سال 2017 میں چیف منسٹر ہاؤسنگ اسکیم کے تحت ایک مسلم خاتون کو ہرنی میں ایک رہائشی کمپلیکس میں مکان الاٹ کیا گیا تھا۔ خاتون فی الحال اپنے خاندان کے ساتھ شہر کے دوسرے علاقے میں رہتی ہیں، لیکن کمپلیکس کے لوگوں نے ‘ممکنہ خطرے’ کا حوالہ دیتے ہوئے ضلع انتظامیہ میں شکایت درج کرائی ہے۔
نئی دہلی: گجرات میں ایک بار پھر مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ریاست کے وڈودرا میں لوگ چیف منسٹر ہاؤسنگ اسکیم کے تحت ایک ہاؤسنگ کمپلیکس میں مسلم خاتون کو گھر دیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سال 2017 میں، مکھیہ منتری آواس یوجنا کے تحت ایک مسلم خاتون کو ہرنی واقع وڈودرا میونسپل کارپوریشن (وی ایم سی) کے موٹناتھ ریزیڈنسی کوآپریٹو ہاؤسنگ سروسز سوسائٹی لمیٹڈ میں ایک مکان الاٹ کیا گیا تھا۔
اب انٹرپرینیورشپ اینڈ اسکل ڈیولپمنٹ کی وزارت کی ایک شاخ میں کام کرنے والی مسلم خاتون کے خلاف ہاؤسنگ کمپلیکس کے تمام 462 گھروں میں سے 33 گھروں نے ضلع کلکٹر اور دیگر حکام کو ایک تحریری شکایت دی ہے، جس میں ممکنہ خطرے اور شرپسندی کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ‘مسلمان’ کے وہاں رہنے پر اعتراض کیا گیا ہے۔
اپنے نابالغ بیٹے کے ساتھ رہنے والی 44 سالہ مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے احتجاج 2020 میں ہوا تھا۔ اس کے بعد ہاؤسنگ کمپلیکس کے لوگوں نے چیف منسٹر آفس (سی ایم او) کو ایک خط لکھ کر ان کے گھر کے الاٹمنٹ کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم، ہرنی پولیس اسٹیشن نے تمام متعلقہ فریقین کے بیانات درج کرنے کے بعد مقدمہ بند کر دیا تھا۔
اب اس معاملے پر تازہ ترین احتجاج 10 جون کو ہوا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ کمپلیکس میں واحد مسلم الاٹی ہیں۔
جب انڈین ایکسپریس نے اس پورے معاملے پر وڈودرا میونسپل کمشنر دلیپ رانا کی رائے جاننی چاہی تو وہ دستیاب نہیں تھے۔ دریں اثنا، ڈپٹی میونسپل کمشنر ارپت ساگر اور افورڈ ایبل ہاؤسنگ کے ایگزیکٹو انجینئر نیلیش کمار پرمار نے اس مسئلہ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
کالونی کے لوگ کیا کہتے ہیں؟
موٹناتھ ریزیڈنسی کوآپریٹو ہاؤسنگ سروسز سوسائٹی لمیٹڈ کی جانب سے میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ ‘وی ایم سی نے مارچ 2019 میں ایک اقلیت کو مکان الاٹ کیا ہے… ہمارا ماننا ہے کہ ہرنی ایک ہندو اکثریتی پرامن علاقہ ہے اور تقریباً چار کلومیٹر کے دائرے میں مسلمانوں کی کوئی بستی نہیں ہے… یہ 461 خاندانوں کی پرامن زندگی کو جہنم بنانے جیسا ہے…’
کالونی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر مسلم خاندانوں کو رہنے کی اجازت دی گئی تو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ شکایت پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک نے کہا، ‘یہ وی ایم سی کی غلطی ہے کہ انہوں نے الاٹیوں کی جانچ نہیں کی… ہم نہیں چاہتے کہ ہماری کالونی میں دیگر مذہبی اور ثقافتی پس منظر کے لوگ رہیں۔ یہ دونوں فریقین کی سہولت کے لیے ہے…’
مسلم خاتون کے قریبی پڑوسی نے بتایا کہ کالونی میں کئی خاندان گوشت خور بھی ہیں، لیکن کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی موجودگی نے مکینوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک شخص نے کہا، ‘ہمیں اپنے پڑوس میں مسلمان خاندان کے رہنے سے اچھا محسوس نہیں ہوتا… یہ صرف کھانے کی ترجیح کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ماحول کی بھی بات ہے…’
کالونی کے ایک اور رہائشی نے احتجاج کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا، ‘وہ ایک سرکاری اسکیم کی مستفید ہیں۔ انہیں قانونی دفعات کے مطابق فلیٹ الاٹ کیا گیا ہے… مکینوں کے تحفظات جائز ہو سکتے ہیں لیکن ہم لوگوں سے بات چیت کیے بغیر ہی انہیں جج کر رہے ہیں۔’
مسلم خاتون کیا کہتی ہیں؟
