تشدد پورے ہندوستان میں ہے، لیکن بنگال کے سیاسی مزاج میں ہی تشدد ہے

مغربی بنگال میں پہلے بائیں بازو کے تشدد کا غلبہ تھا، اسی کو ترنمول نے اپنایا۔ ترنمول نے بائیں بازو کے تشدد کا سامنا کیاتھا، لیکن اب اس کی جگہ اس نے ترنمول کےتشدد کو قائم کردیا ہے۔ پارٹی بھلے بدل گئی ہو، لیکن تشدد وہی ہے۔

مغربی بنگال میں پہلے بائیں بازو کے تشدد کا غلبہ تھا، اسی کو ترنمول نے اپنایا۔ ترنمول نے بائیں بازو کے تشدد کا سامنا کیاتھا، لیکن اب اس کی جگہ اس نے ترنمول  کےتشدد کو قائم کردیا ہے۔ پارٹی  بھلے بدل گئی ہو، لیکن تشدد وہی ہے۔

رام پورہاٹ میں آگ زنی کے خلاف کولکاتہ میں ترنمول کانگریس حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے طلبا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

رام پورہاٹ میں آگ زنی کے خلاف کولکاتہ میں ترنمول کانگریس حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے طلبا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

مغربی بنگال کے بیر بھوم ضلع میں رام پور ہاٹ کے قریب بوگتوئی گاؤں میں 21 مارچ کی رات کو ہوئے اس قتل معاملے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔تقریباً 10 گھروں پر بم سے حملہ اور ان میں  آگ زنی میں خواتین اور بچوں سمیت 8 افراد جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔ بعد میں اس بات پر بحث کی جائے گی کہ کیا انہیں جلا دیا گیاتھا یا گھروں میں لگائی گئی آگ میں جل کر وہ مر گئے۔ اس فرق سے قتل کی نوعیت میں بھی فرق پڑے گا،اور ظلم کی سطح میں بھی۔

ہم نے سب سے پہلے ہلاک ہونے والوں کے نام دیکھے۔ ٹلی خاتون، شیلی بی بی، نورنہار بی بی، للی خاتون، روپالی بی بی، جہاں آرا بی بی، مینا بی بی، ساجد الرحمن۔ راحت کی سانس لی۔ پھر مجھے شرمندگی محسوس ہوئی۔

لیکن اس اولین ردعمل کی وجہ ہے۔ ہر اس قتل کو جو ہندوؤں کا ہو، اور خاص طور پر مغربی بنگال میں، جس انداز میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے، اس سے مسلمانوں اور سیکولر لوگوں کو کافی تسلی ملتی ہے۔ چونکہ ہلاک ہونے والے تمام مسلمان ہیں، اس لیے اب ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو اس قتل معاملے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔

لیکن کیا یہ تسلی انسانی ہے؟ ریاست کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس قتل کو بنگال کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یقین دلایا کہ تشدد میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا، چاہے ان کا سیاسی رنگ کچھ بھی ہو۔ اس آخری حصے میں بنگال کا المیہ چھپا ہوا ہے۔

ہلاک ہونے والے اور ہلاک کرنے والے دونوں ہی حکمراں ترنمول کانگریس سے یا اس کے حامیوں سے وابستہ بتائے جاتے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ سوموار کی شام کوترنمول کانگریس سے وابستہ باہوبلی بھادو شیخ کے قتل کے کچھ دیر بعد، موٹر سائیکل پر سوار کچھ سو غنڈے گاؤں میں داخل ہوئے اور انہوں نے بمباری کی، آگ زنی کی ، جس میں یہ 8 لوگ مارے گئے۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ترنمول پارٹی کے ارکان کے درمیان رنجش  کا نتیجہ ہے۔ بھادو شیخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا غنڈہ تھا۔ ظاہر ہے اس نے اپنے دشمن بنائے ہوں گے۔ اس کے تشدد کا بدلہ اس کے قتل سے لیا گیا۔ پھر اس قتل کا جواب اس قتل  سے دیا گیا۔

کیا اسے سیاسی تشدد کہا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ  یہ دو گروپوں کے درمیان لڑائی کا نتیجہ ہے؟

رامپورہاٹ میں ہوئی آگ زنی ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

رامپورہاٹ میں ہوئی آگ زنی ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ایک ماہر سیاسیات نے ٹیلی گراف اخبار کو بتایا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سیاسی نہیں ہے کیونکہ یہ ترنمول کے اندر سیاسی جدوجہد کا ہی ایک نتیجہ ہے۔ ترنمول کے اندر کئی دھڑے ہیں۔ ان کے درمیان تصادم کو غیر سیاسی نہیں کہا جا سکتا۔

ممتا بنرجی نے کہا کہ بنگال میں ایسی چیزیں نہیں ہوتیں اور چونکہ ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے، اس لیے ایسی سازش کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے ریاست میں انتشار کی نئی مثال قرار دیتے ہوئے صدر راج کا مطالبہ کیا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے ریاست میں امن و امان کے تباہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔

تشدد تشدد ہے۔ قتل  قتل ہے۔ پھر بھی یہ کیسے کیا جاتا ہے، اس سے قتل اور قتل میں فرق معلوم ہوتا ہے۔ کھلے عام سو لوگوں کا موٹر سائیکل پر ایک گاؤں میں گھس کر حملہ کرنا، گھروں کو آگ لگانا اور لوگوں کو جلا کر مار دینا ، یہ گولی ماردینے سے زیادہ خوفناک ہے۔

کچھ ہی فاصلے پر واقع تھانے سے پولیس کو آنے میں گھنٹہ بھر لگ جانا، یہ بھی  قتل کو دوسرا رنگ دیتا ہے۔اسٹیٹ نے اس قتل کو ہونے دیا۔ آخر وہاں پولیس ہی تو اسٹیٹ ہے۔

بنگال میں پولیس اور پارٹی کی تفریق بہت پہلے مٹ گئی تھی۔ بائیں محاذ کے وقت ہی۔ تھانے پارٹی کی مرضی سے چلتے تھے۔ ایسے پولیس افسران کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں، جنہوں نے پارٹی سے آزاد ہوکر اپنے فرائض سرانجام دیے۔

گجرات 2002 میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہاں ایسے افسران موجود تھے جنہوں نے آئینی فرض کو پورا کیا۔ حالانکہ اس کی قیمت اسے چکانی پڑی۔ بنگال کی پولیس جو پہلے سی پی ایم کی تھی اب ترنمول کی ہے۔

