بڑھتی آلودگی کے مدنظر این جی ٹی نے مغربی دہلی کے مایاپوری علاقے کے کباڑکے غیر قانونی کاروبار کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
‘ہمارے آٹو اسکریپ مارکیٹ کو تو انہوں نے (حکومت)ایسے کر دیا ہے، جیساکوئی یتیم خانہ بھی نہیں ہوتا۔ ہم ٹیکس بھی دیتے ہیں، پھر بھی ایسا ہے۔ ‘
دہلی کے مایاپوری واقع اپنے دفتر میں گروندر کمار عرف ککو اپنا درد بیان کرتے ہیں۔ وہ اولڈ موٹرس اینڈ مشینری پارٹس ڈیلرس ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ہیں۔گروندر کہتے ہیں،’این جی ٹی کی کارروائی کے بعد ہمارادھندا کافی مندا ہو گیا۔ اب نہ تو گاڑی(پرانی)لا سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے کل-پرزوں کو الگ کر سکتے ہیں۔’آٹو اسکریپ کاروبار میں مندی کو لےکر گروندر سنگھ کا درد صرف اکیلا ان کانہیں ہیں۔ مغربی دہلی کے مایاپوری میں تقریباً2000 سے زیادہ دکانداروں کی یہی دردبھری کہانی ہے۔
دراصل میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر جانکاری لیتے ہوئے مئی 2015 میں این جی ٹی نے بڑھتی آلودگی کے مدنظر مایاپوری کے کباڑ کے غیر قانونی کاروبار کو فوراً بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ این جی ٹی نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ مایاپوری میں ایسے تمام غیر قانونی طور پر چل رہے اسکریپ کاروبار کو بند ہونا چاہیے، جو کیمیا، تیل اورزہریلے دھواں پیدکرتے ہیں اور جن سے فضائی آلودگی،بڑے پیمانے پر اموات اور بیماریاں ہوتی ہیں۔این جی ٹی کے اس ہدایت کو انتظامیہ نے اس سال عام انتخاب سے پہلے اپریل میں سختی سے نافذ کیا۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ این جی ٹی کے اس فیصلے کے بعدمایاپوری میں تقریباً 850 کارخانہ اوردکانوں پر تالا لگ گیا۔ انتظامیہ کے ذریعے دکانیں بند کرائے جانے کے دوران یہاں کےکاروباریوں کے ساتھ اس کی جھڑپ بھی ہوئی تھی۔
#WATCH Clash broke out between locals & security forces in Delhi's Mayapuri area after MCD officials began to seal some factories in the area following National Green Tribunal's (NGT) order to seal nearly 850 factories. pic.twitter.com/sitlqU116Z
— ANI (@ANI) April 13, 2019
مغربی دہلی کے مایاپوری میں واقع یہ علاقہ ایشیا کا سب سے بڑا آٹواسکریپ مارکیٹ بتایا جاتا ہے۔ این جی ٹی کی کارروائی سے پہلے یہاں سالانہ تقریباً6000 کروڑ روپے کا کاروبار ہوتا تھا۔ اس بازار میں پرانی گاڑیوں کے پارٹس کو الگ الگ کئے جانے کا کام کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جو پارٹس پھر سے استعمال کرنے لائق ہوتے ہیں، ان کو فروخت کےلئے دکانوں میں رکھا جاتا ہے اور باقی بیکار کے حصے کو کباڑ کی قیمت میں بیچ دیاجاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے 30 اکتوبر، 2018 کو دہلی این سی آرمیں 15 سال پرانے پیٹرول اور 10 سال پرانے ڈیزل گاڑیوں پر روک لگا دی تھی۔مایاپوری کے اسکریپ کاروباریوں کی مانیں تو سپریم کورٹ کی پرانی گاڑیوں پرروککے حکم کے بعد یہاں تل رکھنے کے بھی جگہ نہیں تھی۔ لیکن اب سڑکوں پر سناٹاپسرا رہتا ہے۔