خاتون فی الحال اپنے والدین اور بیٹے کے ساتھ وڈودرا کے ایک دوسرے علاقے میں رہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ‘میں صرف اس احتجاج کی وجہ سے اپنی محنت سے کمائی گئی جائیدادکو بیچنا نہیں چاہتی۔ میں انتظار کروں گی… میں نے کالونی کی انتظامیہ کمیٹی سے ملاقات کے لیے بار بار کوشش کی، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ حالیہ احتجاج سے صرف دو دن پہلے، انہوں نے مجھے بقایہ دیکھ بھال کی فیس کا مطالبہ کرنے کے لیے بلایا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر وہ مجھے اس جگہ کے رہائشی ہونے کے ناطے شیئر سرٹیفکیٹ دیں تو میں فیس دینے کو تیار ہوں۔ لیکن انہوں نے مجھے سرٹیفکیٹ نہیں دیا۔ وی ایم سی نے پہلے ہی تمام رہائشیوں سے دیکھ بھال کی فیس کے طور پرایک مشت 50000 روپے لیے تھے، جو میں نے ادا کر دیا ہے۔’
گجرات میں یہ نیا نہیں ہے
گجرات میں اس طرح کا امتیازی سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2019 میں گجرات کے نرمدا ضلع میں ایک رہائشی کالونی نے اپنے رہائشیوں کو دلتوں اور مسلمانوں کو جائیداد نہ بیچنے کی ‘تجویز‘ دی تھی ۔
یہ ‘تجویز’ ناندود تعلقہ کے واڈیا گاؤں میں ایک رہائشی کالونی کے پرچے میں دیے گئے مشوروں میں سے ایک تھا۔ سوسائٹی نے بعد میں دعویٰ کیا کہ یہ نکات اس ‘ایجنڈہ لسٹ’ کا حصہ تھے جس پر ایک میٹنگ میں بات کی جانی تھی۔ پمفلٹ میں کہا گیا تھا کہ اراکین کو ‘مسلم اور ونکر (دلت) برادریوں کو جائیداد فروخت کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔’
دی وائر کی ہی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ 2014 میں وشو ہندو پریشد کے اس وقت کے رہنما پروین توگڑیا نے گجرات کے بھاوؤنگر میں ایک تقریر میں مسلمانوں پر تھوکنے اور ٹماٹر پھینکنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب مبینہ طور پر ایک مسلمان شخص کے بارے میں شکایت کی گئی کہ اس نے’ہندو علاقے’ میں جائیداد خریدی ہے۔
توگڑیا نے اپنی تقریر میں کہا تھا، ‘یہ ایک دیرینہ سازش ہے جسے مسلمان ہندوستان کے شہروں اور دیہاتوں میں انجام دے رہے ہیں۔ ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں؟ دو طریقے ہیں – ایک، ہر جگہ ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ کو لاگو کرنا، دوسرا – وکیل کے مشورہ سے گھر میں گھسنا، زبردستی قبضہ کرنا اور بجرنگ دل کابورڈ ٹانگ دینا۔ ہم بعد میں معاملے کو سنبھال سکتے ہیں۔’
ایک رپورٹ کے مطابق ‘ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ’ پہلی بار سال 1986 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے بعد، متعلقہ ‘ڈسٹربڈ ایریاز’ میں کسی بھی جائیداد کی منتقلی اسی وقت ہو سکتی ہے جب جائیداد کے خریدار اور بیچنے والے کی طرف سے دی گئی درخواست پر ضلع کلکٹر کی اجازت حاصل کی جائے۔ فی الحال یہ قانون احمد آباد، وڈودرا، سورت، ہمت نگر، گودھرا، کپڈونج اور گجرات کے بھروچ میں لاگو ہے۔
سال 2020 میں اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے گجرات اسمبلی سے منظور کردہ ‘ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ’ میں ترمیم سے متعلق ایک بل کو اپنی منظوری دی تھی۔دی کارواں نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دستاویز میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے برعکس ریاست میں اس قانون کا استعمال مسلمانوں کے ساتھ جائیداد کے لین دین کی حوصلہ شکنی کے لیے کیا جا رہا ہے، جس سے مذہبی بنیادوں پر مقامی علیحدگی پیدا ہو رہی ہے۔
سال 2020 کی ترمیم پر بحث کرتے ہوئے گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے کہا تھا ، ‘ایک ہندو کے لیے مسلمان کو جائیداد بیچنا ٹھیک نہیں ہے۔ایک مسلمان کے لیے بھی ہندو کو جائیداد بیچنا ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے یہ قاعدہ ان علاقوں میں نافذ کیا ہے جہاں فسادات ہوئے ہیں، تاکہ انہیں (مسلمانوں) بتایا جا سکے کہ انہیں اپنے ہی علاقوں میں جائیداد خریدنی چاہیے۔’