
اس پابندی کو ایک بڑے بیانیہ کا حصہ سمجھنا چاہیے۔یہ یاداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، اگرچہ 2019 کے بعد یہ بے حد بڑھ گیا ہے۔کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کر دیے گئے ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں اس خطے پر کیا قیامت برپا ہوگئی، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Pixabay)
غالباً 2006 -07 میں ایک ماہر قانون، جو ان دنوں وزیر بھی تھے، نے آئین پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین کی فرمائش کی تھی۔
میری اہلیہ ان دنوں کسی رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لیے پاکستان گئی ہوئی تھی۔ میں نے اس سے گزارش کی کہ ان کتابوں کو خرید کر ساتھ لیتے آئے۔ واپسی پر جب وہ واگہہ-اٹاری سرحد پر پہنچی تو اس کا فون آیا کہ کسٹم افسران نے دونوں کتابوں کو ضبط کر لیاہے۔
میں نے مذکورہ افسر سے بات کی، تو بڑی مشکل سے خاصے بحث و مباحثہ کے بعد ا س نے آئین پاکستان کی کاپی ساتھ لے جانے کی اجازت تودے دی، مگر پاکستانی زیر انتظام کشمیرکے عبوری آئین کو ضبط کرکے اس کی رسید تھما دی۔
خیر تو یہ ہوئی کہ کوئی کیس نہیں بنایا۔ مذکورہ وزیر نے بھی اس کے بعد اس کتاب کو بارڈر سے لانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں کتابوں پر پابندیاں لگانے کے واقعات کی خبریں تو آتی رہتی ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ جمہوری ممالک کی صف میں ہندوستان اس طرح کی قدغنیں عائد کرنے میں بازی لے جا رہاہے۔
حال ہی میں جس طرح تھوک میں زیرک اور معروف دانشوروں کی پچیس کتابوں پر جموں و کشمیر میں پابندی عائد کی گئی اور پھر اگلے ہی روز کتابوں کی دکانوں کی تلاشیاں لی گئیں،سے دانشورانہ طبقہ میں خوف و تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
ویسے تو ہندوستان میں مرکزی سطح پر 50کے قریب کتابیں ممنوع ہیں۔ ریاستی حکومتوں کی ایک الگ لسٹ ہے۔ آزادی کے بعد پہلی بار 1950میں تین کتابوں پر پابندی لگائی گئی، وہ حمید انور کی پاکستان پس منظر، آغا بابر کی سیز فائر اور نسیم حجازی کا ناول ‘خاک و خون’ تھا۔
اس کے دو سال بعد مولانا صادق حسین سردھنوی کے ناول ‘معرکہ سومناتھ’ پر پابندی لگائی گئی۔ اسٹانلے وولپرٹ کی نائن آوز ٹو راما پر 1962میں پابندی عائد کی گئی۔ اس کے اگلے سال برٹنڈ رسل کی ان آرمڈ وکٹوری ممنوع قرار دی گئی۔
اسی طرح وی ایس نائپال کی این ایریا آف ڈارکنیس، تامل ناڈو کے ایک لیڈر پیریار راماسوامی کی دی رامائن: اے ٹرو ریڈنگ بھی اس لسٹ میں ہے۔ 1983میں امریکی تفتیشی صحافی کی کتاب سمیور ہرش، 1989 میں زوہیر کشمیری اور برائن میک انڈریو کی کتاب سافٹ ٹارگیٹ: ہاؤ دی انڈین انٹلی جنس سروس پینیٹریٹیڈ کنیڈاپر پابندی لگائی گئی۔
اسی قبیل میں آخری پابندی 2014میں سنت سوریہ تکا رام اور لوک ساکا دنیشور پر لکھی کتاب پر لگائی گئی۔ 2017میں ایچ ایس شیکھر کی قبائلیوں پر لکھی ایک کتاب پر بھی پابندی لگائی گئی تھی، مگر جلد ہی یہ واپس لی گئی۔
گو کہ ہر سال ریاستی سطح پر اکا دکا ایسی پابندیوں کی خبریں تو آتی رہتی ہیں، مگر اس بڑے پیمانے پر ایک ساتھ 25تحقیقی کتابوں کو ممنوع قرار دینا پہلا واقعہ ہے۔
ان میں بُکر انعام یافتہ ارندھتی رائے کی آزادی، معروف تاریخ دانوں عائشہ جلال اور سوگاتا بوس کی کتاب کشمیر اینڈ دی فیوچر آف ساؤتھ ایشیا، معروف قانون دان اور کالم نویس اے جی نورانی کی دو جلدوں پر مشتمل ‘دی کشمیر ڈسپیوٹ’ کے علاوہ کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین کی کتاب اے ڈسمانٹلیڈ اسٹیٹ: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف کشمیر آفٹر آرٹیکل 370 ، محقق سمنترا بوس کی دو کتابیں، امریکہ یونیورسٹی میں پروفیسرز اطہر ضیا اور حفصہ کنجوال کی کتابوں کے علاوہ مولانا مودودی کی الجہاد فی الاسلام اور امام حسن البنا کی مجاہد کی اذان کے علاوہ کئی دیگر کتابیں شامل ہیں۔