اس کیس میں مقتول اور قاتل کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے۔ لیکن بنگال میں اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ تین دہائیوں کی بائیں محاذ کی حکومت کے خاتمے اور ترنمول کی بے مثال جیت کے بعد سی پی ایم کے دفاتر پر حملے شروع ہو گئے۔ ان پر قبضہ، ان کی توڑ پھوڑ، ان کو جلایا جانا، یہ دیکھ کر ہم میں سے کچھ لوگوں نےسوچا کہ  اس تشدد کے خلاف بیان جاری کریں۔

ہم نے ان لوگوں سے رابطہ کیا جو اس سے پہلے سی پی ایم کے تشدد کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ جواب مایوس کن تھا۔ ایک بڑی مصنفہ نے اس بیان کی تجویز کو سن کر فون بند کر دیا۔ یہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ ہم واقعی تشدد کے خلاف نہیں ہیں، ہم اپنے تشدد کا انتخاب کرتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی بیر بھوم میں مارے گئے ٹی ایم سی لیڈر بھادو شیخ کے اہل خانہ کے ساتھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی بیر بھوم میں مارے گئے ٹی ایم سی لیڈر بھادو شیخ کے اہل خانہ کے ساتھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

یہ بھی یاد آیا کہ ترنمول کے تشدد کے غلبہ سے پہلے بہت سے لوگ سی پی ایم کے تشدد کی مخالفت کرنے میں ہچکچاتے تھے۔

پورے ہندوستان میں تشدد کا راج ہے۔ سیاسی تشدد بھی۔ لیکن بنگال کے  سیاسی مزاج میں ہی  تشدد ہے۔ اس بار بھی اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ترنمول پارٹی کی جانب سے مخالفین پر حملے کیے گئے۔

اس سے پہلے مغربی بنگال میں بائیں بازو کے تشدد کا غلبہ تھا۔ بلدیاتی انتخابات میں دوسری جماعتوں کے امیدوار کھڑے نہ کردینا معمول تھا۔ اسی کلچر کو ترنمول نے بھی اپنایا۔ ترنمول کو بائیں بازو کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس کی جگہ اس نے ترنمول تشدد کو قائم کردیا۔

بنگال میں شاید ہی کوئی پارٹی سے آزاد ہو۔ہر شخص یا تو بائیں بازومیں ہوتا ہے، یا ترنمول یا اب بی جے پی میں۔ ترنمول نے سی پی ایم کے انداز میں اس کو توڑ دیا۔ اب اس کے تشدد کی حریف بن کر بھارتیہ جنتا پارٹی آئی ہے۔ تشدد جاری ہے۔

سماج کا پارٹی-سماج میں تبدیل ہونا اس تشدد کی جڑ ہے۔ کئی نسلیں اس تشدد کو سیاست سمجھ کر پروان چڑھی ہیں۔ ممتا بنرجی کا خیال ہے کہ وہ اس پر قابو پالیں گی، لیکن جیسا کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے، تشدد ڈی سینٹرلائز ہوجاتاہے اور خود مختاریت بھی۔ اگر پارٹی تشدد چاہتی ہے تو اسے مقامی خود مختاری بھی دینی ہوگی۔ تب ہی وہ اپنی فوج حاصل کر سکے گی۔

وقت بہت پہلےہی  آ گیا تھا کہ مغربی بنگال کی تمام سیاسی پارٹیاں مل کر تشدد کی اس سیاست کو ترک کر دیں۔ اس نے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ کہنا آسان ہے، ہونا مشکل ۔ لیکن بنگال کا معاشرہ اگر یہ نہ دیکھ سکے کہ وہ کس طرح کریہہ ہو رہا ہے تو اس کی نجات ممکن نہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

اکتوبر 2026 سے دو مرحلوں میں ہوگی مردم شماری

مرکزی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 15 سال بعد مردم شماری اکتوبر 2026 سے دو مرحلوں میں شروع ہو گی۔ اس کے ساتھ ذات پر مبنی  اعداد و شماربھی جمع کیے جائیں گے۔ اپوزیشن نے تاخیر پر سوال اٹھائے ہیں اور الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حد بندی کے ذریعے جنوبی ریاستوں کی سیٹیں گھٹانا چاہتی ہے۔

بہار میں 2023 ذات پر مبنی سروے کے دوران شہریوں کا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہوئے اہلکار۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے بدھ 4 جون کو اعلان کیا کہ مردم شماری اور ذات پر مبنی گنتی دو مرحلوں میں کی جائے گی، جس کی شروعات 1 اکتوبر 2026 سے ہوگی۔

مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری  بیان میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری کی ریفرنس ڈیٹ (تاریخ) 1 مارچ 2027 کو  رات 12 بجے ہوگی، جبکہ مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ اور جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے برفانی علاقوں میں یہ تاریخ 1 اکتوبر 2026 کی رات 12 بجے ہوگی۔

یہ پہلا موقع ہوگاجب 15 سال کے وقفے کے بعد مردم شماری کرائی جائے گی۔ آخری مردم شماری 2011 میں کی گئی تھی، جبکہ 2021 میں مجوزہ مردم شماری کووڈ 19 کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی تھی۔

وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا، ‘ہندوستان کی آخری مردم شماری 2011 میں دو مرحلوں میں کی گئی تھی(الف)پہلا مرحلہ-ہاؤس لسٹنگ (1 اپریل سے 30 ستمبر 2010 تک) اور (ب) دوسرا مرحلہ-آبادی کی گنتی (9 فروری سے 28 فروری 2011 تک)، جس کی ریفرنس ڈیٹ 1مارچ 2011 کی رات 12 بجےتھی۔ تاہم،جموں و کشمیر، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے برفانی علاقوں میں یہ عمل 11 سے 30 ستمبر 2010 کے درمیان انجام دیاگیا تھااور ریفرنس ڈیٹ 1 اکتوبر 2010 کی رات  12بجے  رکھی گئی تھی۔’

مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ 2021 کی مردم شماری بھی اسی طرح دو مرحلوں میں کی جانی تھی – پہلا مرحلہ اپریل-ستمبر 2020 کے دوران اور دوسرا مرحلہ فروری 2021 میں۔ لیکن وبائی امراض کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ تاہم، وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ یہ عمل پانچ سال تک کیوں تاخیر کا شکار ہوا۔

