سنیچر کو سپریم کورٹ نے ان لوگوں کے حق میں فیصلہ دیا ، جو براہ راست بابری مسجد کو گرانے کے کلیدی ملزمین سے وابستہ ہیں ۔
ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ نے زمین کے مالکانہ حق (ٹائٹل سوٹ)کا فیصلہ ہندو فریق -صحیح معنوں میں وشو ہندو پریشد-کے حق میں سنایا ہے۔ لیکن یہ صاف ہے کہ ملک کے لئےیہ2.77 ایکڑ کی زمین-جس پر 470 سالوں تک ایک مسجد کھڑی رہی اور جس کو سیاسی توڑپھوڑ کی ایک تباہ کن کارروائی میں زمین دوز کر دیا گیا-اس کےمالکانہ حق سے کہیں زیادہ اہم سوال ہے۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے کچھ عقائد سے متعلق دلائل کو خارج کر دیا ہے اوریہ مانا ہے کہ جس طرح سے مسجد کے اندر مورتی رکھی گئی، وہ غیر قانونی تھا اور 1992 میں مسجد کی مسماری’پوری طرح سے قانون کی حکومت کی خلاف ورزی تھی۔ ‘ پھر بھی اس مسماری کےلئے ذمہ دار طاقتوں کو زمین کا قانونی حق دے دیا گیا ہے۔
اس جگہ کا انتظام وانصرا م ایک ٹرسٹ کے ذریعے کیا جائےگا، جس کی تشکیل حکومت کرےگی۔ اور حکومت اور حکمراں پارٹی کے اندر ایسے لوگ ہیں، جن کے خلاف اصل میں مسجد کو توڑنے کی سازش کرنے کی چارج شیٹ دائرہے۔ایک چوتھائی صدی سے بھی زیادہ وقت سے ‘ایودھیا’بدلے کی سیاست کی علامت رہی ہے-جس میں رام کے کردار کے ارد-گرد گڑھے گئے مفروضےکے ساتھ بھیڑ کا تشدد، اکثریت پسندی اور قانون کی حکومت کےمتعلق غیر معمولی توہین شامل تھی۔
اس سیاست کا مقصد تمام شہریوں کے مساوات کے اصول پر قائم ہوئی جمہوریت کوتباہ کرنا اور اس کو ایک ایسےنظام سے بدلنا رہا ہے، جس میں ہندوستان کی مذہبی اقلیت اور اس کے بعد آبادی کے دوسرے محروم طبقات کو مسلسل عدم تحفظ کے ماحول میں رہنے کے لئے مجبور کیا جائے۔اگر ہندوستان کے جمہوری ادارے مضبوط ہوتے، تو 6 دسمبر، 1992 کو بابری مسجدکی مسماری اس سیاست کے پہلے مرحلے کے خاتمے کی علامت محض نہیں رہتی، بلکہ اس سیاست پر ہمیشہ کے لئے فل اسٹاپ لگا دیتی۔
آج وہی سیاست ایک نئے مقام پر پہنچ گئی ہے اورجس طرح سے قومی میڈیا کے ایک حصے اور اب سپریم کورٹ نے اس کو ابھارا ہے، اس کودیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اس کا خاتمہ نہیں ہے۔ کورٹ کا مہر لگ جانےکے بعد سنگھ پریوار بھیڑکےانصاف کے داغ کو دھونے کی پوری کوشش کرےگا۔ یہ داغ اس کی تحریک کی طاقت ہونے کے ساتھ-ساتھ اس کی کمزوری بھی ہے۔
اگست میں بی جے پی رہنماؤں نے سینہ ٹھوککر کہا تھا کہ انہوں نے آرٹیکل 370 کا استعمال آرٹیکل 370 کو ختم کرنےکے لئے کیا ہے۔ اب ان کو قانون کا استعمال انصاف کا قتل کرنے کے لئے کرنے کی امیدہے۔ ہم لوگ یہ دکھاوا کر سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ صرف دیوانی تنازعہ پر عدالتی فیصلہ دے رہی تھی۔ لیکن حقیقت میں اس مقدمہ، جس کو بنچکے ایک جج نے ‘دنیا کے سب سے اہم مقدموں میں سے ایک‘ کہا تھا، اس کی فطرت کسی بھی طرح سے’دیوانی’نہیں تھی۔اس تنازعہ کو اس سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے، جس کے سہارے کھڑا ہواہے۔
بابری مسجد مقدمہ میں مالکانہ حق کا مقدمہ کسی نہ کسی صورت میں 1949 سے ہی چل رہاہے، بالخصوص فیض آباد کی مقامی عدالتوں میں، جہاں ایودھیا واقع ہے۔ 1980 کی دہائی میں اس نے لال کرشن اڈوانی، اٹل بہاری واجپائی، راجیو گاندھی اور ویر بہادر سنگھ اورارون نہرو جیسے بھلا دئے گئے ولن کی سنک بھری سیاست کی وجہ سے قومی اہمیت اختیارکر لیا۔
