مرکز میں حکمراں این ڈی اے کی اتحادی پارٹی جنتا دل (متحدہ) نے شروع میں وقف ترمیمی بل کی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد سے ہی جے ڈی یو کے اندر عدم اطمینان کی بات کہی جا رہی ہے۔ اس سے قبل بی جے پی کی دیگر اتحادی جماعتوں، چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرابابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی نے بھی بل پر سوال اٹھائے تھے۔
نئی دہلی: نتیش کمار کی جنتا دل (متحدہ) حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تیسری اتحادی پارٹی بن گئی ہے، جس نے حکومت کے وقف ترمیمی بل پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔ جے ڈی یو نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) حکومت کے لیے سب سے اہم پارٹیوں میں سے ایک ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) پہلے ہی اس بل پر سوالات اٹھا چکی ہے۔ آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے بھی اسی طرح کا رخ اپنایا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ کی پارٹی مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے مجوزہ قانون میں تبدیلیاں چاہتی ہے، جو ریاست کی آبادی میں 18 فیصد ہیں، جہاں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ جے ڈی یو کی مخالفت اہم ہے کیونکہ اس نے شروع میں بل کی حمایت کی تھی۔ پارٹی کے رکن پارلیامنٹ راجیو رنجن نے اس ماہ کے شروع میں لوک سبھا میں بحث کے دوران قانون کے حق میں بات کی تھی۔
رنجن نے ترامیم کو شفافیت کے لیے انتہائی اہم اقدام قرار دیا تھا۔
تاہم، اس کے بعد سے جے ڈی یو کے اندر عدم اطمینان کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے، ریاست کے اقلیتی بہبود کے وزیر محمد زماں خان نے چیف منسٹر سے ملاقات کرکے بعض دفعات پر اعتراض کیا ہے۔ سیاسی گلیاروں میں چل رہی خبروں کے مطابق، خان واحد اختلاف کرنے والے نہیں ہیں، آبی وسائل کے وزیر وجئے کمار چودھری نے بھی مسلم کمیونٹی کے ‘خدشات’ کے بارے میں بات کی ہے۔
چودھری کو وزیر اعلیٰ کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ایم ایل اےغلام غوث جیسے دیگر جے ڈی یو لیڈروں نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
نئے قانون کی دفعات پر بڑھتے ہوئے اعتراضات کے نتیجے میں جے ڈی یو کے ورکنگ صدر سنجے جھا اور خان نے مرکزی اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو سے ملاقات کی ہے۔
ذرائع نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ کچھ علماء کی طرف سے ایک خطرناک کہانی بنائی جا رہی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ اس نظریے کا مقصد ان مسلم خواتین کو بااختیار بنانا ہے جو پرانے قانون کے تحت مظلوم تھیں۔
واضح ہو کہ اقلیتی امور کی وزارت کی طرف سے مجوزہ ترمیمی بل میں وقف ایکٹ 1995 کا نام تبدیل کر کے ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ‘ کر دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترامیم ‘قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور وقف املاک کے مینجمنٹ اور آپریشن کو بہتر بنانے’ کے لیے ضروری ہیں۔
اس کا ایک مقصد خواتین کے وراثت کے حقوق کو یقینی بنانا بھی بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ترمیمی بل کے ’مقاصد اور وجوہات‘ کے مطابق وقف کوایسا کوئی بھی شخص جائیداد عطیہ کر سکتا ہے، جو کم از کم پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہو اور متعلقہ اراضی پر مالکانہ حق رکھتا ہو۔
مجوزہ ترمیم کے تحت ایڈیشنل کمشنر سے وقف اراضی کے سروے کا اختیار واپس لے لیا گیاہے اور اب یہ ذمہ داری ضلع کلکٹر یا ڈپٹی کمشنر کو دے دی گئی ہے۔ سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی سطح پر وقف بورڈ میں دو غیر مسلم نمائندے رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نئی ترامیم کے تحت بوہرہ اور آغاخانی برادریوں کے لیے علیحدہ ‘اوقاف بورڈ’ کے قیام کی بات بھی کہی گئی ہے ۔
تاہم کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن نے ان تجاویز پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والا ایک غیر آئینی بل قرار دیا ہے۔
بالآخر وقف ترمیمی بل پر گرما گرم بحث کے بعد اسے مزید غور و خوض کے لیے جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔ بی جے پی رکن پارلیامنٹ جگدمبیکا پال کی سربراہی میں 31 رکنی کمیٹی نے جمعرات کو اپنا پہلا اجلاس منعقد کیا۔ اگلی میٹنگ 30 اگست کو ہونی ہے۔