‘سال2021میں مردم شماری کے پہلے مرحلے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں اور کچھ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 1 اپریل 2020 سے فیلڈ ورک شروع ہونا تھا۔ لیکن ملک بھر میں کووڈ کے پھیلاؤ کی وجہ سے مردم شماری کا کام ملتوی کر دیا گیا۔’ وزارت نے کہا۔

اپوزیشن نے مردم شماری میں تاخیر پر سوال اٹھائے

اپوزیشن جماعتوں نے مردم شماری کی شروعات کو اور ٹالنے کے حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ جئے رام رمیش نے کہا، ‘2021 میں ہونے والی مردم شماری کو اب اور 23 ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ مودی حکومت صرف سرخیاں ہی بنا سکتی ہے، وقت پر کام مکمل نہیں کر سکتی۔’

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ 2027 میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی تمل ناڈو کی پارلیامانی نشستیں گھٹانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ہندوستانی آئین کے مطابق 2026 کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری کی بنیاد پر حد بندی کی جانی ہے۔ بی جے پی نے اب مردم شماری کو 2027 تک ملتوی کر دیا ہے، جس سے ان کا مقصد واضح ہوگیاہے کہ وہ تمل ناڈو کی پارلیامانی نشستوں کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس بارے میں پہلے ہی خبردار کیا تھا اور اب یہ حقیقت بن رہا ہے۔’

حد بندی ایک متنازعہ مسئلہ بن گیا ہے، خاص طور پر جنوبی ریاستوں میں، جو آبادی پر قابو پانے کے بہتر اقدامات کی وجہ سے پارلیامنٹ میں اپنی نمائندگی میں کمی کا خدشہ  ظاہر کر رہے ہیں۔

سال1976 میں، 1971 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر مبنی حد بندی کو روک دیا گیا تھا تاکہ وہ ریاستیں جنہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی آبادی کم کی تھی، اپنی نشستوں سے محروم نہ ہوں۔ 2001 میں اس پابندی کو 2026 تک بڑھا دیا گیا۔

ذات پر مبنی مردم شماری

اس سال اپریل میں مرکزی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ مردم شماری میں ذات کے ڈیٹا کو شامل کیا جائے گا، لیکن اس وقت یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ مردم شماری اور ذات پر مبنی مردم شماری کب کرائی جائے گی۔

ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ اپوزیشن جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی یہ ایک بڑا ایشو تھا۔

بیس اپریل کو مرکزی کابینہ کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی وزیر اشونی ویشنو نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سماج اور ملک کی اقدار کے تئیں وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن انڈیا الائنس پر ذات پر مبنی مردم شماری کو ‘سیاسی ہتھیار’ کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ کانگریس کی حکومتوں نے ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔

تاہم، یہ فیصلہ بی جے پی کے 2024 کے انتخابی موقف کے بالکل برعکس ہے، جب انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو سماج کو تقسیم کرنے والا قدم قرار دیا تھا۔

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور لوک سبھا ایم پی اکھلیش یادو نے اس معاملے کو 2027 میں ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے جوڑا۔

انہوں نے کہا، ‘ مطلب یہ کہ جب یوپی میں پی ڈی اے کی حکومت آئے گی، تب ہی ذات پر مبنی مردم شماری شروع ہوگی۔’ انہوں نے یہ تبصرہ اپنے 2024 کے انتخابی نعرے ‘پچھڑا، دلت، الپ سنکھیک’ (پی ڈی اے) کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے  یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

دہلی:  پی ڈبلیو ڈی نے ناراضگی کے بعد حفاظتی انتظامات کے بغیر نالیاں صاف کرنے والے ملازمین کی تصویریں ہٹائیں

دہلی پی ڈبلیو ڈی نے سوشل میڈیا پر حفاظتی انتظامات اور آلات کے بغیر نالیوں کی صفائی کرتے ملازمین کی تصویریں پوسٹ کی تھیں، جنہیں تنقید کے بعد ہٹا دیا گیا۔تصویروں میں ملازمین کو بغیر جوتے، دستانے اور ماسک کے کام کرتے دکھایا گیا تھا۔ ماہرین اور سماجی کارکنوں نے اسے دستی صفائی کے قانون کی خلاف ورزی کہا ہے۔

(علامتی تصویر: ارپیتا سنگھ اور مینک چاولہ)

نئی دہلی: دہلی کے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) نے اپریل اور مئی میں نالیوں کی صفائی کرنے والے عملے کی کئی تصاویر سوشل میڈیا، خصوصی طور پر ایکس پر پوسٹ کی تھیں۔

تاہم، منگل (3 جون) کو ان میں سے ایک پوسٹ کے وائرل ہونے اور اس حوالے سےتنقید کا نشانہ بننے کے بعد محکمے نے ان تصاویر کو اپنے سوشل میڈیا سے ہٹا دیا۔ان تصویروں میں ملازمین کو دستانے، جوتے، چشمے، ماسک یا کسی دوسرے حفاظتی انتظامات کے بغیر نالیوں کی صفائی کرتے ہوئےدیکھا گیا ۔

کچھ تصویروں میں صفائی اہلکار کو بغیر شرٹ اور چپل -جوتے کے بغیردیکھا گیا، جس سے ان کی صحت پر پڑنے والے اثرات کو لے کر سوال اٹھے۔ ساتھ ہی پوچھاجانے لگا کہ کیا دستی صفائی قانون کے دائرے میں آتی ہے؟

فیڈریشن آف آل انڈیا میڈیکل ایسوسی ایشن کے قومی صدر ڈاکٹر اکشے ڈونگاردیو نے کہا،’یہ جلد کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، پھیپھڑوں کے انفیکشن کو بڑھا سکتا ہے، اور اگر طویل عرصے تک احتیاط کے بغیرکیا گیا تو یہ مہلک بھی ہو سکتا ہے ۔’

غور طلب ہے کہ رواں سال کے شروع میں دہلی حکومت نے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 31 مئی تک ریاست کے 23 اہم نالیوں کی سلٹ(گاد) نکال دے گی۔ وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا اور پی ڈبلیو ڈی کے وزیر پرویش ورما نے گزشتہ ماہ محکمے کے افسران سے ملاقات کی تاکہ ڈیڈ لائن  پر اس کی صفائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی وجہ سے پوری دہلی میں نالیوں کی صفائی کی جا رہی ہے۔