اگر کسی کو کشمیر پر کہیں بھی کوئی تحقیق کرنی ہے یا مقالہ لکھنا ہے، تو ان کتابوں کے بغیر ناممکن ہے۔
جب اس پابندی کی خبر آئی، تو میں نے انو رادھا بھسین کو میسیج کرکے بتایا کہ لگتا ہے کہ محکمہ داخلہ میں کسی وسیع المطالعہ شخص کی تقرری ہوئی ہے،جس نے ایک ہی سانس میں ارندھتی رائے، اے جی نورانی،سوگتابوس وغیرہ سبھی کو پڑھا ہے۔
مگر جب میں نے دوبارہ لسٹ پر نظر ڈالی، تو اس میں معروف رضا اور ڈیوڈ دیوداس کی کتابیں بھی نظر آگئیں، تو لگا کہ یہ افسر واقعی جاہل مطلق ہے اور بس کتابوں کے سرورق کو دیکھ کر پابندی کا حکم نامہ صادر کر دیا ہے ۔
یہ دونوں مصنفین انتہائی حد تک ہندوستان کا بیانیہ تیار کرنے اور اس کی ترسیل کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ڈیوڈ دیوداس کی کتا ب ‘ان سرچ آف اے فیوچر دی اسٹوری آف کشمیر’ ، سابق عسکریت پسندوں اور ہندوستان و کشمیر کے اہم سیاستدانوں کے انٹرویوز اور خفیہ ایجنسیوں کے ان پٹ حاصل کرکے تحریر کی گئی ہے۔
اس کے مطابق کشمیری آزادی کا مطالبہ صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان سے مزید وسائل نچوڑ سکیں۔ حق خودارادیت کا مطالبہ ”دوغلا“ہے۔ کشمیری خود بھی واضح نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ان کے نزدیک جدید دور میں حق خودارادیت ناقابلِ قبول ہے۔
ان کی کتاب کے مطابق 1989 میں عسکریت کی شروعات کے محرک سرحد پار سے آنے والی تحریک، 1987 کے انتخابات میں کئی پولنگ ایجنٹوں کی انفرادی تکالیف(انتخابی دھاندلی کے تذکرہ سے انہوں کی گریز کیا ہے)، اور سرینگر کے ایک سنیما میں لیبیا کے مرد آہن عمر مختار پر بنی فلم لائن آف دی ڈیزرٹ کی ایک ہفتے کی نمائش ہے۔ اب اس طرح کی تحقیق سے انہوں نے کشمیر کے مسئلہ پر خوب بحث کی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ آخری کشمیری بادشاہ سہہ دیو تھا جو 1320 میں منگول حملے کے بعد بھاگ گیا تھا۔جبکہ حقیقت ہے کہ کشمیر کا آخری خود مختار تاجدار یوسف شاہ چک تھا، جس کی شاعر ملکہ حبہ خاتون کے گیت آج بھی کشمیر کے طول و عرض میں گونجتے ہیں۔
یہ ایک ایسابیانیہ وضع کیا گیا ہے کہ کشمیر کی مسلم تاریخ کو مسخ کیا جائے۔مسلم سلاطین کے دور کو غاصب و قابض کے بطور یاد رکھا جائے، جیسا کہ ہندوستان میں مغل و ترک سلاطین کے ساتھ کیا گیا ہے۔
جبکہ 1320سے لےکر 1586تک مقامی کشمیر ی سلاطین نے سرینگر سے حکومت کی ہے۔ ایک وقت میں ان کی قلمرو سرہند، کابل اور کاشغر تک وسیع رہی ہے۔
کشمیری مسلمانوں پر مزید الزام لگاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ مسلمان مقامی ہندوں کو حقارت کے ساتھ پیٹھ پیچھے ان کو ‘بٹہ’ کہہ کر بلاتے ہیں۔
یہ مصنف کس قدر لاعلم ہے کہ بٹہ سنسکرت کا لفظ ہے، جس کے معنی ایک تعلیم یافتہ شخص ہوتا ہے۔ کشمیری پنڈت اپنے آپ کو ‘بٹہ’کہلوانا اعزاز سمجھتے ہیں۔
خیر دیگر جن کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں سب سے اہم مرحوم اے جی نورانی کی دوجلدوں پر مشتمل دی کشمیر ڈسپیوٹ 1947-2012 ہے۔ میں نے ان کی جن پانچ کتابوں کے لیے بطور ریسرچر کام کیا ہے ان میں یہ کتاب بھی شامل ہے۔
اس کتاب کے لیے دستاویزات ڈھونڈنے کی وجہ سے نیشنل آرکائیوز تک رسائی حاصل ہوگئی تھی اور دستاویزات کو ڈھونڈنے اور ان کو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنے کا موقع بھی ملا تھا۔یہ کتاب دستاویزات پر مشتمل ہے، جو پہلے ہی نیشنل آرکائیوز میں موجود ہیں۔ اب کیا ان کو بھی تلف کیا جائے گا۔
