یہ واقعہ روڑکی میں پیش آیا، جہاں اتوار کو مبینہ طور پر مقامی رائٹ ونگ تنظیموں سے وابستہ لگ بھگ 200 نامعلوم افراد نے ایک چرچ میں توڑ پھوڑ کی۔ اس میں صبح کی عبادت کے لیےجمع کئی لوگ زخمی ہو گئے۔ حملہ آوروں پر خواتین سے بدسلوکی کرنے کا بھی الزام ہے۔ معاملے میں کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
اتراکھنڈ کے روڑکی میں اتوار کو مبینہ طور پر مقامی رائٹ ونگ تنظیموں سے وابستہ لگ بھگ 200نامعلوم مرد وں اور عورتوں نے ایک چرچ میں توڑ پھوڑ کی۔اس واقعہ میں صبح کی عبادت کے لیے جمع کئی لوگ زخمی ہو گئے۔
چرچ کے پادری کی بیوی پر یو سادھنا لانسے کی جانب سےدرج ایف آئی آر کے مطابق،مقامی وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)، بجرنگ دل اور بی جے پی کی یوتھ ونگ سے وابستہ 200 سےزیادہ مرد اورعورت چرچ میں داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ کرنی شروع کی۔ اس دوران چرچ جانے والے لوگوں کی پٹائی بھی کی گئی۔
صبح لگ بھگ 10 بجے لوہے کی چھڑوں سے لیس بھیڑ نے چرچ میں کرسی، میز،موسیقی کے آلات اور تصویروں کوتباہ کر دیا۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے لانسے نے بتایا کہ حملہ آوروں کے راستے میں جو بھی چیزیں آئیں، انہوں نے اسے توڑ دیا۔
لانسے نے کہا،‘وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے کےنعرے بلند کرتے ہوئےمشتعل ہجوم عمارت کی پہلی منزل پر واقع چرچ میں گھسی۔انہوں نے ہمارے رضاکاروں کو پیٹنا شروع کر دیا اورخاتون حملہ آوروں نے ہماری خواتین ساتھیوں کی پٹائی کی۔’
یہ توڑ پھوڑ لگ بھگ 40 منٹ تک چلتی رہی۔ اس دوران چرچ کے ایک رضاکارکے سر میں شدید چوٹ لگی۔ انہیں دہرادون کے سرکاری اسپتال میں بھرتی کرایا گیا، جہاں اس کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔
لانسے نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان کی بیٹی پرل سمیت وہاں موجودخواتین کو حملہ آوروں نے غلط طریقے سے چھوا۔
چرچ کے ایک دوسرے پیروکار اکشی چوہان نے تصدیق کرتے ہوئے کہا، ‘میں نے دیکھا کہ ایک عمردراز شخص پرل کو زبردستی گلے لگا رہا تھا اور پرل اس کے چنگل سےخود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب میں پرل کو بچانے گئی تو حملہ آور نے مجھ سے پوچھا کہ ہندو ہوکر میں چرچ میں کیا کر رہی ہوں۔’
حملہ آوروں نے مبینہ طور پر اکشی کو بالوں سے پکڑکر گھسیٹا اور اس کی پٹائی کی۔
ایک عینی شاہدسمت کمار نے دی وائر کو بتایا کہ حملہ آوروں نے حملے کی شروعات میں ہی چرچ کیمپس میں لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ دیا۔
کمار نے کہا، ‘خاتون حملہ آوروں نے چرچ کی خواتین پر حملہ کیا اور مردحملہ آوروں نے چرچ میں رکھی گئی میز، کرسیوں، انورٹر اور تصویروں کو توڑ دیا۔’
معاملے میں آئی پی سی کی دفعہ295،296،395،504،506 اور 427 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
دی وائر کے پاس اس ایف آئی آر کی ایک کاپی ہے، جس میں چار خواتین، رجنی گوئل، راکھی پردھان، بنتا چوہان، سیما گوئل اور دو مردوں دھیر سنگھ اور شیو پرساد تیاگی کو نامزد کیا گیا ہے۔
یہ پتہ چلا ہے کہ یہ لوگ روڑکی کے ہی رہنے والے ہیں اور لانسے نے ان لوگوں کی پہچان کر لی ہے۔
اس معاملے میں ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں کی گئی ہے اور پولیس مجرموں کا پتہ لگانے کے لیے آس پاس کے علاقوں میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کو کھنگالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس معاملے میں ہری دوار(دیہی)کےایس پی پرمندر ڈوبھال سے رابطہ نہیں ہو پایا اور روڑکی پولیس اسٹیشن نے معاملے پر خاموشی اختیارکرلی ہے۔
ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں مجرم نامزد ہیں اور پولیس کی ٹیمیں ان کا پتہ لگا رہی ہیں۔
افسر نے کہا،‘چرچ کیمپس میں بڑی تعداد میں حفاظتی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی روڑکی میں شکایت گزار کی رہائش پر بھی فورسزکو تعینات کیا گیا ہے۔’
بتا دیں کہ یہ چرچ گزشتہ35سالوں سے چل رہا ہے اور پچھلے سال کووڈ 19سے پادری ڈی آر لانسے کی موت کے بعد سے ان کی بیوی ہی دعائیہ مجالس کا اہتمام کرتی ہیں۔
کمار نے کہا،‘کووڈ 10 پروٹوکال کے بعد ہم اتوار کی دعائیہ مجلس میں صرف 12 لوگوں کو ہی شامل ہونے کی اجازت دیتے ہیں اور باقی کمیونٹی کے ممبروں کو ویڈیو کال کے ذریعے کنیکٹ کرتے ہیں۔ حملہ آوروں نے سب سے پہلے آن لائن عبادت کے لیے استعمال میں لائے جانے والے موبائل فون کو توڑ دیا۔’
انہوں نے کہا،‘حملہ آوروں کی تعدادچرچ میں موجود لوگوں سے زیادہ تھی۔ایک حملہ آور نے چرچ کا گٹار پکڑ لیا اور اسے بجانا شروع کر دیا اور پھر اس کو اپنی ساتھی کو دکھاتے ہوئے زمین پر پٹک کر توڑ دیا۔’
کمار نے کہا،‘ان غنڈوں کے پاس واضح منصوبہ تھا کہ وہ پہلے سی سی ٹی وی کیمرے کو تباہ کرنا چاہتے تھے اور پھر انہوں نے چرچ میں ہنگامہ مچانے سے پہلے ہمارےموبائل فون چھین لیے۔ چرچ پر کیا گیا حملہ منصوبہ بند تھا۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)