انٹرویو: موت کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے وارانسی کے ڈوم برادری کے لوگوں پر صحافی رادھیکا اینگر نے ‘فائر آن گنگیز: لائف امنگ دی ڈیڈ ان بنارس’ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ بھی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، لیکن مشکلیں ایسی ہیں کہ ان کی زندگی اگلے پہرکی روٹی کی جدوجہد میں ہی گزر جا رہی ہے۔
رادھیکا اینگر اور ان کی کتاب۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@radziyengar)
نئی دہلی: ہندو مذہب کے عقائد کے مطابق، مرنے کے بعد آخری رسومات کے لیےآگ ڈوم ہی دیتے ہیں اور تبھی نجات ممکن ہے۔ ہندوستانی سماج کے ذات پات کے نظام میں ڈوم برادری درج فہرست ذات کے تحت آتی ہے۔ تاہم، ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ جن کے چھونے کے بعد ہی نجات کا عقیدہ ہے، انہیں بصورت دیگر ‘اچھوت’ سمجھا جاتا ہے، جہاں ان کے ہاتھ لگائے کھانے پینے تک سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ سیاست کی بات کریں، تو 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں دوسری بار وارانسی سے پرچہ نامزدگی داخل کرنے پہنچے وزیر اعظم نریندر مودی کے پروپوزر میں اس وقت کے ڈوم راجا جگدیش چودھری (اب متوفی) بھی
شامل تھے، حالانکہ اس واقعے کے بعد بھی عام ڈوم کمیونٹی کے لیے نے کچھ نہیں بدلا۔آج بھی یہ کمیونٹی حاشیے پر زندگی بسر کر رہی ہے اور بنیادی سہولیات سے کوسوں دور ہے۔ نہ ان کی کوئی سماجی شناخت ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی نمائندگی۔
زندگی اور موت کا شہر کہے جانے والے وارانسی میں دو گھاٹوں – منی کرنیکا اور ہریش چندر گھاٹ پرآخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ منی کرنیکا گھاٹ کے قریب ہی بستی میں ڈوم لوگ رہتے ہیں۔ صحافی
رادھیکا اینگر نے موت کے ساتھ زندگی بسر کرنے والی اس کمیونٹی کے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کو اپنی کتاب ‘
فائر آن گنگیز: لائف امنگ دی ڈیڈ ان بنارس‘ میں قلمبند کیا ہے۔ ان کے اس کمیونٹی اور کتاب لکھنے کے تجربے سمیت ان سے مختلف پہلوؤں پر
میناکشی تیواری کی بات چیت۔
وارانسی سے آپ کا کوئی خاص تعلق نہیں ہے، آپ کسی دوسری ریاست میں پلی بڑھی ہیں، بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے، پھر وارانسی، اس میں بھی آپ نے ڈوم کمیونٹی کو ایک موضوع کے طور پر منتخب کیا، کیا وجہ رہی؟
میں کولمبیا یونیورسٹی میں ماسٹر آف جرنلزم کی پڑھائی کر رہی تھی، جب ایک اسائنمنٹ کے طور پر ہمیں ایک تھیسس جمع کرنی تھی، جس میں ہمیں کسی ایسے موضوع کے بارے میں بتانا تھا جس پر ہم رپورٹ کرنا چاہیں گے۔ اس سلسلے میں میں نے ڈوم کمیونٹی کے بارے میں ایک مضمون پڑھا اور مجھے ان کے بارے میں مزید جاننے کا شوق پیدا ہوا—ان کی زندگی کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں…اس لیے میں نے تلاش و تحقیق شروع کر دی، لیکن اس وقت ان کے بارے میں جو بھی معلومات مجھے حاصل ہوئیں وہ بہت محدود تھیں، صرف شمشان گھاٹ پر ان کے کام کے بارے میں تھی…کہ شمشان گھاٹ پر کام کرنے کا کیا تجربہ ہوتا ہے، وہ کیسا محسوس کرتے ہیں، وہ لگاتار آگ کے قریب رہتے ہیں، کام کے لحاظ سے گھاٹ کتنی جوکھم بھری جگہ ہے، تو جسمانی طور پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟ وہ روزمرہ کے ان مسائل سے کیسے نمٹتے ہیں؟ اس کے علاوہ مجھے بچوں کے بارے میں جاننا تھا کہ کیا انہیں اچھی تعلیم مل رہی ہے، کیا اسکول انہیں کسی طرح سے تیار کر پا رہے ہیں، کیا بدلتے ہوئے ماحول، انٹرنیٹ وغیرہ کا ان پر کوئی اثر ہو رہا ہے- اور پھر کمیونٹی کی خواتین – مجھے ان کے بارے میں جاننا تھا۔ ان کی زندگی کیسی ہے، ان کے خواب کیا ہیں – کیا انہیں گھر سے باہر نکلنے اور اپنی روزی—روٹی کمانے کی آزادی ہے؟ مجھے یہ سب جاننے کا تجسس تھا، لیکن اس کے بارے میں کہیں بھی کچھ درج نہیں تھا۔ یہیں سے اس کمیونٹی کے بارے میں تحقیق کرنے کی میری خواہش پیدا ہوئی۔
پھر اس کتاب کی شروعات ہوئی، اسے لکھنے میں آٹھ سال لگے۔ میں نے اسے 2015 میں لکھنا شروع کیا تھا اور 2023 کی شروعات میں اس کو مکمل کیا۔
وارانسی کے تقریباً ہر پہلو کو اچھی طرح سے دستاویز کیا گیا ہے – گھاٹ، دکانیں، قصے—کہانیاں – یہ سیاحت سے لے کر سیاست تک کا مرکز ہے اور رہا ہے، لیکن ڈوم کمیونٹی کے بارے میں خاطر خواہ بات نہیں ہوئی ہے۔ کیا لکھنے والے لاتعلق رہے یا کوئی اشرافیہ نظر والی بات لگتی ہے؟
ڈوم کمیونٹی کے بارے میں علمی کام کیا گیا ہے لیکن یہ بھی ان کے شمشان گھاٹ پرکیے جانے والے کام تک محدود ہے، ان کی زندگی کے بارے میں بات نہیں ہوئی ہے۔ کمیونٹی کے بارے میں اس سے تعلق رکھنے والے مردوں، خواتین اور بچوں کے بارے میں تفصیل سے کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ اس لیے بھی نظر نہیں آتا کیونکہ اشرافیہ کے لوگ ان کے بارے میں جاننا بھی نہیں چاہتے۔ان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، جب تک شمشان گھاٹ پر کام کرنے کے لیے کوئی ڈوم موجود ہے، سب کچھ ٹھیک ہے۔
اور یہ ایک خاص نظر کا معاملہ تو ہے ہی کیونکہ ہم جیسے لوگوں کے لیے ان کے وجود یا عدم وجود سے لاتعلق یا غیر جانبدار رہنا آسان ہے۔ یہ درست ہے کہ آخری رسومات میں ان کا اہم کردار ہے، لیکن اس کے علاوہ کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ وہ کس طرح کی زندگی بسر کر رہے ہیں، کن حالات میں جی رہے ہیں، کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے لگتا ہے کہ اشرافیہ کے لوگ اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں، سب ویسے ہی رہنا چاہتے ہیں۔ ہم جس طرح کے معاشرے میں رہتے ہیں، اس میں فرق کی بات زیادہ ہوتی ہے – ‘ہم بنام وہ ‘ چاہے ذات پات کی بات ہو، طبقے کی بات ہو، جنس یا مذہب کی بات ہو۔