نومبر 2024 میں این جی ٹی نے دہلی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی کہ وہ نالیوں میں بنا صاف کیے جا رہے سیوریج کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ ٹربیونل نے تب کہا تھا کہ دہلی جل بورڈ اور دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) ‘گٹر کے پانی کو صاف پانی کی نالیوں میں بہنے کی اجازت دینے کے لیے ذمہ دار ہیں، جس سے یمنا ندی آلودہ ہوتی ہے… اور صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔’

پچھلے سال پلہ علاقے میں ایک پانچ سالہ بچی کے نالے میں ڈوبنے سے موت ہوجانےکے بعد این جی ٹی کو یہ بھی پتہ چلا تھا کہ شمالی دہلی کے قریب ایک بارش کے پانی والے نالے میں سیوریج کا بہاؤ ہو رہا تھا کیونکہ وہاں سیوریج کا کوئی نظام نہیں تھا۔

ملازمین کو حفاظتی انتظامات فراہم نہیں کیے جاتے

دی وائر نے ارجن نگر اور حوض خاص کے قریب ایک نالے کا دورہ کیا اور دیکھا کہ گندا پانی بہہ رہا تھا اور پانی کا ایک پائپ ٹوٹا ہوا تھا، جبکہ سلٹ نکالنے کا کام اس دن روک دیا گیا تھا۔

موقع پر موجود تین مختلف ذرائع نے بتایا کہ ملازمین وہاں سے جا چکے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس نالے کی صفائی  ہاتھ سے بھی ہوتی ہے اور مشین سے بھی۔

رپورٹر نے علاقے میں دو مقامات پر چار صفائی اہلکار سے ملاقات کی، جنہوں نے بتایا کہ ان کے پاس صفائی کے لیے حفاظتی انتظامات نہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کی طرف سے پوسٹ کی گئی اور بعد میں ہٹا دی گئی کم از کم 12 تصویروں میں ملازمین حفاظتی انتظامات کے بغیر دیکھے گئے۔

اتر پردیش کے کاس گنج ضلع سے تعلق رکھنے والے تین صفائی اہلکار نے دی وائر کو بتایا کہ وہ جہاں کام کرتے ہیں – جنوبی دہلی کی ایک پوش کالونی – وہاں گندا پانی بارش کے پانی کے نالوں میں نہیں ملتا، لیکن شہر کے دیگر حصوں میں ایساہوتا ہے۔

جیت کمار( 45سالہ)، جو بے گھر ہیں اور اب صفائی  کا کام کرتے ہیں، نے کہا کہ انہوں نے نالوں کی صفائی اس لیے چھوڑ دی کیونکہ یہ کام بہت خطرناک ہے اور اجرت بہت کم ہے – انہیں ایک دن کے کام کے 500 روپے ملتے ہیں، لیکن نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آپ کبھی نہیں جان سکتے کہ کب آپ کا ہاتھ کٹ جائے، زہریلی گیس اندر چلی جائے، یاآنکھوں میں کچرے کی چھینٹ پڑنے سے آپ اندھے ہو جائیں… وہاں کانچ اور دھات کے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔’

کاس گنج سے آئے مزدوروں نے جیت کمار کے اس دعوے کی تصدیق کی کہ انہیں ایک دن کے 500 روپے ملتے ہیں۔

‘دستانے، جوتے اور صاف پانی تو سب سے بنیادی ضروریات ہیں۔ ‘ جیت کمار نے کہا،۔’اگر کوئی چیز آنکھوں میں چلی جائے تو اسے فوری طور پر دھونے کے لیے صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔’

جب دی وائر نے مزدوروں سے پوچھا کہ کیا انہیں حفاظتی آلات ملتے ہیں ، تو انہوں نے شروع میں ‘ہاں ‘میں کہا، لیکن نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں ایسا کوئی سامان فراہم نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا، ‘ہمارے پاس جو واحد حفاظتی سامان  وہ  ایم سی ڈی کی ہری جیکٹ ہیں ،تاکہ عوام اور پولیس ہمیں پہچان سکے۔’

سرکار کے ایک ذرائع نے بتایا کہ صفائی کا زیادہ تر کام مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، لیکن جہاں مشینیں نہیں جا سکتیں، وہ ہاتھ سے کی جاتی ہیں۔

دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے بھی کچھ ایسا ہی کہا۔ انڈین ایکسپریس نے منگل کو ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘دیکھیے، ہر نالے کی حالت مختلف  ہوتی ہے۔ مشینیں ہر جگہ کام نہیں کرتیں اور انسان بھی ہر جگہ کام نہیں کر سکتے۔ ایسی جگہیں ہیں جہاں مشینیں نہیں پہنچ سکتیں۔ فی الحال حکومت کا مقصد تمام نالوں کو مکمل طور پر صاف کرنا ہے، اور یہ کام عدالت کی ہدایات کے مطابق پوری سنجیدگی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔’

اگرچہ تصویروں میں نظر آنے والے نالے درحقیقت اسٹارم واٹر ڈرین ہیں اور حکام کے مطابق دستی صفائی کے قانون کے تحت نہیں آتے، لیکن مزدوروں کی گواہی، کارکنوں کی آراء اور این جی ٹی کے تبصرے زیادہ پیچیدہ تصویر پیش کرتے  ہیں۔

دستی صفائی کی تعریف ایسی جگہوں پر تکنیکی ذرائع کے استعمال کے بغیر ہاتھ سے انسانی غلاظت کو صاف کرنے کے طور پر کی گئی ہے جیسے کہ گندے بیت الخلا، کھلے گڑھے یا نالے جن میں غلاظت بہتی ہے، ریلوے کی پٹریوں پر، یا کسی دوسری جگہ جو مرکزی یا ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مطلع کیا جاسکتا ہے۔

دستی صفائی کرنے والوں اور ان کی بحالی ایکٹ (مینوئل اسکیوینجرس ایکٹ)، 2013 کے مطابق، ضروری آلات اور حفاظتی انتظامات کےبغیر کسی شخص کو دستی صفائی کے لیے ملازم رکھنا غیر قانونی ہے۔ یہ قانون گٹروں اور سیپٹک ٹینکوں کی ‘خطرناک صفائی’ کی بھی تعریف کرتا ہے – یعنی انہیں بنا ضروری حفاظتی انتظامات اور آلات کے بغیر ہاتھ سے صاف کرنا۔ یہ کسی بھی شخص کو اس طرح کی صفائی کے لیے مزدوررکھنے کوغیر قانونی قرار دیتاہے۔

صفائی کرمچاری آندولن کے کنوینر بیزواڑا ولسن نے حکام کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ یہ صرف ‘بارش کے پانی کے نالے’ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکام خواہ کچھ بھی کہتے ہوں ان میں صرف گاد ہے، لیکن’اگر آپ اس کا رنگ دیکھیں تو یہ صرف گاد ہی نہیں بلکہ سیوریج بھی ہے، یہ کالا ہے، سب جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے…’

ولسن نے سوال کیا،’لوگ مر کیوں رہے ہیں؟’یہ الزام لگاتے ہوئے کہ دستی صفائی دہلی کے کئی حصوں میں موت کا باعث بن رہی ہے۔

اپوزیشن نے مذمت کی

پی ڈبلیو ڈی کی ان تصویروں پر اپوزیشن لیڈروں نے بھی سخت تنقید کی ہے۔

راشٹریہ جنتا دل کے ایم پی منوج جھا نے لکھا، ‘یہ خوفناک تصویریں ان لوگوں کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی ہیں جو ‘ڈبل/ٹرپل انجن’ والی حکومت کی شان میں ڈوبے ہوئے ہیں۔’

عام آدمی پارٹی کے سابق ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے الزام لگایا کہ ‘بی جے پی حکومت’ کی دلتوں اور غریبوں کا استحصال کرنے کی تاریخ رہی ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔’

پی ٹی آئی نے رپورٹ کیا کہ پی ڈبلیو ڈی نے ایک جونیئر انجینئر کو برخاست کر دیا، کیونکہ اس کی نگرانی میں مزدروں نے حفاظتی انتظامات کے بغیر کام کیا تھا ۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

بنگلورو: آر سی بی کے جشن کے دوران بھگدڑ میں 11 افراد ہلاک، اپوزیشن نے ریاستی حکومت کو نشانہ بنایا

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے بتایا کہ بدھ (4 جون) کو چناسوامی اسٹیڈیم کے باہر بھگدڑ میں کم از کم 11 لوگوں کی موت ہو گئی ہے اور 47 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ واقعے کی جانچ کی جائے گی۔

ایم چناسوامی اسٹیڈیم کے باہر ہجوم۔تصویر بہ شکریہ: ایکس

نئی دہلی: بنگلورو کے چناسوامی اسٹیڈیم کے باہر بدھ (4 جون) کو بھگدڑ مچنے سے کم از کم 11 افراد ہلاک اور 47 زخمی ہوگئے۔

رپورٹ کے مطابق، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے ایک پریس کانفرنس میں واقعے کے بارے میں میڈیا کو معلومات دیتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے لیے 10 لاکھ روپے معاوضہ کا اعلان کیا اور کہا کہ واقعے کی جانچ کی جائےگی۔

انہوں نے کہا کہ جانچ رپورٹ جمع کرنے کے لیے 15 دن کا وقت دیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ سدارمیا نے میڈیا کوبتایا، ‘جن لوگوں کی جان گئی ہے،ان میں زیادہ تر نوجوان ہیں، مرد اور خواتین دونوں۔ حکومت نے متاثرہ خاندانوں کو 10 لاکھ روپےمعاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ زخمی ہوئے لوگوں کا مفت علاج کیا جائے گا، پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کروانے والوں کا بھی۔ کل 47 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں باہر کے مریض بھی شامل ہیں۔’

معلوم ہو کہ منگل کو رائل چیلنجرز بنگلور(آر سی بی) نے 2025 انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کاخطاب اپنے نام کیا تھا۔ اس جیت کا جشن منانے کے لیے اسٹیڈیم کے باہر وکٹری پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں بھگدڑ مچ گئی۔

سدارمیا نے کہا کہ اسٹیڈیم میں 35000 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، لیکن جشن منانے کے لیے ‘دو سے تین لاکھ’ لوگ وہاں پہنچے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘ہمیں اتنی بڑی بھیڑ کی امید نہیں تھی۔ توقع تھی کہ ہجوم اسٹیڈیم کی گنجائش کے اندر ہوگا۔’

وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا، ‘جشن کے دوران ایسا سانحہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں اس واقعے پر شدید افسوس ہے۔’

واضح ہو کہ شائقین اسٹیڈیم کے گیٹ نمبر 3 کے قریب جمع تھے، جہاں فاتح ٹیم کے ودھانا سودھ سے شروع ہونے والی اوپن بس پریڈ کے حصے کے طور پر آئی پی ایل ٹرافی کے ساتھ پہنچنے کی توقع تھی، اور جہاں سدارمیا اور شیوکمار کی جانب سے ٹیم کو استقبالیہ دیے جانےکا پروگرام تھا۔

دی ہندو کے مطابق، لوگوں کی بڑی تعداد اور تنگ راستوں نے بھیڑ میں اور اضافہ کر دیا۔ اخبار کے مطابق، ریاستی ٹریفک پولیس بھاری بھیڑ کی وجہ سے مرکزی کاروباری ضلع کے علاقے میں گاڑیوں کی آسانی سے نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔

اس دوران، بنگلورو میٹرو میں بھی مسافروں بڑی بھیڑدیکھی گئی ۔

شیوکمار نے پہلے کہا تھا کہ اگرچہ پولیس نے اسٹیڈیم میں جمع ہونے والے ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ مشکل رہا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر بنگلورو میں ٹیم کے استقبال کے لیے اوپن بس پریڈ کو ٹریفک کی بھاری بھیڑ کی وجہ سے رد کر دیا گیا تھا۔

دی ہندو کے مطابق، صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شیوکمار نے کہا، ‘میٹرو اسٹیشنوں پر بہت زیادہ رش، ٹریفک کے مسائل اور لوگوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے، ہم نے پروگرام کو  شیڈول کے مطابق جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا… اس لیے ہم نے کھلاڑیوں کے لیے کھلی گاڑیوں کے استعمال سے گریز کیا اور سکیورٹی  کو یقینی بنانے کے لیے دس سے 15 منٹ کے اندر پروگرام کو ختم کر دیا۔’