بی جے پی رہنماوں نے 6 دسمبر، 1992 کو مسجد کی مسماری کی سازش رچی اور ایک کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے ان کو جرم کرکے بچ جانے دیا۔ یہی اس وقت کے سپریم کورٹ کے ججوں نےکیا۔ 27 سال بعد مسماری کا مقدمہ آج بھی چل رہا ہے۔ جبکہ تمام ثبوت ریکارڈ کئے جاچکے ہیں اور جرح پوری ہو چکی ہے، مگر اس کا نتیجہ غیرمتعینہ ہے، کیونکہ یہ سب کوپتہ ہے کہ مقدمہ چلانے والی ایجنسی(سی بی آئی)نے جان بوجھ کر اپنی ذمہ داری کوپورا نہیں کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:خصوصی تجزیہ: بابری-رام جنم بھومی تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ تضادات سے پُر ہے
ہندوستان کے اگلے چیف جسٹس کے طور پر نامزد ہونے کے ٹھیک بعد انڈیا ٹوڈےکو دئے گئے انٹرویو میں جسٹس ایس اے بوبڈے نے صحیح یاد دلایا کہ 1949 میں ایودھیامعاملے کے پہلی بار سامنے آنے کے بعد سے مرکز میں ہر سیاسی رجحان کی حکومت رہی ہے۔لیکن یہ حقیقت کہ اس مقدمہ کو اس وقت فاسٹ ٹریک کرکے پورا کیا گیا جبکہ مرکز میں ایک ایسی پارٹی کی حکومت ہے، جو کھلے طور پر ایودھیا پر اپنے حق کا اعلان کرتی ہے،جمہوریت کے مستقبل کو لےکر تشویش میں ڈالنے کی خاطر خواہ وجہ ہونی چاہیے۔
ہمارے پاس پہلےسے ہی ایک شہریت کے قانون کا مسودہ ہے جو کھلے طور پر مسلم پناہ گزینوں کو باہر رکھتاہے۔ ایک قانون منظور کیا جا چکا ہے جو مسلم مردوں کے ذریعے اپنی بیویوں کو چھوڑنےکو قانونی جرم بناتا ہے، مگر دوسرے مذاہب کے مردوں کے لئے ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ہندوستان کا واحد حصہ جہاں آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کاآئینی حق نافذ نہیں ہے، وہ مسلم اکثریتی علاقہ کشمیر ہے۔
ممکنہ منظرنامہ
قانون کے جانکاروں کو 5 رکنی بنچ سے ایک ایسے فیصلے کی امید تھی، جو کسی بھی فریق کی جیت کے طور پر پیش کرنے کے کام نہیں آتی ۔ مندر کے حق میں کورٹ کا واضح فیصلہ سنگھ پریوار کے حوصلے کو اور بلند کرےگا۔ چونکہ حکمراں جماعت-اور اس طرح سے حکومت-بابری مسجد کے مقام پر رام مندرکی تعمیر کے لئے پرعزم ہے، اس لئے اس منصوبہ کو تیزی سے پورا کرنے کا راستہ اب صاف ہے۔ کورٹ نے حکومت سے ایک بورڈ کی تشکیل کرنے کو کہا ہے، لیکن تیسرے مدعا علیہ نرموہی اکھاڑا کے نمائندے کو اس میں شامل کرنے کے لئے کہنے کے علاوہ، اس نے اوپری طور پر بھی 1992 کی مسماری میں شامل لوگوں اور اداروں کو اس سے باہر رکھنے کی بات نہیں کی ہے۔
فیصلے سے پہلے بھی، جب اس بات کا امکان باقی تھا کہ کورٹ شاید سنی وقف بورڈ کے دعویٰ کو صحیح مانے، توبھی اسی مقام پر مسجد کی پھر سے تعمیر کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اگر وہ جیت گئے ہوتے، توبھی فریقین پر اس زمین سے اپنا دعویٰ چھوڑ دینے کا زبردست دباؤ رہتا۔ اصل میں سپریم کورٹ کی سماعت کے آخری مرحلے میں وقف بورڈ کے چیئر مین نے ایک متنازعہ ‘ثالثی’ کی تجویز پر دستخط کیا تھا، جس میں انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عرضی کو واپس لینے پر اپنی رضامندی دی تھی اگر بدلے میں یہ وعدہ کیا جائے کہ اس کے بعد سے مسلمانوں کی عبادت کی کوئی بھی دوسری جگہ ان سے چھینی نہیں جائےگی۔