اس کی دوسری جلد مصنف کے مضامین کا مجموعہ ہے جو گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران مختلف روزناموں، جرائد اور کتابوں میں شائع ہوئے ہیں جن کو موضوعاتی طور پر سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
اس میں نایاب دستاویزات کے متن شامل ہیں، جیسے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان غیر جارحیت معاہدے کے مسودے جو کبھی عملی شکل اختیار نہ کرسکے، کشمیر پر مختلف برطانوی اور امریکی دستاویزات، کشمیر کی تقسیم کی امریکی تجویز، مصنف کا اگست 2006 میں مشرف سے کیا گیا انٹرویو، مشرف کے منصوبے کی تفصیلات، ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو بدلنے کے لیے نئے آرٹیکل کا مسودہ (جو ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے)، اور قائدین — جناح، ماؤنٹ بیٹن، نہرو، شیخ عبداللہ، جے پرکاش نرائن اور رادھا کرشنن — کے درمیان خط و کتابت کے ساتھ ساتھ اب تک غیر شائع شدہ خفیہ دستاویزات کے متن بھی شامل ہیں۔
پچھلے سال 29 اگست کو ممبئی میں جب نورانی کا انتقال ہوا، تو اس سے پندرہ روز قبل انہوں نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ ان پر دو کتابوں کا قرض ہے۔ ‘میں سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ پر کتاب مکمل کروں گا، اس کے سبھی دستاویزات میرے پاس آچکے ہیں اور اسی کے ساتھ ’انڈین آرمی اور کشمیر‘ بھی مکمل کرکے کتابیں لکھنے سے ریٹائرمنٹ لوں گا۔’
ان کا کہنا تھا ناشرین ان کی کتاب انڈیا-چین باؤنڈری ڈسپیوٹ کی دوسری جلد لکھنے پر زور دے رہے ہیں، مگر وہ بتار ہے تھے کہ اب مزید لکھنا اور تحقیق کرنا ان کی دسترس سے باہر ہے۔
امریکی ریاست پنسلوینیہ کی یونیورسٹی میں پروفیسر حفصہ کنجوال کی پچھلے سال شائع کتاب کولونائزنگ کشمیر بھی اس خطے کی تحقیق کے حوالے سے ایک اہم اضافہ ہے۔اس پر کیسے کوئی پابندی لگا سکتا ہے،سمجھ سے بالاتر ہے۔
یہ کتاب مجموعی طور پر 1953کے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیر اعظم کی پوسٹ ہوتی تھی) شیخ محمد عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند پر بٹھایا گیا تھا۔
اگلے دس سال تک بخشی اقتدار میں رہے اور ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام، دام، ڈنڈ اور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، جس سے وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے تائب ہوکر ہندوستانی یونین میں ضم ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔
شاید مصنف کا قصور یہ ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ 5اگست 2019کے بعد آئے دن جو اقدامات کئے گئے، کم وبیش اسی طرح کے اقدامات، جن میں مقامی آبادی کو محصور کرنے، میڈیا پر قدغن اور مفت یا کم قیمت پر چاول فراہم کروانا وغیر ہ شامل رہے ہیں، بخشی دور میں بھی کشمیر میں آزمائے گئے ہیں۔
کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔تین سو چوراسی صفحات پر مشتمل کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار اپناکر جب شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو 1949میں ہی وہ ہندوستانی حکمرانوں کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو چکے تھے۔
ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرازم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا ہندوستان میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجہ کے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔
سال 1953 تک ہندوستانی لیڈروں بشمول شیخ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور 9 اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ گلمرگ سیر و تفریح کرنے کے لیے گئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپرد کی گئی۔ جس کو ابھی تک کشمیری بکاو اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، گو کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کا دور نہایت ہی امتیازی رہا ہے۔
پابندی کی اس لسٹ میں ریاست جموں و کشمیر کے مؤقر انگریزی اخبار دی کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین کی کتاب اے ڈسمانٹلیڈ اسٹیٹ: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف کشمیر آفٹر آرٹیکل 370 بھی شامل ہے۔
انورادھا لکھتی ہیں کہ5اگست 2019کی صبح جب کشمیریوں کی بدقسمتی کی ایک اوررات کا آغازہو رہا تھا، تو اپنے مضطرب ذہن کو سکون دینے کے لیے وہ جموں شہر کی مقتدر شخصیت کرشن دیو سیٹھی کے پاس چلی گئیں۔بارہ ابواب پر مشتمل 400صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔
مواصلاتی پابندیوں سے کس قدر عوام کو ہراساں ا ور پریشان کردیا گیا، کتاب میں راجوری ضلع کی تحصیل بدھل کے ایک دور دراز علاقے کے ایک سرپنچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے علاقے کے ہر گاؤں کے باہر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے، جو لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رہے تھے اور موبائل و دیگر فون بند تھے۔
بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایت کرنے کے لیے سرپنچ کے پاس سول انتظامیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔آخر کار قدیم زمانے کی سواری یعنی گھوڑے پر سوار ہوکر یہ سرپنچ دسمبر 2019کو راجوری تحصیل آفس پہنچا اور اپنی شکایت سول انتظامیہ تک پہنچائی۔
ایک طالبعلم اور محقق کے لیے یہ کتابیں قیمتی مواد کا خزانہ ہے۔اس سے قبل سال کے اوائل میں ہی کشمیر میں پولیس نے متعدد کتاب فروشوں پر چھاپے مارے تھے اور تقریباً 668 کتابیں ضبط کیں۔ حکام نے ان چھاپوں کو ‘قابلِ اعتماد خفیہ اطلاع’ کی بنیاد پر جائز قرار دیا کہ کیا ‘ایک ممنوعہ تنظیم (جماعت اسلامی) کے نظریات کو فروغ دینے والا لٹریچر خفیہ طور پر بیچا جارہا تھا۔
سال 2023 میں، کشمیر کی جامعات نے علامہ اقبال، آغا شاہد علی اور فیض احمد فیض جیسے مشہور شعرا کے کلام کو اپنے نصاب سے خارج کر دیا۔
ایسا کرنے سے آخر ہندوستانی حکومت کونسا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے؟ معروف صحافی فرینی منیکشا کے مطابق عسکریت کے سماجی اثرات سمجھنے کے لیے وہ ایک عرصہ قبل فیلڈ وزٹ پر کشمیر گئی ہوئی تھی۔پتہ چلا کہ ایک بوڑھی عورت نے اپنے ہلاک شدہ بیٹے کی تصویر فریم میں لگا کر دیوار پر ٹانگی ہوئی تھی۔
جب بھی علاقے میں سیکورٹی فورسز تلاشی کرتی تھیں، تو اس گھر کی دیوار پر اس تصویر کو دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ جاتا تھا اور اس معمر خاتون سمیت سبھی اہل خانہ کو ہراساں کرتے تھے۔
آئے دن کی اس طرح کی وارداتوں کے بعد اس بوڑھی عورت نے بیٹے کی تصویر دیوار سے اتار کر اس کو کسی بکس میں رکھ دیا اور اس کی جگہ پر پہاڑوں کے خوبصورت منظر کی تصویر لگا دی۔
اس نے اپنے آس پاس لوگوں سے کہا کہ اس کو اپنے بیٹے کو یاد کرنے کے لیے تصویر کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ میں رچا ہوا ہے، اور اس کی یاد ہمیشہ قائم رہے گی۔ حکام اور سیکورٹی فورسز کی ناراضگی اس کو کھرچ نہیں سکتی ہے۔
اسی طرح موجودہ پابندیوں کو بھی ایک بڑے بیانیہ کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ یہ یاداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے۔ یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے، اگرچہ 2019 کے بعد یہ بے حد بڑھ گیا ہے۔یہ بار بار باور کرایا جا رہا ہے، جیسے ہندوستان کو آزادی وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد 2014میں ملی اور کشمیر کو یہ آزادی 2019میں نصیب ہوئی۔