اس سلسلے میں، آر سی بی نے بدھ کو دیر رات گئے کہا کہ اسے اس واقعے سے ‘گہرا دکھ’ ہوا ہے۔ جو کچھ ہوا اس کے بارے میں جاننے کے بعد انہوں نے اپنے شیڈول میں ‘ترمیم’ کی اور ‘مقامی حکام کی رہنمائی اور مشورے پر عمل کیا۔’

اپوزیشن نے ریاستی حکومت کو نشانہ بنایا

دریں اثنا،اپوزیشن لیڈر حکومت کی بدانتظامی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ اور جنتا دل (سیکولر) کے ایچ ڈی کمارسوامی نے کہا، ‘اس بڑے سانحہ کی بنیادی وجہ مناسب منصوبہ بندی کی کمی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں مکمل ناکامی ہے۔ کانگریس کی قیادت والی ریاستی حکومت کو اس تباہی کی پوری ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔’

بی جے پی کی کرناٹک اکائی نے بھی ریاست میں کانگریس حکومت کو نشانہ بنایا اور ایکس پرکہا کہ ‘7 لوگوں کی موت ۔ کانگریس حکومت کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے بہت سے لوگ بھگدڑ میں زندگی اور موت سے جوجھ رہے ہیں۔ بھیڑ کو کنٹرول کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ بنیادی انتظامات نہیں۔ صرف افراتفری۔’

وزیر اعظم نریندر مودی نےایکس پر اس واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا۔

ان کے دفتر نے ایکس  پر لکھا، ‘بنگلورو میں ہوا حادثہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس دکھ کی گھڑی میں میری تعزیت ان تمام لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ جو زخمی ہیں وہ جلد صحت یاب ہو جائیں۔’

لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے بھی تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایکس  پر کہا، ‘میں دکھ کی اس گھڑی میں بنگلورو کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ کرناٹک حکومت کو متاثرہ خاندانوں کو ہر ممکن مدد اور راحت فراہم کرنی چاہیے۔’

انہوں نے مزید کہا ، ‘یہ سانحہ ایک دردناک یاد دہانی ہے۔ کوئی بھی جشن انسانی زندگی سے بڑا نہیں ہے۔ عوامی تقریبات کے لیے ہر حفاظتی پروٹوکول کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور اسے سختی سے لاگو کیا جانا چاہیے – زندگی ہمیشہ پہلے آنی چاہیے۔’

Next Article

تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا

دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

Illustration: The Wire, with Canva

تقریبا تین دہائیوں تک ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا کا حصہ رہنے کے بعد اس کی تنزلی کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

حالیہ ہندوپاک کشیدگی کے دوران جھوٹی خبروں کی یلغار کرکے ہندوستانی میڈیا  نے ایسے منظرنامے کی تصویر کشی کی  جو تجارتی دباؤ، نظریاتی غلامی، اور نمائشی تماشے کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔

 معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

 صحافی ہونے کے علاوہ میں ہندوستان میں میڈیا سے متعلق کئی اداروں سے بھی وابستہ رہا ہوں۔ پارلیامنٹ کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کا ڈپٹی چیئرمین، سینٹرل پریس ایکریڈیٹیشن کمیٹی کا ممبر پریس کونسل کے ساتھ وابستگی کے علاوہ میں نے برکس میڈیا فورم میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی ہے۔

اس کے علاوہ پریس کلب آف انڈیا، پریس ایسوسی ایشن اور دہلی یونین آف جرنلسٹس کا بھی عہدیدار رہا ہوں۔ان تجربات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہندوستان میں کبھی بھی میڈیا ایک آزاد اور خود مختار ادارہ نہیں تھا، مگر آزادی کی ایک ظاہری اور موہوم شکل موجود تھی۔

میڈیا کو  جمہوریت کا چوتھاستون تو کہا جاتا ہے، مگر اس کو چلانے والے صحافیوں یا نان-صحافیوں کے نان و نفقہ کا کوئی ڈھانچہ کبھی بھی کھڑا نہیں ہو پایا ہے۔ پہلے تین ستون یعنی پارلیامنٹ، ایگزیکٹو، عوامی ٹیکس کے دم پر ایک سسٹم کے تحت چلتے ہیں  ۔ مگر میڈیا جیسے اہم شعبہ کو اشتہاری اور تجارتی اجارہ داری کے مگرمچھ کے حوالے کردیا گیا ہے۔

ہندوستان میں اس وقت ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب اخبارات شائع ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں  850 سے زائد ٹی وی نیوز چینلز ہیں۔

ہندوستان میں اشتہاری معیشت کا حجم نوسو بلین کے لگ بھگ ہے۔ یہ معیشت اس وسیع میڈیا کو سنبھال نہیں سکتی ہے۔ دیکھا جایے تو میڈیا کی آمدن کا کوئی پائیدار ماڈل موجود ہی نہیں ہے۔ اس پر طرہ کہ ٹی آر پی نظام  شفافیت سے مبرا ہے۔

ہندوستان کے ایک سابق وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری کے بقول اس خامی سے ہی سنسنی خیزی کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، جس کو مقابلہ جاتی غیرذمہ داری کا بھی نام دیا گیا ہے۔  جب پورا نظام ہی اشتہارات اور ٹی آر پی پر منحصر ہو، تو سچ کی ہی سب سے پہلے قربانی دی جائےگی۔

اس کے علاوہ ہندوستان میں میڈیا ملکیت کا پیٹرن بھی اس کا ذمہ دارہے۔ جنوبی ہندوستان کے بنگلور میں دکن ہیرالڈ گروپ کے علاوہ باقی سبھی قومی میڈیا کے ادارے ایک مخصوص طبقہ یعنی بنیا یا ویشیہ کی ملکیت ہیں۔ ان کے دیگر کاروبار ہیں ۔

 ہندوستان ٹائمز کے مالکان ہندوستان موٹرس اور کئی دیگر کمپنیاں چلاتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مالکان دالمیا گروپ آف انڈسٹریز کے بھی مالکان ہیں۔ زی نیوز، ویان اور ڈی این اے کے مالک سھاش چندرا نامی گرامی بلڈر ہونے کے ناطے ایس ایل گروپ کے مالک ہونے کے علاوہ تیس سے زائد کمپنیوں کے مالک ہیں۔