دوسرے مسلم فریقوں نے فوراً اس پر اعتراض کیا۔یہ حقیقت کہ اہم ہندو فریق-جو کہ اصل میں وشو ہندو پریشد ہے-ایسے کسی وعدے پر بھی دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں تھا، اس بات کا پختہ اشارہ ہے کہ ایسے ‘دنیا کے سب سے اہم مقدمہ ‘ کی فہرست اور کھڑے ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے حکومت سے ایودھیا میں ایک مناسب مقام پر مسجد کی تعمیر کرنےکے لئے پانچ ایکڑ زمین مختص کرنے کے لئے کہا ہے، لیکن وہ یہ بھول گیا کہ اس مقدمہ کی اہمیت مسجد کی دستیابی سے زیادہ اس سوال کو لےکر تھا کہ کیا ہندوستان میں کسی کو بھی کسی آدمی یا گروہ کو بےدخل کرنے کے لئے تشدد کا استعمال کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
افسوس کی بات ہے کہ اس سوال کا جواب مل گیا ہے اور یہ جواب ہاں میں ہے۔سب سے خراب بات یہ ہے کہ بے دخلی کو منظور کیا گیا ہے اور دوسری جگہ پانچ ایکڑدےکر اس کا معاوضہ دیا گیا ہے، لیکن جن لوگوں نے یہ کام کیا، ان کو آج بھی اپنےجرم کی فصل کاٹنے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔سب سے عجیب یہ ہے کہ کورٹ نے یہ اعلان کیا کہ متنازعہ مقام پر ہندوؤں کےذریعے پوجا کرنے کا کچھ ثبوت ملتا ہے، لیکن 1857 سے پہلے نماز ادا کرنے کاکوئی تحریری دستاویز دستیاب نہیں ہے، اس لئے ‘ امکانات کے توازن ‘ کی بنیاد پرہندو فریق کو متنازعہ زمین کا قبضہ دیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب صاف ہے کہ اس دلیل کوان دوسری مسجدوں پر بھی نافذ کیا جا سکتا ہے، جن پر ہندتووادیوں کا دعویٰ ہے۔ ایک بار ایودھیا مندر کی پوری طرح سے سیاسی کمائی کر لئے جانے کے بعد، سنگھ دوسری جگہوں پر اپنی توجہ مرکوز کرےگا۔ ایسی کسی بھی چیز سے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا رابطہ کبھی بھی برابری کی زمین پر کھڑے دو فریقوں کے درمیان کے ایک دیوانی تنازعہ سے نہ ہوکرایک براہ راست طاقت کے مظاہرے سے تھا۔ ‘ ثقافتی’ تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا سیاسی ایجنڈہ کسی سے چھپا نہیں ہے اور اتر پردیش اور مرکزی حکومت کے تعصبات بالکل واضح ہیں۔ اسی وجہ سے ثالثی پر سپریم کورٹ کا زور بےمعنی تھا۔
ایک مجرمانہ مقدمہ کا مستقبل
حالانکہ سپریم کورٹ نے مالکانہ حق کے مقدمہ کو ترجیح دےکر اس کو فاسٹ ٹریک طریقے سے انجام پر پہنچایا، لیکن یہ طے نہیں ہے کہ یہ مسجد مسماری کے مقدمہ کو ‘مالکانہ تنازعہ ‘پر اپنے فیصلے سے کس طرح سے بچانے کی سوچ رہا ہے؟انڈیا ٹوڈے کو اپنے انٹرویو میں جسٹس بوبڈے نے اس بات سے انکار کیا کہ کورٹ عقیدے کے مسئلے پر قانون بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ اس بات سے متفق تھے کہ یہ ایک’مالکانہ تنازعہ’ہے، مگر انہوں نے جوڑا، ‘ صرف ایک بات کہ اس ڈھانچے کی فطرت کیا ہے، یہ ایک مسئلہ ہے۔ لیکن وہ ڈھانچہ بھی اب وجود میں نہیں ہے۔ ‘
تو کیا ایسے میں ایک مدعا یہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کیوں’وہ ڈھانچہ ‘ یعنی کہ بابری مسجد’اب وجود میں نہیں’ہے۔ سنیچر کو آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم اسٹیک ہولڈر مسجدگرانے کے جرم کے ملزمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر ایودھیا مسئلہ اصل میں دنیا کے سب سےاہم مقدموں میں سے ایک ہے، تو اس کی وجہ وہ تشدد ہے، جو اس سے جڑا ہوا ہے۔ تو کیایہ معاملہ اس تشدد کے لئے ذمہ دار لوگوں کو سزا دئے بغیر سلجھایا جا سکتا ہے؟
پانچ ججوں کی رکنیت والی بنچ عدالتی صواب دید کے ایک متاثر کن گروہ کی نمائندگی کرنے والی تھی، لیکن تکلیف دہ طور پر ان کا فیصلہ اس بنیادی سوال کو لےکر پوری طرح سے خاموش ہے۔