فرانسیسی اخبار چارلی ایبڈو میں پیغمبراسلام کے متنازعہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت

11:27 PM Sep 02, 2020 | دی وائر اسٹاف

میگزین نے اپنے اداریے میں لکھا ہے،ہمیں 2015 کے بعد سے ہی پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے کو چھاپنے کے لیے مسلسل کہا جارہا تھا۔ہم ایسا کرنے سے انکار کرتے رہے اس لیے نہیں کہ اس پر کوئی ممانعت تھی، قانون ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے لیکن ایسا کرنے  کی کوئی وجہ ہونی چاہیے تھی

فائل فوٹو: رائٹرس

فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو نے اس اعلان کے ساتھ کہ ‘وہ کبھی ہار نہیں مانے گا’پیغمبر اسلام کے  ان متنازعہ خاکوں کو دوبارہ شائع کیا ہے جن کی وجہ سے 2015 میں اس پر حملہ ہوا تھا۔

ڈی ڈبلیواردو کی رپورٹ کے مطابق ،چارلی ایبڈو نے متنازعہ خاکوں کی اشاعت ایسے موقع پر کی ہے جب 2015 میں اس میگزین پر ہوئے حملے میں ملوث دو حملہ آوروں کو مبینہ طورپر اسلحے اور دیگر اسٹریٹیجک امداد فراہم کرنے والے ایک درجن سے زائد افراد کے خلاف بدھ کو مقدمہ شروع  ہو رہا ہے۔

میگزین کے تازہ شمارے میں لکھا گیاہےکہ ،’ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے، ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔’ مزید لکھا گیا ہے کہ ‘جنوری 2015 کے دہشت گردانہ حملوں کا مقدمہ اس ہفتے شروع ہونے سے قبل ان (خاکوں)کو دوبارہ شائع کرنا ضروری تھا۔‘

رپورٹ کے مطابق ،چارلی ایبڈو پرسات جنوری2015 کو حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن میں متنازعہ خاکے بنانے والا کارٹونسٹ بھی شامل تھا۔ حملہ آوروں کی مبینہ طورپر مدد کرنے والے 12مرد اور ایک خاتون کے خلاف پیرس کی ایک عدالت میں بدھ کو مقدمے کی کارروائی شروع ہورہی ہے۔ چارلی ایبڈو کا تازہ بدھ کو ہی فروخت کے لیے رکھا جائے گا۔

بتادیں کہ یہ متنازعہ خاکے سب سے پہلے 2005 میں ایک ڈینیش اخبار جے لینڈز پوسٹان میں شائع ہوئے تھے۔ ایک سال بعد انہیں چارلی ایبڈو نے شائع کیا۔ اس کی اشاعت کے بعد پوری مسلم دنیا میں شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کے مطابق ،میگزین نے اپنے اداریے میں لکھا ہے،’ہمیں 2015 کے بعد سے ہی پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے کو چھاپنے کے لیے مسلسل کہا جارہا تھا۔ہم ایسا کرنے سے انکار کرتے رہے اس لیے نہیں کہ اس پر کوئی ممانعت تھی، قانون ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے لیکن ایسا کرنے کی کوئی وجہ ہونی چاہیے تھی، ایسی وجہ جس کے کوئی معنی ہوں اور جس سے بحث میں کوئی اضافہ ہو سکے۔’

قابل ذکر ہے کہ دوبھائیوں شریف اور سعید کواچی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ انہوں نے اس حملے کو پیغمبر اسلام کی توہین کے خلاف بدلے کی کارروائی قرار دیا تھا۔ان دونوں بھائیوں نے میگزین کےدفتر میں داخل ہوکر فائرنگ کردی تھی۔ جس میں میگزین کے ایڈیٹر، چار کارٹونسٹ، دو کالم نویس، ایک کاپی ایڈیٹر اور وہاں موجود ایک مہمان ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے میں ایڈیٹر کا ایک محافظ اور ایک پولیس والا بھی مارا گیا تھا۔  فائرنگ کے بعد دونوں بھائیوں نے دفتر سے باہر نکل کر نعرہ لگا یا تھا،’ہم نے اپنے پیغمبر کا بدلہ لے لیا۔’

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ،اس واقعہ کے ایک دن بعد پیرس میں ایک اور حملے میں پانچ شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ان حملوں کے بعد فرانس میں شدت پسندی کے کئی اور حملے بھی ہوئے تھے۔رپورٹ کے مطابق ، تازہ شمارے میں شائع  خاکےمیں پیغمبر اسلام کو ایک پلے کارڈ پکڑے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پلے کارڈ پرفرانسیسی میں لکھا ہے’میں چارلی ہوں۔’  اس کے نیچے سرخی لگائی گئی ہے’سب کچھ معاف ہے۔’

اس پورے معاملے پرفرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے کہا ہے کہ وہ اظہاررائے کی آزادی کے شہریوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ پیغمبر اسلام کے خاکوں کی چارلی ایبڈو کی طرف سے دوبارہ اشاعت کے سلسلے میں وہ کوئی بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

لبنان میں اپنے دورے کے دوران میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ ہر فرانسیسی شہری کے لیے اہم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور ‘نفرت آمیز باتوں‘سے گریز کریں۔ لیکن وہ چارلی ایبڈو کی طرف سے متنازعہ خاکوں کی اشاعت پر کوئی نکتہ چینی نہیں کریں گے۔

ماکروں کا کہنا تھا کہ’کل(بدھ) سے مقدمہ شرو ع ہورہا ہے اور ایک صدر کی حیثیت سے میں اس مرحلے پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔’بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق،چودہ افراد پر اسلحہ حاصل کرنے اور حملہ آوروں کو چارلی ایبڈو اور ایک دن بعد یہودیوں کی ایک سپر مارکیٹ اور ایک پولیس افسر پر حملے کرنے میں مدد فراہم کرنے کا الزام ہے۔

ان میں تین ملزمین پر ان کی عدم موجودگی میں مقدمہ چلایا جائے گا کیونکہ ان کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ حملے کے بعد شام اور عراق چلے گئے تھے۔رپورٹ کے مطابق اس مقدمے میں دو سو کے قریب درخواست گزار اور حملے میں بچ جانے والے افراد گواہی کے لیے بلائے جائیں گے۔

یہ مقدمہ مارچ میں شروع ہونا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اس کی سماعت کو مؤخر کر دیا گیا تھا۔ توقع ہے کہ اس کی شنوائی نومبر تک جاری رہے گی۔بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ،چارلی ایبڈو ایک ہفتہ وار جریدہ ہے جس میں طنزیہ انداز میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی جاتی ہے۔ کیتھولک، یہودیت اور اسلام کے بعض پہلوؤں کا تمسخر اڑانے کی وجہ سے یہ لمبے عرصے سے تنازعات کو ہوا دیتا رہا ہے۔

لیکن پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے کے بعد سے اس کے صحافیوں اور عملے کو دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں اور 2011 میں اس پر پیٹرول بم بھی پھینکے گئے تھے۔اس کے مدیر نے خاکوں کی اشاعت کا آزادی رائے کی ایک علامت کے طور پر دفاع کیا تھا۔ انھوں نے 2012 میں امریکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ فرانس کے قوانین کے تحت رہتے ہیں نہ کہ قرآن کے قوانین کے تحت‘۔