میں یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ اکیڈمیا میں جو بھی کام ہوا ہے،اس میں بھی صرف مردوں کی بات ہے، ڈوم خواتین کی نہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جو چونکا دینے والی ہیں – جیسے آپ سوچیے کہ انہیں کھانا پکانے کے لیے جو لکڑی مل رہی ہے، وہ شمشان سے جلی ہوئی لکڑیاں لے جارہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میری کتاب کے مرکزی کرداروں میں سے ایک بھولا نے مجھے بتایا تھا کہ کئی بار جب وہ شمشان گھاٹ سے ایسی لکڑیاں گھر لے جاتے تھے تو ان پر گوشت کے ٹکڑے چپکے ہوئے ہوتے تھے۔ یہ بھی سوچیے کہ یہ سب کسی بچے کی ذہنی نشو ونما پر کیا اثر ڈالتا ہوگا، اگر آپ موت کو دیکھتے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں، جلتے پگھلتے لاشوں کو دیکھ رہے ہیں ،جو کوئی دیکھنے لائق چیز نہیں ہے، تو اس کا دل ودماغ پر کا کیا اثر ہوگا! اور ڈوم بچے، جن کی عمریں پانچ سے چھ سال ہیں، جو غریب گھرانوں سے ہیں، وہ اسی ماحول میں کام کرنے کو مجبور ہیں۔ میں نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ کس طرح یہ چھوٹے بچے گھاٹ پر آنے والی لاشوں سے کفن اٹھاتے ہیں اور بہت کم پیسوں میں دکانداروں کو بیچ دیتے ہیں جو انہیں دھونے کے بعد پریس کرکے دوبارہ بیچتے ہیں۔ یہ بچے چھوٹی عمر سے ہی دن رات یہی کام کر رہے ہیں، یہ بہت گہرائی سے ان پر اثر انداز ہو رہاہے اور پھر اس پر قابو پانے کے لیے وہ چھوٹی عمر سے ہی شراب اور منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔
ان دنوں یہ بات کئی بار سننے کو ملتی ہے کہ اب کہاں بھید بھاو اور اونچ نیچ ہے، لیکن آپ نے کتاب میں بتایا ہے کہ آج بھی ڈوم برادری کی خواتین اگر غلطی سے کسی کو ہاتھ لگائیں تو انہیں ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،وہ دوسری ذات کے لوگوں کے ساتھ سڑک پرنہیں چل سکتیں…
میں بھی سنتی رہی ہوں، بہت سے لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ ملک میں ذات پات، امتیازی سلوک اور چھوا چھوت کا اب کوئی وجود نہیں ہے۔ ان کی باتیں سن کر میں سوچتی ہوں کہ یہ لوگ کس خیالی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ذات پات 21 ویں صدی میں بھی ہمارے معاشرے کی حقیقت ہے۔
میں نے اپنے تجربے میں دیکھا ہے۔ جب میں بنارس میں رپورٹنگ کر رہی تھی، تو فیلڈ ورک کے لیے چاند گھاٹ سے منی کرنیکا گھاٹ کے درمیان آنا جانا ہوتا تھا، کئی بار ڈوم برادری کے بچے بھی ساتھ آتے تھے۔ وہ ہمیشہ ایک گلی میں جانے سے گریز کرتے تھے۔ میں سمجھ نہیں پاتی تھی، ہم لمبے راستے سے جاتے تھے، وہ کہتے تھے- دیدی، وہ گلی ہمیں پسند نہیں ہے۔ بعد میں ایک دن معلوم ہوا کہ اس راستے میں ایک مندر ہے، جہاں کا پجاری ڈوم کے بچوں کو مندر کے آس پاس دیکھتے ہی بھگا دیتا ہے۔ ایک بچے کے طور پر جب آپ کو مسلسل نیچا دکھایا جائے گا، مذاق اڑایا جائے گا، اچھوت کہا جائے گا، مندر سے بھگایا جائے گا تو دماغ پر اس کاکیا اثر ہوگا؟
اسی طرح جب میں شروع میں چاند گھاٹ گئی تو میری ملاقات ایک عمر دراز جوڑے سے ہوئی، جنہوں نے نمستے کے جواب میں ہاتھ جوڑ کر اور کندھے جھکا کر جواب دیا۔ یہ میرے لیے چونکا دینے والا تجربہ تھا۔ ابھی کچھ دن پہلے خبر آئی تھی کہ ایک ‘اونچی’ ذات کے آدمی نے ایک دلت کو
اس لیے مارا تھا کہ اس نے ہاتھ جوڑ کر سلام نہیں کیا۔ تو یہ سب کچھ ان کے ذہن میں اس طرح بس چکا ہے کہ بھید بھاو تو ہونا ہی ہے۔
اور شاید یہیں سے وہ جدوجہد شروع ہوتی ہے، جہاں وہ نہیں چاہتے کہ کسی کو ان کی شناخت معلوم ہو، مثال کے طور پر بھولا اسکول اور کالج میں اس کو لے کر بہت محتاط رہتا ہے کہ کوئی نہ جانے کہ وہ کہاں سے آتا ہے…