 ان کمپنیوں کے مقابلے میڈیا ادراوں سے ان کو نہایت ہی کم منافع حاصل ہوتا ہے، چند ادارے تو نقصان میں ہی چلائے جاتے ہیں۔ مگر وہ اس کو اپنی طاقت کے بطور استعمال کرکے دیگر بزنس اداروں کےلیے اکثر و بیشتر مراعات حاصل کرتے ہیں۔

میڈیا کے زوال کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہندوستانی میڈیا میں ہمیشہ ہی حکومت کے ورژن کو ہی حرف آخر تصور کیا جاتا رہا ہے۔ مگر پھر بھی کسی وقت رگ صحافت پھڑک ہی جاتی تھی۔ کرگل جنگ کے وقت مجھے یاد ہے  کہ انڈیا ٹوڈے کی ہریندر باویجا نے وہاں ناگا بریگیڈ کے کیمپ کے گیٹ پر پاکستانی سپاہیوں کے سروں کو بطور وار ٹرافی لٹکانے کی واردات کو رپورٹ کیا تھا۔

 اس کے بعد ایک عرصہ تک ان کو کرگل جانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ مگر اس کےلیے انہوں نے اپنے صحافتی اقدار کا سودا نہیں کیا۔ جبکہ اس کو رپورٹ کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی تھی۔

کم و بیش بڑی حد تک اس جنگ کی رپورٹنگ متوازن ہی تھی۔ لیکن 2014 کے بعد خوف، نظریاتی جبر، اور تجارتی دباؤ نے ادارتی آزادی کو نگل لیا ہے۔جس سے  آج کا میڈیا دراصل ‘پرفارمیٹو جرنلزم’بن گیا ہے ۔

یہاں تک کہ نیٹ فلکس جیسے عالمی پلیٹ فارم بھی اب ہندوستان میں خود کو سینسر کر رہے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا، مگر خوف اندر تک بیٹھ گیا ہے۔

 ہر سانحہ، ہر خبر، جھوٹ کے سرکس میں کھو جاتی ہے۔ یہ صحافت نہیں، ایک تماشہ سا بن گیا ہے، جس سے ہم سب کی معتبریت مجروح ہو گئی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی میڈیا کی ساکھ اس قدر متاثر ہو چکی ہے کہ  اس کا نقصان سب سے پہلے حکومت کو  ہی عالمی سطح پر اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کل جماعتی وفد جو سفارتی مشن پر مختلف ممالک کے دورہ  پرہے، کو یہ ادراک ہو رہا ہے کہ میڈیا نے ملک کی کس قدر سبکی کی ہے۔

تیواری کے مطابق، دو ہزار سات  میں  کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے میڈیا ریگولیشن کا بل لانے کی کوشش کی، مگر میڈیا ہاؤسز نے شدید مزاحمت کی۔ انہیں ریاستی کنٹرل سے نہیں بلکہ کسی بھی کنٹرول سے پرہیز تھا۔ انہوں نے سیلف ریگولیشن کی وکالت کی، جس کی آئے دن دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ جب تک  اشتہارات کے کیبل ایکٹ کی طرز پر اس سیلف ریگولیشن کو کسی قانونی دائرہ میں نہیں لایا جاتا ہے، تب تک اس کا وجود ہی بے معنی ہے۔

ہندوستانی جمہوریت ایسے میڈیا ہاؤسز بنانے میں ناکام رہی ہے جو کاروباری مفادات سے آزاد ہوں۔ یہی ہندوستانی جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

بنیے کا میڈیا آزاد معیشت اور ہندو تو نظریہ کو ضم کر چکا ہے۔ اب حکومت کو کچھ کرنے کی ضروت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے۔  صحافت کو پیشہ ورانہ بنانے کی ہر کوشش کو میڈیا گروپس نے خود ناکام بنایا ہے، کیونکہ اب وہ خود ہی صحافتی اسکول بھی چلاتے ہیں اور معیار بڑھانے میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔

اگر ایک صحافی کی ضرورت ہے، تو اس کےلیے بیس کو ایڈمیشن دیتے ہیں، تاکہ مارکیٹ میں ان کی کثرت رہنے سے مسابقت رہے اور ان کو زیادہ تنخواہیں نہ دینا پڑیں۔

پاکستان کے ساتھ حالیہ جنگ میں بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے باضابطہ کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ فوج کے سربراہ کا بھی کہنا تھا کہ اس نازک وقت میں ان کا پندرہ فی صد وقت غلط خبروں سے نمٹنے میں صرف ہوا۔

پاکستانی شہر ہندوستانی فوج کے قبضے میں آ گئے، یا اعلیٰ افسران ملک چھوڑ گئے، یہ نہ تو سرکاری بیانات تھے، نہ ہی کسی معتبر ذرائع سے تصدیق شدہ۔ یہ دعوے خود میڈیا اداروں نے گھڑے تھے۔ اور یہ زیادہ خطرناک ہے۔

جنگی جنون اور حالیہ مس انفارمیشن ایک پیٹرن کا حصہ ہے ، جس میں ، اقلیتوں کے خلاف نفرت، اور سرکاری بیانیے کی اندھی تکرار اور اس سے بھی آگے جاکر شاہ کی وفاداری میں مسابقت کرنااب  ایک معمول ہے۔

چونکہ میڈیا کے حالیہ رویہ سے ملک اور حکومت کی سب سے زیادہ سبکی ہوگئی ہے اور بین الاقوامی طور پر ہندوستان کا بیانیہ کتنا ہی سچا کیوں نہ رہا ہو، پٹ گیا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ میڈیا کے اصلاحات کا بیڑا اٹھایا جائے۔ ایک بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے یہ خطہ نے دیگر ممالک کےلے بھی مشعل راہ ہوسکتے ہیں۔

نہ صرف میڈیا کی ملکیت کے حوالے سے شفافیت ہونی چاہیے بلکہ کراس ہولڈنگ پر بھی پابندی ہو۔ جو براڈکاسٹر ہے، وہ پروڈیوسر نہ ہو۔ ایک آزاد میڈیا کونسل کی بھی اشد ضرورت ہے، جو خود مختار اور سبھی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ادارہ ہو۔ اس میں کسی ایک پارٹی کا غلبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ادارہ ہمہ وقت معیار، اشتہارات کی نگرانی کے علاوہ احتساب کا بھی کام کرے۔