لہذا اس سے قبل کے دور کو دور غلامی یا تاریک دور کے طور پر ہی یاد کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کر دیے گئے ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں اس خطے پر کیا قیامت برپا ہوگئی، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
سرکاری نوٹیفکیشن میں پابندی کا دفاع کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ لٹریچر’شکایت، مظلومیت اور دہشت گردانہ ہیرو ازم کی ثقافت’ کو فروغ دیتا ہے۔’شکایت اور مظلومیت’بیان کر نا اب جرم ہو گیا ہے۔
لوگ اپنے دکھ بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں نہ اپنے آپ کو مظلوم کہہ سکتے ہیں۔
یاداشتوں کو کھرچنے کے عمل یا ایک حصہ 13 جولائی 1931 کی بغاوت کی یاد کو مٹانے کی کوشش تھی۔ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے لوگوں کو شہدا کے قبرستان میں جمع ہونے ا ور فاتحہ پڑھنے پر ہی پابندی لگادی۔
یہ تاریخی واقعہ کشمیریوں کی اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے اور 2019 تک پارٹی اور نظریاتی وابستگیوں سے بالاتر یادگاری تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ اس سال ایک وزیر اعلیٰ کو بند گیٹ پھلانگنے پر مجبور ہوکر اس مزار میں داخل ہونا پڑا۔
سری نگرمیں لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن (اے پی ڈی پی) کے اراکین تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا کر ریاست سے جوابدہی کا مطالبہ کرتے تھے۔2019 کے بعد اس عمل کو روک دیا گیا، اور اب پروفیسر اطہر ضیا کی کتاب ریزسٹنگ ڈس اپیئرنس، ملٹری اکوپیشن اینڈ وومنس ایکٹیوزم ان کشمیر پر پابندی لگا کر یادداشت کو غائب کرنے کی ایک اور کوشش کی گئی ہے۔
ان کی کتاب اے پی ڈی پر مبنی ایک نسلیاتی مطالعہ ہے، جو یہ تجزیہ کرتی ہے کہ سیاسی تشدد خواتین پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور کشمیری خواتین اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کا سوگ اور یاد کس طرح مناتی ہیں۔
اس پورے قضیہ کا المناک پہلو یہ ہے کہ ہندوستان کے لبرل طبقہ نے بھی اس پر آنکھیں موند لیں اور اس پر قابل قدر رد عمل نہیں دیا۔ فرینی منیکشا کے مطابق شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ کشمیر کی جماعت کو مذہب کے ہی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جب کشمیر سوشل میڈیا کا ہیش ٹیگ بھی نہیں بنا تھا، تب یہی جماعت کے لوگ وہ تاریخیں محفوظ کر رہے تھے جنہیں کوئی اور چھونے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔
انورادھا بھسین نے بھی ہندوستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ موجودہ حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے۔اگرچہ لوگ سوشل میڈیا پر ان ممنوعہ کتابوں کے گوگل ڈرائیو لنکس شیئر کر رہے ہیں، لیکن کشمیری کے لیے یہ معمولی سا سہارا ہے۔
حکام کو بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ایک صحت مند جمہوریت بحث سے پروان چڑھتی ہے نہ کہ جبری خاموشی سے۔ جیسا کہ انورادھا بھسین، لکھتی ہیں؛
‘جب آپ کتابوں پر پابندی لگاتے ہیں، تو آپ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی جوابی دلیل نہیں ہے۔ آپ سچائی سے اپنے خوف کا اعتراف کرتے ہیں۔’اس لیے ان کتابوں پر پابندی ایک مایوس کن عمل ہے۔ یہ ایک ایسی ریاست کو ظاہر کرتا ہے جو ایک باخبر شہری سے خوفزدہ ہے۔ لیکن تاریخ پوشیدہ نسخوں میں،سرگوشیوں میں زندہ رہتی ہے۔