ہاں، اور یہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ خود سے شرمندہ ہے۔ اسے ڈوم ہونے پر فخر ہے، اس کی پہچان میں بھی وقار ہے۔ لیکن ساتھ ہی اسے یہ خوف بھی ہے کہ اگر اس نے اپنے پس منظر کے بارے میں کسی کو بتایا تو وہ اس سے خود کو دور کر دیں گے، اس کا مذاق اڑائیں گے یا کسی طرح اس کا بائیکاٹ کر دیں گے، اس لیے اسے لگتا ہے کہ اسے خود کو بچانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ اپنی ذات، اپنی پہچان کو چھپاتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ اسی طرح وہ زندگی میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ ورنہ لوگ اسے آگے بڑھنے ہی نہیں دیں گے۔ اور ہندوستان کی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اگر ہم تعلیم کی بات کریں تو صرف پچھلے پانچ دس سالوں میں ہی ایسی بہت سی مثالیں ہیں – روہت ویمولا، پائل تڑوی، اوربہت سے۔ یہ تفریق ہر جگہ، ہر شعبے میں ہے۔
تو ایک طرح سے ایک چکر چل رہا ہے – ڈوم برادری کے لوگ خاص طور پر – جو مزدور ڈوم ہیں وہ غربت میں ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، نسلیں بدلتی ہیں لیکن زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے؟
میرے خیال میں اس کی دو وجوہات ہیں۔ میں آپ کو ایک قصہ سناتی ہوں – کتاب میں جن امریکی شخص کا میں نے ذکر کیا ہے، جو بھولا سمیت چار ڈوم بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھانا چاہتے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ ان بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک سرکاری ملازم سے بات کر رہے تھے، تو اس نے پلٹ کر کہا: مردہ کون جلائے گا پھر؟ یہ ملازم ان بچوں کو پڑھانے کے خلاف تھا۔
پہلی وجہ یہی ہے کہ معاشرہ خود نہیں چاہتا کہ ڈوم کے بچے اس کام کو چھوڑ کر باہر نکلیں۔ یہ بالکل دیکھی بھالی بات ہے، سب جانتے ہیں، ہر جگہ ہوتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کمیونٹی کے لوگ بھی اسی طرح سوچتے ہیں۔ جب میں نے ان میں سے بہت سے لوگوں سے بات کی، تو ان کا ماننا ہے کہ نجات صرف وہی دلا سکتے ہیں، شیو نے صرف انہیں ہی یہ وردان دیا ہے۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے کہا— بادشاہ ہو یا فقیر، آخر میں چودھری جی کے پاؤں پکڑنے ہی پڑتے ہیں۔ تو وہ جو کام کرتے ہیں ،اس میں ایک فخر، ایک قسم کے وقار کا جذبہ جڑا ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے وجود کا جواز پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ معاشرہ جو بصورت دیگر ان سے دوری رکھتا ہے، انہیں اچھوت سمجھتا ہے اور ان کی عزت نہیں کرتا۔
بات یہی ہے کہ ایک تو معاشرہ نہیں چاہتا کہ وہ زندگی میں کامیاب ہوں، جو ہم نے بھولا کے معاملے میں دیکھا۔ اس نے کالج میں اپنی شناخت چھپائی کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اگر کسی کو، یہاں تک کہ کسی استاد کو بھی اس بات کا علم ہوا تو وہ اس کے راستے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ڈال دیں گے۔ باقی ڈوم برادری یہی سمجھتی ہے کہ وہ اپنے بھگوان کا دیا ہوا فرض ادا کر رہے ہیں۔
تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈوم اسی طرح سے مطمئن ہے یا انہیں کسی سے کوئی توقع ہی نہیں ہے، وہ بس اسی طرح زندگی گزارتے آ رہے ہیں۔
وہ اسی طرح زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اگر آپ اس بستی میں رہ رہے ہیں، جہاں وہ لوگ رہتے ہیں وہاں حالات بہت مشکل ہیں۔ جیسا کہ میں نے کتاب میں بتایا ہےکہ جن بچوں کی پڑھائی شروع ہوئی وہ جب کووڈ لاک ڈاؤن میں گھر واپس آئے تو وہاں پڑھنا بہت مشکل تھا۔ ایک کمرے کا مکان ہے، جس میں آٹھ دس لوگ رہ رہے ہیں، والدین اپنے بچوں کو کسی کام کے لیے بھیج رہے ہیں- تو وہاں کے لوگوں کی زندگی میں تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ گھر والے بچوں کو اسکول سے نکال کر منی کرنیکا گھاٹ پر کام کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں کیونکہ گھر میں چولہا جلنا چاہیے۔ ترجیح پیسہ کمانا ہے کیونکہ اس سے خاندان کی کفالت ہوگی۔
وہ زندگی میں آگے بڑھنا بھی چاہتے ہیں لیکن انہیں نہیں لگتا کہ وہ کبھی ایسا کر پائیں گے۔ بھولا اکلوتاایساشخص رہا، جس نے کسی کی نہیں سنی، کسی کو اپنی ترقی کی راہ میں حائل نہ ہونے دیا۔ لیکن ہر کوئی ایسا نہیں کر سکتا۔
ڈوم خواتین کی بات کرتے ہیں۔ پورا بنارس ‘وکاس’ یعنی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے، لیکن چاند گھاٹ کی عورتیں کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں، جہاں ان کے پاس سہولیات تو چھوڑ دیجیے، بناسر ڈھانپے باہر نکلنے تک کی آزادی نہیں ہے۔
دیکھیے، یہ ایک آرتھوڈوکس کمیونٹی ہے اس لیے یہاں پدرانہ نظام تو ہے ہی ۔ اس کے علاوہ وہ ذات پات کے امتیاز، صنفی تعصب اور غربت کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی جو شدید گرمی میں بغیر بجلی کے ایک کمرے کے ایک چھوٹے سے گھر میں کھانا بنا رہی تھی۔ جب میں نے انہیں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد گھر سے باہر آنے کو کہا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتی ہیں۔ پھر کہیں باہر جانا ہو تو سر ڈھانپنا پڑے گا۔ انہیں یہ پسند نہیں ہے لیکن کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ ان کے لیے معمول بن گیا ہے۔ لیکن اب تبدیلی آ رہی ہے۔ میں نے کتاب میں بتایا ہے کہ کس طرح بھولا اپنی تین بھتیجیوں کو اس شہر لے گیا ہے جہاں وہ اب کام کر رہا ہے۔ یہ اس کمیونٹی کے لیے بڑی بات ہے جو 12-13 سال کی عمر میں اپنی بیٹیوں باہر جانے سے روک دیتی ہے،ان کی شادی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتی ہے۔ پہلی بار وہ لڑکیاں اپنے گھر کے بجائے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی ہیں، ایسی زندگی جس میں وہ خود مرکز میں ہوں، دوسرے لوگ نہیں۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
کچھ عرصے سے ذات پات سیاسی مباحثوں اور ڈسکورس کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ اس میں ڈوم کمیونٹی کو کہاں پاتی ہیں؟ سیاسی طور پر ان کی نمائندگی کرنے والا، معاشرے میں ان کی حصہ داری ، ان کی بات کرنے والا یا ان کے مقامی مسائل کو اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔
وارانسی میں بہت سی نئی چیزیں ہو رہی ہیں، کچھ لوگ اس سے ناراض ہیں، کچھ خوش ہیں، وہ ان تبدیلیوں کو قبول کر رہے ہیں کہ کچھ نیا ہو رہا ہے۔ جب آنجہانی ڈوم راجا جگدیش چودھری کو پدم شری سے نوازا گیا تو ان کے بیٹے اوم چودھری ان کی طرف سے ایوارڈ لینے گئے اور کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ ڈوم کو بھی پہچان مل رہی ہے۔ جب میں نے ایک ڈوم خاتون سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ سب بہت اچھا ہے لیکن وہ جس ‘وکاس’ کی بات کر رہے ہیں وہ ہم تک نہیں آیا ہے…
میں اسی بستی کے بارے میں بات کروں گی جہاں میں گئی ہوں اور جن سے میں نے بات کی ہے۔ بستی میں بہت سارے مسائل ہیں، جو ایسے علاقوں میں عام ہیں، پانی کی قلت، رہنے کے لیے جگہ نہیں ہے، بیت الخلاء نہیں ہے، وغیرہ۔ اسکیمیں ہیں لیکن لوگوں کو اسکیم کے بارے میں علم ہی نہیں ہے۔ اگر وہ جانتے بھی ہیں تو ان کے پاس ضروری ریکارڈ یا مکمل دستاویز نہیں ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا ان کے پاس کوئی ایسا کارکن ہے یا کوئی ہے جو ان کے مسئلے کو اٹھاتا ہے، ان کی لڑائی لڑتا ہے، تو مجھے جواب ملا کہ لوگ اپنی زندگی میں ہی اس قدر مگن ہیں کہ ان کے پاس کسی اور چیز کے لیے اکٹھا ہو کر لڑنے کا وقت نہیں ہے۔ روز کنواں کھود کر روز پانی پینے والی حالت ہے، اس لیے ان کی فکر ہمیشہ یہ رہتی ہے کہ اگلی صبح انہیں کھانا ملے گا یا نہیں۔ یہ بہت مشکل صورتحال ہے۔
کیا ڈوم راجا کا تصور ایک کمیونٹی کے طور پر لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچانے کے قابل ہے؟
نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اسی خاتون نے مجھے کہا کہ آپ ڈوم راجا کو قومی سطح پر عزت دے رہے ہیں، یہ درست ہے لیکن یہ ایک کمیونٹی کے طور پر ڈوموں کو اس سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے، جو معاشرے کے سب سے نچلے درجے پر زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ 2024 کے عام انتخابات کے بعد تبدیلی آسکتی ہے لیکن ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ان کی بستی کو گرایا جاسکتا ہے، اس لیے ان میں ایک قسم کا خوف بھی ہے۔
ہندو مذہب میں عموماً عورتیں شمشان گھاٹ نہیں جاتیں، آپ کی رپورٹنگ کے اتنے عرصے میں کیا آپ کا عورت ہونا کوئی رکاوٹ بنی؟
ہاں، بالکل، جو بھی منی کرنیکا گھاٹ گیا ہے، وہ جانتا ہے کہ وہاں زیادہ تر مرد ہیں، لکڑی بیچنے والے، سامان بیچنے والے، شو یاتری، گزرنے والے کے رشتہ دار، سبھی مرد ہی ہوتے ہیں ایسی صورت حال میں کوئی عورت ایک ہاتھ میں ڈکٹا فون، ایک ہاتھ میں نوٹ بک اور گلے میں کیمرہ لیے وہاں نظر آئے گی تو اس پر دھیان جانالازمی ہے۔ اور شروع شروع میں مجھے لگتا تھا کہ نظریں مسلسل مجھ پر جمی ہوئی ہیں۔ مجھے اس کولے کر نارمل ہونے میں کافی وقت لگا۔