Union Min Hardeep Singh Puri on Delhi CM blaming centre for clash between locals&security forces in Delhi over NGT's order on sealing 850 factories: NGT in 2015 gave instructions to Delhi govt to relocate scrap industries, as it causes pollution. Kejriwal govt had to implement it pic.twitter.com/4l4CZTHRaz
— ANI (@ANI) April 13, 2019
کاروباریوں کے مطابق، این جی ٹی کی کارروائی کے بعد اب ان کا دھندا تقریباً چوپٹ ہو گیا ہے۔ پہلے کے مقابلے اب یہ صرف 25 فیصدی(ایک-چوتھائی)رہ گیا ہے۔ این جی ٹی کی اس کارروائی کی وجہ سے دہلی کی اروند کیجریوال حکومت اورمرکزی حکومت کے درمیان الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی چلا تھا۔
अपने ही व्यापारियों को इस तरह पीटना बेहद शर्मनाक है
व्यापारियों ने हमेशा धन और वोट से भाजपा का साथ दिया। बदले में भाजपा ने उनकी दुकानें सील की और उनको लाठियों से पीटा। चुनाव में भी व्यापारियों पर इतना बर्बर लाठी चार्ज? भाजपा साफ़ कह रही है- नहीं चाहिए भाजपा को व्यापारियों का साथ https://t.co/irVwvymdX8
— Arvind Kejriwal (@ArvindKejriwal) April 13, 2019
اس کارروائی کے پانچ مہینے بعد گروندر کمار این جی ٹی کی کارروائی کو پوری طرح غلط نہیں بتاتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ سسٹم میں خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں،’این جی ٹی نے جو کیا، وہ کچھ حد تک صحیح بھی تھا اور غلط بھی۔ ہمیں 20 یارڈ (گز) سے 50 یارڈ تک کی زمین مختص کی جاتی ہے۔ ہمارا بزنس ایساہے کہ اتنی کم جگہ میں ہمارا کام نہیں ہوتا ہے۔ این جی ٹی والے ہمیں دکان کے باہرکچھ کرنے ہی نہیں دے رہے ہیں۔ اس سے ہمارے مال کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔ ‘
گروندر کے مطابق، کاروباریوں کی مانگ ہے کہ این جی ٹی ان کے کاروبار کولےکر ایک گائیڈلائن تیار کریں، تاکہ ان کے سامنے سب کچھ صاف ہو، لیکن ان کی اس مانگ پر بھی کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے۔ ان کی مانیں تو کاروباریوں کے لئے فی الحال تھوڑی راحت کی بات ہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے دکانوں کی سیلنگ کو لےکر روک لگا ہی ہے۔ لیکن، کاروبار مندا ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی فائدہ نہیں دکھ رہا ہے۔ کئی دکانیں بند پڑی ہوئی ہیں۔
20 سال سے زیادہ عرصے سے آٹو اسکریپ کاروبار کر رہے مظہر احمد کاکہنا ہے، ‘صبح سے دوپہر ایک بجے تک 100 روپے کا بھی کام نہیں ہو پاتا۔ گراہک نہیں آتے۔ لاکھوں روپے کا مال پڑا ہوا ہے۔ اب موٹے لوہاکی قیمت 22 روپے فی کیلوہو گئی ہے۔ پہلے یہ 32 روپے تھا۔ جوچادر 27 روپے فی کیلو بکتا تھا، اب وہ 17 روپے کا ہو گیا ہے۔ ‘لوہے کی یہ چادریں پرانی گاڑیوں کا حصہ ہوتی ہیں، جن کو گاڑیوں کو کاٹنےکے بعد کیلوگرام کی شرح سے بیچا جاتا ہے۔
جب ہم نے ان سے پوچھا کہ یہاں کے مقامی لوگوں کو اس کاروبار سے کیا دقت تھی؟ اس کے جواب میں مظہر احمد کہتے ہیں،’15 سال پرانی گاڑیوں پر روککے بعد یہ بڑی تعداد میں یہاں کٹنے لگیں۔ اس سےلوگوں کو دقت ہونے لگی تھی۔ پھر اس کی وجہ سے این جی ٹی آئی تھی۔ اس کے بعدانتظامیہ نے یہاں آکر صاف-صفائی کرا دی۔’ان کا کہنا ہے،’آج پانچ مہینے ہو گئے تب سے ہی دھندا مندا پڑا ہوا ہے،یہاں پر گراہک آنے بند ہو گئے۔ گراہک سوچتے ہیں کہ مایاپوری بند ہو گئی۔ ‘
