دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ایک مسلمان کے طور پر ہمارا حق ہے کہ اگر کشمیر میں، ہندوستان میں یا کسی دوسرے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ظلم کیا جاتا ہے تو ہم کہیں گے کہ انہیں حق دینا چاہیے۔ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی کہیں گے، لیکن ہم کوئی فوجی آپریشن نہیں چلائیں گے یا کسی ملک کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔
طالبان کی حکومت میں افغانستان کی زمین کا استعمال ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دینے کےلیے کیے جانے کےخدشات کے بیچ گروپ نے کہا ہے کہ وہ کشمیر سمیت ہر کہیں مسلمانوں کےحقوق کے لیے آواز اٹھائےگا۔ حالانکہ طالبان نے کہا کہ اس کی کسی بھی ملک کے خلاف ‘فوجی آپریشن ’ کو انجام دینے کی پالیسی نہیں ہے۔
دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے جمعرات (دو ستمبر)کو ویڈیو لنک کے ذریعے بی بی سی کو دیےخصوصی انٹرویو میں کہا، ‘ہم آواز اٹھائیں گے اور کہیں گے کہ مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں، آپ کے اپنےشہری اور انہیں آپ کے قانون کے تحت یکساں حقوق ملنے چاہیے۔’
شاہین نے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ گروپ کا حق ہے کہ وہ کشمیر اور کسی بھی دوسرے ملک میں رہ رہے مسلمانوں کے لیے بالکل اسی طرح سے آواز اٹھائے، جیسے ہندوستان نے افغان ہندوؤں اور سکھوں کے مدعوں کو اٹھایا۔
رپورٹ کے مطابق،انہوں نے حوالہ دیا کہ کیسے ہندوستان نے افغانستان کے ایک مشرقی صوبے میں ایک گردوارے میں ایک طالبانی جنگجو کے جانے کا معاملہ اٹھایا تھا۔
شاہین اگست کی شروعات میں ہندوستانی میڈیا رپورٹس کا ذکر کر رہے تھے کہ نشان صاحب کو افغانستان کے پکتیاصوبے میں گرو تھلا صاحب سے ہٹا دیا گیا تھا۔
جبکہ وزارت خارجہ نے عوامی طور پر تبصرپہ نہیں کیا، سرکاری ذرائع نے اس فعل کی مذمت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً دس دن پہلےایک واقعہ رونما ہوا۔ کسی نے کہا کہ طالبان سے ایک شخص آیا تھا اور انہیں گردوارے سے مذہبی پرچم اتارنے کے لیے کہا تھا۔ حالانکہ ہم اقلیتوں کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم نے انہیں اپنےمذہب اور رسم و رواج کی مکمل آزادی دی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ٹھیک اسی طرح ہمارے پاس ڈھیرسارے پیغامات آئے۔ ایک مسلمان کے طور پر ہمارا حق ہے کہ اگر کشمیر میں، ہندوستان میں یا کسی دوسرے ملک میں،مسلمانوں کے خلاف ظلم کیا جاتا ہے تو ہم کہیں گے کہ دیکھیےیہ مسلمان آپ کے لوگ ہیں ، آپ کے شہری ہیں۔ آپ کےقانون کہتے ہیں کہ سب برابرہیں۔ اس پر عمل کرنا چاہیے اور انہیں حق دینا چاہیے۔ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی کہیں گے۔ لیکن ہم کوئی فوجی آپریشن نہیں چلائیں گے یا کسی ملک کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔’
وہیں امریکہ کے ساتھ دوحہ سمجھوتے کی شرطوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی‘کسی بھی ملک کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔’
شاہین نے کہا کہ ہم کسی بھی گروپ یاتنظیم کو کسی دوسرے ملک کے خلاف افغان کی زمین کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انٹرویو کے دوران شاہین سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا گیا کہ حقانی نیٹ ورک 2008 کے ہندوستانی سفارت خانے پر حملے کے پیچھے تھا اور طالبانی حکومت کے دوران 1999 میں آئی سی814 ایئر انڈیاطیارہ کے اغوا کی سہولت مہیا کرائی تھی۔
ان تمام معاملوں میں اپنے رول سے انکار کرتے ہوئے شاہین نے یہ بھی کہا کہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان میں کوئی فرق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حقانی کوئی گروپ نہیں ہیں۔ وہ افغانستان اسلامی امیرات کا حصہ ہے۔ وہ افغانستان اسلامی امیرات ہیں۔
شاہین نے کہا کہ 1999کےاغوامیں طالبان کاکوئی رول نہیں تھا اور اس نے حکومت ہندکو قیدیوں کو آزادکرنے میں مدد کی۔ ہندوستان کو جیش محمد کےمسعود اظہر سمیت تین دہشت گردوں کو چھوڑنا پڑا تھا۔
شاہین نے کہا کہ اغوا کے دوران طالبان کےتخلیقی رول کے لیے ہندوستان کو احسان مند ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ طالبان پاکستان کے لیے ایک پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ہمارے بارے میں ہندوستان کی پالیسی گمراہ کن پروپیگنڈےپر مبنی ہے۔
طالبان نے ہندوستان کے خدشات کو دور کرنے کے لیےعملی نظریہ اپنانے کے اشارے دیے
خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شررنگلا نے جمعہ کو کہا کہ ہندوستان اور امریکہ، افغانستان میں پاکستان کے قدموں پر قریبی نظر رکھ رہے ہیں۔
شررنگلا نے کہا کہ ہندوستان کی طالبان کے ساتھ محدود بات چیت رہی ہے، افغانستان کے نئے حکمرانوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ہندوستان کے خدشات کو دور کرنے کے لیےعملی نظریہ اپنائیں گے۔
