میں ان چند بد قسمت لوگوں میں سے ہوں، جو دشمن کی گولی کا نشانہ بننے سے محفوظ رہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے جنگ سے پہلے، جنگ کے دوران میں اور جنگ کے بعد جو کچھ دیکھا، اسے یاد رکھنے کے لیے انسانی کھوپڑی میں ودیعت صلاحیتیں قطعی ناکافی ہیں۔
باقی سب کی طرح میں نے بھی پڑھ اور سن رکھا تھا کہ انسانی کھوپڑی میں اربوں نیورونز ہیں، جو انسان کو اربوں باتوں سمجھنے، یاد رکھنے اور نئی نئی باتیں تخلیق کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
جب تک میں جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا، میں اس بات کو مانتا تھا، اور اسے انسانی شرف کے حق میں بہ طور دلیل استعمال کرتا تھا ۔ لیکن جنگ سے لوٹنے کے بعد کم ازکم مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ انسانی دماغ کے اربوں خلیے صرف ایک شے تخلیق کرسکتے ہیں: جنگ، اور اس کی بربریت کی لاکھوں کروڑوں صورتیں، اور انسان کو صرف ایک شے سے محبت ہے: طاقت اور اس کے انتہائی بھیانک استعمال سے۔
جس آدمی نے ایک جنگ دیکھی ہے، اس کے بعد وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔ ویسے ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے پیاروں کی موت کو بھی کسی نہ کسی طرح فراموش کردیتے ہیں۔ میری ماں بچپن میں مر گئی تھی۔ نوجوانی میں اس کی بس کبھی کبھی یاد آتی، اور وہ بھی کسی خوش گوار لمحے کی ۔ لیکن جنگ بھلائے نہیں بھولتی۔
میں نے جنگ میں جس وحشت، جس درندگی، جس بربادی، جس ہولناکی کو دیکھا اور بھگتا ہے، اسے میں بیان کرنے سے عاجز ہوں۔ ویسے بھی میں ایک بوڑھا عاجز شخص ہوں، جسے خوف ناک خواب اور لاچار کردینے والی کھانسی کے دورے پڑتے ہیں۔
میں محاذ پر لڑا ہوں۔ میں نے بندوق اور توپ چلائی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ سے آدمی اس طرح کٹ مرتے ہیں، جس طرح کسی تیز آندھی میں درخت کی شاخیں ٹوٹتی ہیں، اور مرے ہوئے پرندوں کے پر جھڑتے ہیں۔
بندوقوں اور توپوں کی گھن گرج میں وہ چیخ تک سنائی نہیں دیتی، جو ایک زندہ وجود اپنی بقا کی آخری جدوجہد کے طور پر اور دوسروں سے مدد کی امید میں بلند کرتا ہے۔ بندوق ایک زندہ وجود سے صرف جینے کا حق ہی نہیں چھینتی، اسے ایک اچانک آ پڑنے والی آفت کا مقابلہ کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی۔
میں نے یہ بھی دیکھاہے کہ کس طرح پرندے، درخت، گھاس، اور دوسرے ذی روح بارود کی بھڑکائی آگ میں ایک جہنمی منظر پیش کرتے ہیں۔
سرحد کی دوسری طرف کا آدمی، دشمن ہوتا ہے، مگر پرندوں، درختوں، فصلوں کو برباد کرنے کی منطق کیا ہے؟ خیر، جنگ میں منطق ہوتی بھی ہے اور نہیں بھی۔
ایک لحاظ سے جنگ انسانی عقلی ومنطقی دنیا کی پر تشدد نفی ہے، اور دوسری طرف ہر جنگ کو ایک منطق، ایک بیانیہ چاہیے۔ سب سے بڑی منطق قوم پرستی ہے، اور سب سے بڑا بیانیہ سرحد وں کے تقدس کا ہے۔ سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف ایک جیسی منطق اور ایک جیسا بیانیہ ہوتا ہے۔ حالاں کہ دونوں طرف اس جارحیت کی انتہا ہوتی ہے، جسے بہ قائمی ہوش وحواس کوئی انسان شروع نہیں کرسکتا۔
جنگ یہ بتاتی ہے کہ انسان کے پاگل پن کی آخری منزل کیا ہوسکتی ہے۔ جنگ یہ بھی بتاتی ہے کہ دوسروں سے نفرت کی انتہا کیا ہے؟ جنگ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسانی دلوں میں محبت، مروت، درگزر اور ترحم کے وہ سب جذبات کس طرح اچانک دم توڑ دیتے ہیں، جنھیں پیغمبروں، فلسفیوں اور فنکاروں نے اعلیٰ ترین اقدار بنا کر پیش کیا ہے۔
جنگ یہ بھی بتاتی ہے کہ آدمی میں دیوتا ہی نہیں بستے، ایسے راکھشس بھی ہیں اور وہ دیوتاﺅں کو شکست بھی دے سکتے ہیں جنھیں موت اور بربادی کے حد درجہ وحشت انگیز مناظرسے محبت ہوتی ہے، اور یہ محبت اس جنون کی حامل ہوتی ہے کہ بستیاں، شہر، ملک بھی اجڑ جائیں تو ان راکھشسوں کا جی نہیں بھرتا!