فی الحال آٹو سیکٹر میں مندی نے بھی مظہر جیسے کاروباریوں کی مشکلیں بڑھانے کا کام کیا ہے۔مندی کو لےکر ان کا کہنا ہے، ‘جو آٹو شو روم بند ہوئے ہیں، اس سے بھی ہمارے کام پر فرق پڑا ہے۔ جیسے شو روم میں کسی گاڑی کا سامان نہیں ہوتا تھا تو اس کا بندہ ہم سے وہ پارٹس لےکے ڈینٹ-پینٹ کراکر نئی گاڑی میں لگاکر بیچ دیا کرتےتھے۔ اس طرح ہمارا کاروبار چلتا رہتا تھا۔’وہ کہتے ہیں،’اس کے علاوہ سیلنگ کی وجہ سے جو ورکشاپ بند ہو چکے ہیں، اس کی وجہ سے بھی ہمارا کاروبار ختم ہو چکا ہے۔’
احمد کی مانیں تو آٹو شو روم اور ورکشاپ سے ان کا 50 فیصدی کاروبار چلتا تھا، لیکن اب یہ بیتے وقت کی بات لگنے لگی ہے۔آٹو اسکریپ کے دھندے میں مندی کو لےکر صرف مایاپوری کے کاروباری ہی متاثرنہیں ہوئے ہیں، بلکہ یہاں کام کرنے والے مزدوروں کے سامنے بھی دو وقت کی روٹی کامسئلہ بھی کھڑا ہو گیا ہے۔
مظہر احمد کے یہاں پہلے 9 لوگ کام کرتے تھے۔ ان میں سے تین کو وہ نوکری سے نکال چکے ہیں۔ اس کے علاوہ مایاپوری کے جن کاروباریوں سے بھی ہم نے بات کی انہوں نے بھی اسی طرح کی باتیں کی۔ ان حالات میں جو مزدور اب تک مایاپوری میں ٹکے ہوئے ہیں، ان پر بھی روزگارجانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ان میں مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر لے جانے والےملازم بھی شامل ہیں۔20 سال سے اس کاروبار میں شامل ایک اور دکاندار یوگیش یادو کہتےہیں،’کچھ بھی کام نہیں ہو رہا ہے تو ہم اسٹاف کو کہاں سے رکھ پائیںگے۔ پہلےہمارے یہاں 10 لوگ کام کرتے تھے۔ اب پانچ ہیں۔ ان کے پاس بھی کام نہیں ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ تمام خالی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ‘
گروندر کمار کی مانیں تو نوٹ بندی کا اس بازار پر بہت زیادہ اثر نہیں پڑاتھا، لیکن پرانے پارٹس پر بھی 28 فیصدی جی ایس ٹی کی وجہ سےیہاں کے کاروبار پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو اس کوگھٹاکر زیادہ سے زیادہ 18 فیصدی رکھناچاہیے۔ گروندر کمار کے ساتھ مظہر احمد اور یوگیش یادو کا بھی کہنا ہے کہ ان کےکاروبار کو سب سے زیادہ این جی ٹی کی کارروائی نے چوپٹ کیا ہے اور آٹو سیکٹر میں چھائی مندی نے بچی ہوئی کسر بھی پوری کر دی ہے۔مظہر احمد اس کے لئے نریندر مودی حکومت کی جلدبازی میں لئے گئے فیصلوں کوذمہ دار مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’ حکومت ہر کام کو کرنے سے پہلے تھوڑا سوچیں۔ غورکریں۔ ایک دم بم پھوڑنے سے ہر بندہ گھبرا جاتا ہے۔ ‘
بتا دیں کہ سال 2010 میں مایاپوری علاقے میں کباڑ سے ریڈیو ایکٹوکوبالٹ-60 ملا تھا اور ا س کے شعاع ریزی کے اثر میں آنے سے ایک آدمی کی موت ہو گئی تھی۔ اس وقت پولیس نے بتایا تھا کہ مایاپوری کے کاروباریوں نے دہلی یونیورسٹی کےشعبہ علم کیمیا کی لیب کے آلات کی نیلامی کے دوران ایک ایسا آلہ خریدا تھاجس میں ریڈیو ایکٹیوکوبالٹ-60 تھا۔ اس واقعہ کے بعد دہلی یونیورسٹی کے 6 پروفیسروں کے خلاف مقدمہ درج کیاگیا تھا۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)