لبرل دانشور جماعت کے لئے ہندوستان بھلےہی اب تک ہندو راشٹر نہ بنا ہو، لیکن گلیوں میں گھومنے والے ہندتووادیوں کے لئے یہ ایک ہندو راشٹر ہے۔ اس کی علامت بھلے چھپی ہوئی ہوں، لیکن اس کے حمایتی اور متاثرین، دونوں ہی بہت واضح طور پر اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
جب لوگ ‘ ہندو راشٹر ‘ کہتے ہیں، تو ان کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اور ایسی کسی حکومت میں رہنے کا تجربہ کیسا ہوتا؟
لوگ بڑے پریڈوں، بینروں، بازو پر لگائی گئی پٹیوں یا یہاں تک کہ سرکاری نیم فوجی دستوں کا بھی تصور کر سکتے ہیں۔ وہ شاید حکومت کی علامتوں-قومی گیت، جھنڈا اور آئین کی رسمی حلف-کے بدلنے کی بھی امید کر سکتے ہیں یہ کچھ کچھ لیلا (ایک ہندوستانی ویب سریز) کی آفات سے بھری دنیا کے علامتی اور جمالیاتی ادراک سے ملتا جلتا کچھ ہو سکتا ہے۔
لیکن کیا ہو اگر ہم پہلے ہی اصل میں ایک ہندو راشٹر میں رہ رہے ہوں اور ہمیں اس کا احساس بھی نہ ہو رہا ہو! جو بات زیادہ تر لوگ نہیں سمجھتے ہیں کہ علامتوں کو برباد کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے کیونکہ ان پر قبضہکیا جا سکتا ہے اور پھر ان کو کھوکھلا بنا یا جا سکتا ہے۔
زیادہ تر ہندوستانیوں کے لئے آزادی اور برابری کی نمائندگی کرنے والے ترنگے کو ویسے لوگوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر فخر کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، جو ان اصولوں کو ختم کر دینے پر آمادہ ہیں۔ ایک مسلم کی لنچنگ (پیٹ پیٹ کر قتل کر دینے) کے ملزم ایک شخص کی لاش کو بھگوا کپڑے سے نہیں، اسی ترنگے سے لپیٹا گیا تھا۔
اسی طرح سے یہ ضروری نہیں ہے کہ آئین کے اصولوں کا رسمی طور پر حلف لینا، ان اصولوں پر منصوبہ بند حملوں کو روک لے، جس کی ظاہری شکل آئین ہے۔ کچھ سال پہلے، مشہور سیاسی سائنس داں پرتاپ بھانو مہتہ نے کہا تھا کہ ڈرانے-دھمکانے اور اداروں کو کھوکھلا کرنے کا ماحول، ‘ ایمرجنسی سے کافی ملتا جلتا ‘ احساس دیتا ہے۔
اس لئے آئینی جمہوریت سے ایک اکثریت پسند راج میں منتقل ہونے کے لئے آئینی ڈھانچے یا ہماری قومی نشانیوں میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لئے زیادہ کچھ نہیں ہمارے حکومتی نظام کے کردار اور سماج کے برتاؤ میں تبدیلی آنا ہی کافی ہے۔ حالیہ ثبوتوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ ہم ایسی تبدیلی کے پروسیس کے کافی آگے بڑھے ہوئے مرحلے میں ہیں۔
جب چین کی حکومت نے کمیونزم کو سرمایہ داری کے لئے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا، تب انہوں نے اپنے آئین، اپنے قوانین، یہاں تک کہ اپنے سیاسی نعروں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کیا تھا۔ مختصر اً کہیں، تو انہوں نے پرانے نظام کی نشانیوں کو نہیں بدلا، لیکن انہوں نے شاہی حکومت کے کردار کو تقریباً سر کے بل الٹا کھڑا کر دیا۔
انہوں نے اس کو بس ایک نیا نام دے دیا-‘ چینی خصوصیات والی سوشلزم ‘۔ لیکن اگر کسی کو آج بھی لگتا ہے کہ چین کا حکومتی نظام کسی بھی طرح سے سوشلسٹ ہے، تو اس سے بڑا مذاق اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ہمارے لبرل دانشوروں کو اگر یہ مغالطہ ہے کہ ہندو راشٹر کوئی دور کی چیز ہے اور وہ ان ضابطہ جاتی دلائل کی رٹ لگارہے ہیں جو اپنی معنویت کھو چکے ہیں، تو وہ جلدہی مذاق بننے والے ہیں۔