خارجہ سکریٹری نے واشنگٹن کے اپنے سہ روزہ دورہ کے اختتام پر ہندوستانی صحافیوں کے ایک گروپ سے کہا، ‘ظاہری طور پر ہماری طرح وہ بھی قریب سے نظر رکھ رہے ہیں اور ہمیں باریکی سے پاکستان کے قدموں پر نظر رکھنی ہوگی۔’
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کس طرح کے حالات بنتے ہیں،اس تناظر میں امریکہ انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنائےگا۔ ہندوستان کی بھی یہی پالیسی ہے۔
انہوں نے کہا،‘اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کچھ نہ کرو۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو کرنا ہوگا۔ زمین پر حالات بہت نازک ہیں اور آپ کو دیکھنا ہوگا کہ یہ کیسے بدلتے ہیں۔آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ عوامی طور پرکرائی گئی یقین دہانیوں پر واقعی میں عمل ہوا یا نہیں، اور چیزیں کس طرح سے کام کر رہی ہیں۔’
خارجہ سکریٹری نے کہا، ‘ان کے ساتھ(طالبان)ہماری بات چیت بہت محدود رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری کوئی ٹھوس بات چیت ہوئی ہے۔ لیکن ابھی تک جو بھی بات چیت ہوئی ہے، اس میں کم از کم طالبان یہ اشارہ دیتا دکھائی دیا ہے کہ وہ اس سے نمٹنے میں عملی نظریہ اپنائیں گے۔’
وہ قطرمیں ہندوستان کے سفیر کی طالبان کے ایک سینئر رہنماکے ساتھ حال میں ہوئی بیٹھک کے بارے میں ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا، ‘ہم نے انہیں بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے خطے سے ہمارے یادوسرے ملکوں کے خلاف کوئی دہشت گردانہ خطرہ پیدا نہ ہو،ہم چاہتے ہیں کہ وہ خواتین ، اقلیتوں کےلیے حساس رہے۔ مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے یقین دہانی کرائی ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘15 اگست کو دیکھیے کہ ایسی حالت تھی،جس میں افغان صدر اشرف غنی اچانک ملک سے چلے گئے۔ طالبان آ گیا۔ حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ اس وقت کسی بھی چیز پر تبصرہ کرنا مشکل ہے۔’
شررنگلا نے کہا، ‘وہ ظاہری طور پر دیکھیں گے کہ افغانستان کے حالات میں الگ الگ عناصر کیا رول نبھاتے ہیں۔ پاکستان، افغانستان کا پڑوسی ہے۔ انہوں نے طالبان کی حمایت کی اور اسے تحفظ دیا۔ وہاں کئی ایسےعناصر ہیں، جن کی پاکستان حمایت کرتا ہے۔’
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ہندوستان کی صدارت کےدوران افغانستان سےمتعلق قرار داداقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں کالعدم تنظیموں بشمول جیش محمد اورلشکر طیبہ کا حوالہ دیتی ہے۔ افغانستان میں ان دو دہشت گرد گروپوں کے آسانی سے داخلے، ان کے رول کے بارے میں ہمیں تشویش ہے اور ہم احتیاط کے ساتھ اس پر نظر رکھیں گے۔ اس سیاق میں پاکستان کےرول کو دیکھنا ہوگا۔’
ایک سوال کے جواب میں خارجہ سکریٹری نے کہا کہ امریکیوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ طالبان نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے افغانی خطے کا استعمال کسی دوسرے ملک کو نقصان پہنچانے میں نہیں کرنے دیں گے۔ امریکہ نے طالبان کو واضح کر دیا ہے کہ اگر افغانستان سے کوئی بھی دہشت گردانہ سرگرمی ہوتی ہے تو وہ اسے جوابدہ ٹھہرائیں گے۔
بتا دیں کہ طالبان کے ساتھ باضابطہ تعلق نہ رکھنے کےدہائیوں پرانے اصول کو ختم کرتے ہوئے کچھ دن پہلے وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ گزشتہ31 اگست کو قطر میں ہندوستان کے سفیر دیپک متل نے طالبان کی گزارش پر دوحہ میں اس کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کی۔
انہوں نے ہندوستان کے ان خدشات کو اٹھایا تھا کہ افغانستان کی زمین کا استعمال کسی بھی طرح سے ہندوستان مخالف سرگرمیوں اور دہشت گردی کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس کے بعد وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعرات(دو ستمبر)کو ویکلی بریفنگ میں کہا تھا، ‘ہماری توجہ اس بات پر ہے کہ افغان کی زمین کا استعمال ہندوستان مخالف سرگرمیوں اور کسی بھی طرح کی دہشت گردی کے لیے نہیں ہونا چاہیےاور طالبان کو تسلیم کرنےکے امکانات کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا جلدبازی ہوگی۔’
متل کی شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں باگچی نے کہا تھا، ‘ہم نے اپنے خدشات سے واقف کروانے کے لیےاس موقع کا فائدہ اٹھایا، چاہے یہ لوگوں کو افغانستان سے نکالنے سے متعلق ہوں یادہشت گردی کے بارے میں ہو۔ ہمیں مثبت ردعمل ملا۔’
حالانکہ ابھی تک طالبان کےکسی بھی ترجمان یاگروپ نے ہندوستان کے ساتھ رابطے کی باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے، جبکہ غیر ملکی ڈپلومیٹ کے ساتھ بیٹھک کااعلان گروپ فوراً کر دیتا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)