میں اس حقیقت کا چشم دید گواہ ہوں کہ صرف راکھشس ہی جنگ لڑ سکتے ہیں، اور مابعد جنگ کے اثرات سے غافل ہوسکتے ہیں! راکھشسوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کے یہاں نہ مستقبل بینی کی صلاحیت ہوتی ہے، نہ تخیل کی۔ وہ طاقت کی جارحیت کے نشے میں سرشار ہوتے ہیں۔
میں نے کسی زمانے میں اردو کے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا ایک افسانہ’ ٹیٹوال کا کتا‘ پڑھا تھا۔ اس میں ٹیٹوال کی پہاڑی (جو ایک ایسی جگہ ہے جوپاکستان و بھارت میں اوّل روز سے جھگڑے اور ممکنہ جنگ کا باعث ہے ) پر پاکستان اور بھارت کے فوجی بندوقیں تانیں ہوئے دکھائے گئے ہیں، اور ایک کتا کہیں سے آنکلتا ہے۔
آزادی کے بعد ایک خطے کے لوگ ایک یا دوسری قوم بن گئے۔ یہ بات فوجیوں کو کسی حد تک سمجھ آتی تھی، لیکن ایک طرف کا کتا، جب دوسری طرف جائے گا تووہ کون ہوگا؟ ہندوستانی یا پاکستانی؟یہ بات ان فوجیوں کے پلے نہیں پڑتی تھی۔
منٹو کے غیر معمولی دماغ نے یہ سوال اٹھایا کہ جنگ میں کتوں کی شناخت کیا ہو گی؟ کتوں کو بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اِدھر کے ہیں یا اُدھر کے؟ خیر، منٹو کے افسانے میں کتا بے چارہ مارا جاتا ہے کیوں کہ دونوں طرف کے فوجی اسے دوسری قوم کا کتا بنانے پر تلے تھے۔
کتے کے پاس ایک سہولت ہوتی ہے کہ وہ چل سکتا ہے، بھاگ سکتا ہے، چھپ سکتا ہے، (لیکن بد قسمتی سے ٹیٹوال کا کتا اس فطری سہولت سے فائدہ نہ اٹھا سکا) لیکن درخت اور فصلیں کیا کریں ؟ جنگ جب شروع ہوتی ہے تو درختوں اور فصلوں کوبھی قومی شناخت دے دی جاتی ہے۔
جو سلوک دشمن فوجی یا دشمن قوم کے لوگوں اور شہروں سے ہوتا ہے، وہی سلوک اس کے درختوں سے ہوتا ہے۔ حالاں کہ ایک سرحد پر کھڑادرخت اپنا سایہ دونوں اطراف ڈالتاہے۔ پر جنگ میں کون سوچتا ہے؟کون سوچتا ہے کہ زمین پر جتنا حق ہماراہے اتنا ہی حق باقی مخلوقات کا بھی ہے۔
مجھے اعتراف ہے کہ جنگی محاذنے مجھ سے سوچنے کی صلاحیت بالکل چھین لی تھی۔ میں نے ایک مرتبہ سکول کے استاد سے کہا کہ میں بڑا ہو کر فوجی بننا چاہتا ہوں۔ یہ پیشہ کیسا ہے؟ استاد مسکرائے، اور کہا۔ اگر فوجی بننا ہے تو بنو، سوال نہ کرو۔ فوجی سوچتا نہیں، عمل کرتا ہے، اور اس کا عمل حکم کی تعمیل تک محدود ہوتاہے۔