جو چیز آخرکار معنی رکھتی ہے، وہ ریاست کا برتاؤ ہے، نہ کہ اس کی صورت۔ یو کےکو عملاً ایک سیکولر ملک مانا جاتا ہے، جبکہ وہاں دو چرچ کو سرکاری طور پر منظوری حاصل ہے۔اگر کوئی ملک نان سیکولر آئین کے باوجود سیکولر ہو سکتا ہے، تو اس کا الٹا بھی پوری طرح سے ممکن ہے۔ اس لئے ہندو راشٹر کیا صورت اختیار کرتا ہے، یہ اس کے حامیوں اور یقینی طور پر ا س کے متاثرین، دونوں کے لئے ہی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
جو چیز معنی رکھتی ہے، وہ ہندو راشٹر کی فطرت ہے-ایک ایسا نظام، جہاں اقلیت دوئم درجے کے شہری کی طرح ڈرکے سائے میں رہتے ہیں اور جہاں اہم ہندوتوا تنظیموں کو حقیقت میں لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے کی سزا سے پرے طاقت حاصل ہوتی ہے۔اگر آپ اب بھی یہ مانتے ہیں کہ ایک سیکولر آئین کے تلے اکثریت پسند حکومت ممکن نہیں ہے، تو آئینی تحفظ کے حالیہ ریکارڈس پر ایک نظر ڈالیے۔ شہریت بل، جس میں مسلمانوں کو چھوڑکر تمام پناہ گزینوں کو شہریت کا حق دیا گیا ہے، کو ابھی تک غیر آئینی قرار نہیں دیاگیا ہے۔
آسام کے ڈٹینشن سینٹر، جن میں مسلمانوں کی تعداد غیرمتناسب طریقے سے زیادہ ہے، بھی شاید غیر آئینی نہیں ہیں۔ دلچسپ یہ ہے کہ اس پوری قواعد کی نگرانی خود سپریم کورٹ کے ذریعے کی جا رہی ہے۔جیسا کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے وعدہ کیا ہے کہ حکمراں جماعت کے ذریعے ملک بھر میں شہریوں کے نیشنل رجسٹر کو نافذ کیا جائےگا اور ملک بھر میں ڈٹینشن سینٹروں کی تعمیر کی جائےگی، یہ بھی آئین کے خلاف نہیں پایا جائےگا۔
وڈرو ولسن کے لفظوں میں، آخر آئین کوئی ‘ خود سے کام کرنے والی مشین نہیں ہے ‘، بلکہ ایک زندہ چیز ہے۔ اس لئے آئینی اہتماموں کے معنی ،لفظوں کے استعمال کے بارے میں بھلے نہ بدلیں، وقت اور سیاسی تناظر کے حساب سے ان میں تبدیلی آنا ضروری ہے۔ہمیں راحت دینے والے آئینی حقوق اتنے ہی اچھے ہوتے ہیں، جتنے اچھے ان کی وضاحت کرنے والے اور ان کو نافذ کرنے والے ہوتے ہیں۔ یا زیادہ صحیح طرح سے کہیں، ان کو نہ نافذ کرنے والے ہوتے ہیں۔
ہم اکثر امریکہ میں نسلی واقعات کے بارے میں سنتے رہتے ہیں۔ لیکن ‘گورے’ مجرموں کے ذریعے ان واقعات کا ویڈیو بناکر ان کو جاری کرنے کا واقعہ اکثر کبھی نہیں دیکھتے ہیں۔ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مجرموں کو سزا کا کوئی خوف نہیں ہے۔بلکہ اس کی جگہ ان کو لگتا ہے کہ ان کی پیٹھ تھپتھپائی جائےگی۔ وہ رائٹ ونگ کے ایک آئیکان کو پارلیامنٹ میں دیکھتے ہیں، جس کے ڈرامائی ابھارکے پیچھے اس فیکٹ کا ہاتھ ہے کہ وہ مسلمانوں کے قتل کے ایک معاملے میں ملزم ہے۔
یہ سچ ہے کہ الگ مذہب-تہذیب والوں کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے یا برتری کے تصور سے بھرے ہوئے حملے ہر ملک میں ہوتے ہیں۔ لیکن ایک قانون پر چلنے والے ملک اور ایک اکثریت پسند ملک کے بیچ بس ایک فرق ہوتا ہے-سزا کا کوئی خوف نہ ہونا۔لبرل دانشور جماعت کے لئے ہندوستان بھلے ہی اب تک ہندو راشٹر نہ بنا ہو، لیکن گلیوں میں گھومنے والے ہندوتوا کے جنگجوؤں کے لئے یہ ایک ہندو راشٹر ہے۔ اسی طرح سے ہندو ملک کی پہلی شرط یہ نہیں ہے کہ اقلیتوں کے خلاف شدت پسندی یا تشدد کو قانونی یا آئینی طور پر جائز ٹھہرایا جائے۔