جب میں نے گھاٹ پر کام کرنے والے ڈوم مردوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی نارمل نہیں تھے۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ میں باہر والی تھی، ایک آؤٹ سائیڈرجو ان کی زندگی کے بارے میں سوال و جواب کر رہی تھی۔ دوسرے یہ کہ میں ایک عورت ہوں۔ انہیں اس بات کی عادت نہیں تھی کہ کوئی عورت آکر ان سے سوال کرے۔ اس مشکل کو دور کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑی۔ میں بار بار جاتی رہی تو وہ مجھ پر بھروسہ کرنے لگے۔ (ہنستے ہوئے) لیکن پھر بھی ایک شخص تھا، جو ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ میں ایک خفیہ پولیس والی ہوں اور وہ مجھے دیکھتے ہی بھاگ جاتا تھا۔
آپ اس دنیا سے بالکل مختلف دنیا سے آتی ہیں، تو کتاب لکھتے وقت آپ نے اس بات کا کتنا خیال رکھا کہ آپ ان کے حالات، ان کے ماحول کے بارے میں فیصلہ کن نہ ہوں، اس پر کوئی بات آپ کی رائے (تبصرہ) جیسی نہ لگے۔
جیسا کہ میں نے کتاب میں بھی لکھا ہے، میں اس حقیقت سے بخوبی واقف تھی کہ میں ایک مراعات یافتہ طبقے اور ذات سے آتی ہوں اور میں نے اپنی رپورٹنگ اور تحریر میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھا ہے۔ میں نے اپنی مدیرہ سے بھی اس بارے میں بات کی تھی۔ ہمیں صحافت میں سکھایا جاتا ہے کہ کسی کی کہانی سناتے ہوئے اپنی رائے شامل نہ کریں اور میں نے اس بات کو ذہن میں رکھا۔ میں نے اپنے نقطہ نظر سے لکھا ہے، لیکن صرف اس جگہ جہاں اپنے تجربے کو شامل کرنے کی ضرورت تھی۔ میرا مقصد تھا ان کی زندگی کو قلمبند کرنا، میں نے انہیں غور سے سنا، کتنی ہی گہری تحقیق کرلی جائے، وہ تحقیق ان کے زندہ تجربے کی جگہ نہیں لے سکتی، تو میں اسی کو درج کر رہی تھی۔
بعض مقامات پر آپ کی کتاب ہمیں 2015 کی فلم ‘مسان’ کی یاد دلاتی ہے۔کتاب کے آخر میں آپ نے فلم میں ہیرو کا کردار ادا کرنے والے اداکار کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ کیا کتاب اور فلم میں کوئی تعلق ہے؟
یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ جس کے ذہن میں ڈوم سماج سے متعلق کوئی یاد ہے، وہ اسی فلم کی ہے۔ لیکن یہ ایک بہت اہم فلم ہے۔ اپنی رپورٹنگ کے دوران میں نے چاند گھاٹ کے کچھ بچوں (جن کا ذکر کتاب میں موجود ہے) کو اپنے گیسٹ ہاؤس لاکر یہ فلم دکھائی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ وہ اسے دیکھیں۔اس وقت تک انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کی برادری پر کوئی فلم بنی ہے، اس لیے وہ بہت پرجوش تھے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا تو کہا کہ فلم اچھی ہے لیکن ہماری زندگی اس سے بہت مختلف ہے۔ اس وقت ان کی عمر کم تھی لیکن اگر آپ کتاب پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آج کی تاریخ میں ان میں سے دو کی زندگی تقریباً اسی راہ پرگئی،جو فلم کے کردار دیپک کی تھی۔ اپنی تحقیق کے حصے کے طور پر میں نے اداکار وکی کوشل کا انٹرویو کیا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ شمشان گھاٹ میں کام کرنے کا ان کا تجربہ کیا تھا۔ لیکن یہ سب تحقیق کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا، اس کے علاوہ میں نے بہت سے مختلف مضامین، تحقیق وغیرہ سے معلومات اکٹھی کی تھیں۔