بعد میں، مَیں نے دیکھا کہ حکم کی تعمیل کا یہ سلسلہ بہت دور تک اور باہر تک جاتا ہے۔ اس سلسلے کی آخری کڑی کو جب تک پکڑا نہیں جاتا، اور اس کا محاسبہ نہیں کیا جاتا، دنیا میں جنگیں جاری رہیں گی۔ میں جنگی محاذ پر سوچ نہیں سکتا تھا۔
آدمی ہوتے ہوئے جو نہ سوچے یا نہ سوچ سکے، اس کی حالت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے ؟ شاید وہی لگا سکتا ہے، جس نے محاذ پر ایک بندوق پکڑ کر اس کا گھوڑا دبایا ہو، اور سامنے بارود کے دھویں میں گوشت کی دھجیاں اڑتے دیکھی ہوں۔ اس منظر کو دیکھنے، اسے دہرانے اور اس کے نتیجے میں ایک عظیم اجر کی تمنا کرنے کے لیے ذہن کے سوچنے کا عمل بند ہی رہنا چاہیے۔
لیکن فوجی بھی ایک آدمی ہے، اورایک آدمی کب تک بغیر سوچے رہ سکتاہے؟ میں یہ گواہی دینا چاہتا ہوں کہ ایک فوجی جب محاذ سے واپس آتا ہے، اور ریٹائر ہوجاتا ہے، اور بوڑھا ہوجاتا ہے تووہ طرح طرح کے عوارض کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کئی طرح کے ڈس آرڈر کا۔
میرے چار ساتھیوں نے واپسی پر خود کشی کی۔ ان کی یادداشت وہ سب سہارنے سے عاجز ہوگئی تھی، جو کچھ انھوں نے محاذ پر کیا اور دیکھا تھا۔ جنگی محاذ سے لوٹا ہوا شخص جس احساس جرم میں مبتلا ہوتا ہے، اس کو دوسرے لوگ نہیں سمجھ سکتے۔
آدمی جرم کرے اور اسے وقتی مسرت بھی ہو تو اس کی سزا جھیلنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی، لیکن جس جرم میں آدمی کا نہ ارادہ شامل ہو، نہ کوئی مسرت، نیز دنیا کی عدالت میں وہ جرم نہ ہو، مگر آدمی کے اندر کی عدالت میں وہ جرم ہو تو آدمی جس عذاب سے گزرتا ہے، اس سے نجات خود کشی کے سوا نہیں ہوتی۔
میں بیس برس بعد آج بھی راتوں کو چیخ مارتے ہوئے اٹھ بیٹھتا ہوں۔ میرے خوابوں میں ایسے ایسے عفریت آتے ہیں، جن کا ذکر دنیا کی اساطیر میں بھی نہیں۔ شاید قدیم باشندوں نے وہ بھیانک جنگیں نہیں دیکھی تھیں جو میں نے دیکھی ہیں۔ اگر میں ان خوابوں کو لکھوں تو ہیبت ناک اساطیر کا ایک نیا مجموعہ تیار ہو، مگر میں اس لیے نہیں لکھتا کہ دنیا میں پہلے ہی بھیانک خوف کا راج ہے۔
میں جنگ نہیں روک سکا، کسی نئی جنگ کے امکان کے خاتمے کے لیے تو کچھ کر سکتا ہوں۔ کاش میری طرح قبر میں ٹانگیں لٹکائے بڈھے کھڈے آگے آئیں اور دنیا کو بتائیں کہ جنگ صرف چھینتی ہے، دیتی ویتی کچھ نہیں!
ناصر عباس نیر کا یہ کالم
بوڑھے جنگی سپاہی کی ڈائری کا ایک ورق کے عنوان سے ہم سب میں شائع ہوچکاہے۔