ہندتووادی تشدد، کسی بھی دیگر سیاسی تشدد کی طرح ہدف نہ ہوکر، اس ہدف تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ ہندوتوا کا تمام طرح کے تشدد کا ہدف ایک عالمگیر اور دائمی ڈر کے ماحول کی تعمیر کرنا ہے، جس میں اقلیتوں کو اپنے دوئم درجے کو قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑےگا۔اگر آج اقلیتوں کو عوامی طور پر اپنے سیاسی خیالات کو ظاہر کرنے میں ڈر لگتا ہے اور وہ انجان لوگوں کے گروپ کے سامنے اپنا اصلی نام بھی پکارنے سے ڈرنے لگے ہیں، تو یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہندوتوا کے جھنڈابرداروں کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ ہندوستان کے اقلیتوں کے لئے یہ ہر طرح سے ایک ہندو راشٹر ہے۔
اس سب کے بیچ ہماری ‘ غیر جانبدارانہ اور آزاد ‘ میڈیا کہاں ہے؟ کیا ایک ہندو راشٹر میں ٹیلی ویژن پر ہر دن اقلیتوں کے خلاف نفرت کا زہر نہیں پھیلایا جائےگا اور ا س کے رہنماؤں کو ‘ عظیم شخصیت ‘ کے طور پر پیش نہیں کیا جائےگا؟ ہندوستان کے سب سے بڑے نیوز چینلوں کو دیکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ آج کل ٹیلی ویژن پر یہی چل رہا ہے۔
مسلمانوں کے کھانے پینے کی عادتوں، شادی کی رسموں اور مذہبی عقائد پر گفتگو کرنا آج ٹیلی ویژن نیوز چینلوں کا سب سے من پسند کام بن گیا ہے۔ ایسا کوئی دن شاید ہی گزرتا ہو جب غصے میں تمتمایا ہوا کوئی اینکر کسی داڑھی والے نامعلوم مسلمان پر اس کی دقیانوسی سوچ کے لئے ،اس پر چلاتا ہوا نہ دکھائی دے۔یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ یہ مسلمانوں کے تئیں میڈیا کے اس جنونی لگاؤ کو سرکاری طور پر حکومت کی حمایت ملی ہوئی ہے یا نہیں! جب میڈیا کا ایک بڑا حصہ حکمراں جماعت کے ہندوتوا کے ایجنڈے کو پوری شدت کے ساتھ بڑھائے، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انہوں نے خود کو ہندوراشٹر کے پروپیگنڈہ ونگ میں بدل لیا ہے۔
ایسی کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے ہم آج بھی یہ غلط فہمی پالے رکھنا چاہتے ہیں کہ ہم ایک مضبوط سیکولر، جمہوری نظام میں رہ رہے ہیں؟ ایسا ماننے کی اہم وجہ یہ ہے کہ تاریخی طور پر ہمیں ایک اکثریت پسند نظام کے اندر رہنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔یورپیوں کے برعکس، جنہوں نے فاشزم کا تجربہ کیا ہے، ہمارے پاس ہندو اکثریت پسند ملک کی ایسی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ہمارے پاس فاشزم کی صفت بتانے کے لئے تاریخ کی کوئی اپنی مثال نہیں ہے۔ جدید ہندوستان کو صرف استعماریت اور سیکولر جمہوریت کا تجربہ ہے۔
ہم نے جس چیز کا تجربہ پہلے نہ کیا ہو، یا جو چیز ہمارے تصور میں بھی نہ ہو ،ہم اس کو سامنے پاکر بھی اس کی پہچان نہیں کر سکتے ہیں۔ آج ہمارے سامنے جو ہندو راشٹر ظاہر ہے، اس کی بنیاد میں یہی مافوق فطری صفت ہے۔ ہندو راشٹر کی علامات بھلے چھپی ہوئی ہوں، لیکن اس کے حمایتی اور اس کے شکار، دونوں ہی اس کا تجربہ بہت ہی واضح طریقے سے کر سکتے ہیں۔
(عاصم علی دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ )