبر کھودنے والے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ہم سب کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ پارلیامنٹ جیسے عظیم ادارے کو سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے اور اس میں ہونے والی بحث کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اپوزیشن کو نہ صرف سیاسی بلکہ اخلاقی طور پر بھی شیطانی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ وہ ایجنسیاں جو کبھی قانون کی حفاظت کرتی تھیں وہ سیاسی انتقام کا آلہ بن چکی ہیں۔
یہ سب کچھ 1975 کی سفاکانہ طاقت سے نہیں، بلکہ ایک خوفناک تبسم کے ساتھ ہوتا ہے – قانونی جواز میں لپیٹ کر، اورقوم پرستی کے نام پر اس کاجواز فراہم کیا جاتا ہے، استحکام کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ نہیں ہے کہ حکمران شہنشاہوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ اقتدار ہمیشہ پرکشش ہوتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم، عوام اور پریس یہ بھول گئے ہیں کہ احتجاج کرنا ہمارا فرض ہے۔ اور اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ایمرجنسی کو ماتم کرنے کے لیے نہیں بلکہ یاد دلانے کے لیے یاد کریں۔ یہ صرف مسز گاندھی کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ہر اس دورکے بارے میں ہے جہاں سچائی کو خاموش کر دیا جاتا ہے اور خوف کو انعام سے نوازا جاتا ہے۔ آپ سب اپنے دل کی گہرائیوں سے جانتے ہیں کہ جمہوریت صرف باقاعدہ انتخابات سے نہیں چل سکتی۔ یہ ہمت سے زندہ رہتی ہے، خصوصی طور پر بولنے کی ہمت سے، جب خاموشی محفوظ ہو اور انعام و اکرام کا باعث ہو۔
اگر ہم ایمرجنسی کو ایک انتباہ کے طور پر یاد نہیں کرتے ہیں، تو ہم کسی دن اسے ایک پیشن گوئی کے طور پر یاد کریں گے جوپوری ہوئی ۔ ہمارے سامنے سوال یہ نہیں ہے کہ ہم ایمرجنسی میں ہیں یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے وہ کہنے کی ہمت کھو چکے ہیں جو یہ ہے؟ آج ہندوستانی پریس کو دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ ہم ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2024 میں 180 ممالک میں 151 ویں نمبر پر آ گئے ہیں، یہ ایک شرمناک درجہ بندی ہے جس نے ہمارے مجاہدین آزادی کو افسردہ کر دیا ہو گا۔
جس پیشے کے لیے میں نے اپنی زندگی وقف کی، وہ ہنسی مذاق کا موضوع بن گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ نوجوان فیکٹ چیکر ، فری لانس صحافی اور یوٹیوبرز وہی کر رہے ہیں جو ہم بھی کرتے تھے، اقتدارکے سامنے سچ بولنا۔ وہ مین اسٹریم میڈیا کو اس کی بزدلی سے روبرو کرانے والا آئینہ بن گئے ہیں۔جس چوتھے ستون کی حفاظت کے لیے میں نے جدوجہد کی تھی، اب اسے خود سے ہی بچانے کی ضرورت ہے۔
امید کے ساتھ،
رام ناتھ گوئنکا
منوج کمار جھاراشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