کئی میڈیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دو ہزار چودہ کے بعد میڈیا نے جس طرح کی مثال قائم کی ہے، اگر وزیر اعظم مودی کی حکومت اقتدار سے باہر بھی ہو جاتی ہے، توبھی آئندہ آنے والی حکومتوں  کےلیے بھی ایک نظیرقائم کی گئی ہے۔ وہ بھی میڈیا کی اسی طرح کی تابعداری کی توقع کریں گے اور اگر کوئی ادارہ اس سے انکار کرےگا تو اس کو اسی طرح بھگتنا پڑے گا۔

 دی وائر کی ایڈیٹر سیما چشتی نے حال ہی میں معروف قانون دان کپل سبل کے ایک پروگرام میں کہا کہ سیاست دانوں نے سیکھ لیا ہے کہ میڈیا پر جتنا دباؤ ڈالو وہ اتنامطیع رہےگا۔  اب  کوئی بھی پاور میں آئےگا تو وہ جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو غلام بنانے پر پورا زور صرف کرےگا۔

اندرا گاندھی کے ذریعے ایمر جنسی لگانے کے بعد 1977 میں جب ایل کے اڈوانی وزیر اطلاعات و نشریات مقرر ہوئے، تو انہوں نے ہندوستانی میڈیا پر طعنہ کستے ہوئے کہا کہ ان کو رکوع کرنے کےلیے کہا گیا  تھا مگر وہ پیٹ کے بل لیٹ گئے۔ موجودہ میڈیا کے حوالے سے اب کیا کہا جاسکتا ہے۔ وہ لیٹنے کے عمل کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔

سبل کے مطابق یہ صرف میڈیا کا نہیں، بلکہ جمہوریت کے وجود کا مسئلہ ہے۔ جب سچ کی جگہ جھوٹ، اور احتساب کی جگہ تماشا لے گا، توملک ایک ہیجان زدہ قوم کا مسکن بن جائےگا، جو پورے خطے کےلیے خطرناک اور پریشان کن صورتحال ہے۔

ہندوستان کا میڈیا ایک باخبر عوام کے بجائے قوم کو ایک ہیجان زدہ جنونیوں کے قالب میں ڈھالتا جا رہا ہے۔دنیا بھر کے ذی ہوش اور ذی حس افراد کو اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

Next Article

ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس کو دیے 5000 کروڑ، راہل گاندھی بولے – پیسہ عوام کا، فائدہ اڈانی کا

سرکاری انشورنس کمپنی ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس کو 15 سال کے لیے 5000 کروڑ روپے کا قرض دیا ہے، جس پر ہر سال 7.75 فیصد سود ملےگا۔ راہل گاندھی نے اسے عوام کے پیسے کا استعمال کرکے ایک پرائیویٹ کمپنی کو فائدہ پہنچانے کا اقدام قرار دیا ہے۔ خبروں کے مطابق، یہ ڈیل نجی طور پر اوپن مارکیٹ سے باہر کی گئی ہے۔

راہل گاندھی۔تصویر بہ شکریہ: فیس بک

نئی دہلی: سرکاری ملکیت والی لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) نے اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون (اے پی ایس ای زیڈ) کے 5000 کروڑ روپے کے بانڈ کو مکمل طور پرسبسکرائب کر لیا ہے۔ یہ سودا 7.75فیصد کے کوپن ریٹ پر ہوا ہے۔

اس کے بارے میں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے منگل (3 جون 2025) کو حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عوام کا پیسہ نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ ایل آئی سی نے عام لوگوں سے انشورنس پریمیم کے طور پر اکٹھا کیا گیا پیسہ اڈانی گروپ میں لگایا ہے۔

انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘پیسہ، پالیسی، پریمیم آپ کا۔ سیکورٹی، سہولت، فائدہ اڈانی کا!

راہل گاندھی نے اس پوسٹ کے ساتھ بلومبرگ کی ایک رپورٹ بھی شیئر کی ، جس میں کہا گیا ہے کہ ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون لمیٹڈ کے ذریعہ جاری کردہ 5000 کروڑ روپے کے بانڈز اکیلے ہی خریدے ہیں۔ یعنی اس بانڈ کا صرف ایک خریدار تھا – ایل آئی سی۔

آسان لفظوں میں کہیں تو، اکیلے ایل آئی سی نے اڈانی کی کمپنی کو 5000 کروڑ روپے کا قرض دیا ہے، جسے 15 سال بعد واپس کرنا ہوگا اور اسے ہر سال 7.75 فیصد سود ملے گا۔

رپورٹ کے مطابق، اڈانی پورٹس اس رقم کو اپنے کاروباری اخراجات کو پورا کرنے اور پہلے لیے گئے غیر ملکی قرضوں (ڈالر کے قرضوں) کی ادائیگی کے لیے استعمال کرے گی۔

اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون لمیٹڈنے بھی گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے اب تک کی سب سے بڑی گھریلو بانڈ فروخت کے ذریعے 5000 کروڑ روپے اکٹھے کیے ہیں۔ یہ رقم ایل آئی سی سے 15 سالہ مدت کے نان کنورٹیبل ڈیبینچرز (این سی ڈی) کے ذریعے جمع کی گئی ہے۔

گزشتہ ہفتے بزنس اسٹینڈرڈ نے ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے لکھا تھا، ‘اس بانڈ ایشو میں صرف ایک بولی ایل آئی سی کی طرف سےآئی تھی اور یہ پہلے سے طے شدہ اور نجی طور پر بات چیت کے ذریعےطے شدہ ڈیل تھی۔ کوئی اور بولی نہیں آئی۔ اور چونکہ اسے اوپن مارکیٹ میں جاری نہیں کیا گیا تھا، اس لیے اس میں ‘گرین شو آپشن’ (اضافی سرمایہ کاری کا آپشن) نہیں تھا۔’

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ اگر کمپنی اسے اوپن مارکیٹ میں لاتی تو اسے اس سےبھی  زیادہ شرح سود ادا کرنا پڑتی اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے صرف ایل آئی سی سے رجوع کیا۔

‘پندرہ سال کی مدت کے بانڈ عام طور پر بینکوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دیگر انشورنس کمپنیاں یا پراویڈنٹ فنڈ کے ادارے حصہ لے سکتے تھے، لیکن اڈانی نے اس لین دین کے لیے صرف ایل آئی سی سے رجوع کیا۔’