گزشتہ دنوں ہری دوار میں منعقدایک’دھرم سنسد’ میں شدت پسند ہندوتوا لیڈروں نے مسلمانوں کے لیےانتہائی نازیبالفظوں کااستعمال کرتے ہوئےان کا’صفایا’کرنےکی بات کہی تھی۔ابھی تک پولیس نے اس سلسلے میں نہ تو مقدمہ درج کیا ہے اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
سوامی پربودھانند گیری، سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکن پانڈے اور سوامی آننداسوروپ۔
نئی دہلی: ہری دوار کےاتراکھنڈ میں 17 سے 19 دسمبر کے درمیان ہندوتوا رہنماؤں اور شدت پسندوں کی جانب سے ایک’دھرم سنسد’کا انعقاد کیا گیاتھا، جس میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف کھلے عام ہیٹ اسپیچ دیے گئے، یہاں تک کہ ان کی نسل کشی کی بھی اپیل کی گئی۔
اس تقریب میں بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے نے بھی شرکت کی، جنہیں کچھ وقت پہلے جنتر منتر پر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کے
الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔اس متنازعہ پروگرام میں بی جے پی مہیلا مورچہ کی لیڈر ادیتا تیاگی نے بھی شرکت کی تھی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مقتدرہ پارٹی ایسے لوگوں کو شہ دے رہی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کھلے عام بیان بازی کے بعد بھی پولیس نے نہ تو مقدمہ درج کیا ہےاور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا ہے۔
اس پروگرام میں اتراکھنڈ میں دائیں بازو کی تنظیم ہندو رکشا سینا کے صدر سوامی پربودھانند گیری نے کہا،ہمیں تیاری کرنی ہوگی۔اور میں آپ کو بتاؤں گا کہ کیا کام کرناہوگا۔ یہی حل ہے اور یہی آپ کے لیے راستہ ہے۔ میانمار میں ہندوؤں کو بھگا یا گیا۔ لیڈر، حکومت اور پولیس بس کھڑے دیکھ رہے تھے۔ ان کا گلا کاٹ کر انہیں مارنا شروع کر دیا اور اتناہی نہیں، وہ انہیں سڑکوں پر کاٹ کر کھانے لگے۔ دیکھنے والوں نے سوچا ہوگا کہ ہم مرنے والے ہیں، ہم زندہ نہیں رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا،یہ اب ہمارا ملک ہے۔ آپ نے یہ دہلی کی سرحد پر دیکھا ہے، انہوں نے ہندوؤں کو مار ڈالااور انہیں لٹکادیا۔اب اور وقت نہیں ہے،حل یہی ہے کہ یا تو اب تم ابھی مرنے کی تیاری کرو، یا مارنے کے لیے تیارہو جاؤ ،اور کوئی راستہ نہیں ہے۔اس لیےمیانمار کی طرح، یہاں کی پولیس،یہاں کے لیڈر، فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھاناچاہیے اور ہمیں یہ صفائی مہم چلانی ہوگی۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
بی جے پی کے ساتھ پربودھانند کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے اس طرح کی انتہائی نفرت انگیز بیان بازی کافی تشویشناک ہے۔ کم از کم دو مواقع پر پربودھانند نے
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ پربودھانند۔ (بہ شکریہ: فیس بک)
صرف آدتیہ ناتھ ہی نہیں، پربودھانند کی تصویر ہری دوار کے سابق بی جے پی لیڈر نریش شرما کے ساتھ بھی ہے، جو بعد میں
عام آدمی پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ 12 اگست 2021 کو اتراکھنڈ کے ہائر ایجوکیشن کےوزیراور بی جے پی رکن دھن سنگھ راوت کے ساتھ بھی انہوں نےتصویر کھنچوائی تھی۔ جون 2021 میں انہوں نے اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ اور
بی جے پی رہنما تیرتھ سنگھ راوت کو تلوار دیتے ہوئے ایک فوٹو کھنچوائی تھی۔
پربودھانند تیرتھ سنگھ راوت کے ساتھ۔ (بہ شکریہ: فیس بک)
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پربودھانند نے کوئی مسلمان مخالف تبصرہ کیا ہو۔ سال 2017 میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوؤں کوآٹھ بچے پیدا کرناچاہیے، تاکہ وہ اپنے سماج کو بچا سکیں۔ اس کے بعد سال 2018 میں شاملی میں انہوں نے کہا تھا کہ
صرف مسلمان ہندو خواتین کا ریپ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے نام نہاد’لو جہاد’کے بارے میں متنازعہ تبصرہ کیا تھا۔
اس سال جون میں منظر عام پر آئے
ایک ویڈیو میں انہوں نے ہندوتوا کے شدت پسند لیڈریتی نرسمہانند سرسوتی کے ساتھ نسل کشی کے بارے میں بھی بیان دیے تھے۔
اس ویڈیو میں وہ کہتے ہیں، پوری دنیا میں اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسانیت زندہ رہے تو ہمیں ان جہادیوں کو صاف کرنا ہوگا۔ جہادیوں کا علاج کیا جانا چاہیے۔ کچھ دن پہلے کسی نے کہا کہ اسلام میں ریپسٹ پیدا ہوتے ہیں، جہادی پیدا ہوتے ہیں- میں یہ بات کافی عرصے سے کہہ رہا ہوں، ہر اسلامی گھر میں ایک جہادی اور ایک دہشت گرد ہوتا ہے۔ ہندو سماج کو کھڑے ہو نے اور اس کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ جہادی ہندوؤں کا علاج ڈھونڈلیں گے اور ہمارے پاس اس سر زمین پر رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
§
ہری دوار میں حال ہی میں ہوئے دھرم سنسد میں نرنجنی اکھاڑہ کے مہامنڈلیشور اور ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکن پانڈے نے بھی ہتھیار اٹھانے اور نسل کشی کی اپیل کی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کا قتل عام کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا، ہتھیاروں کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ اگر آپ ان کی آبادی کوختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مار دو۔ مارنے کے لیے تیار ہو جاؤ اور جیل جانے کے لیے تیار رہو۔ اگر ہم میں سے 100لوگ بھی20 لاکھ (مسلمانوں)کو مارنے کے لیے تیار ہو جائیں تو ہم جیت جائیں گے اور جیل جائیں گے۔ میں[ناتھورام]گوڈسے کی طرح بدنام ہونے کے لیے تیار ہوں، لیکن میں ہندوتوا کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھاؤں گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا، آج خواتین کو ایک ہاتھ میں بیلن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لینے کی ضرورت ہے۔ میں اپنی ماؤں سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں کی کمزوری نہ بنیں بلکہ ان کی طاقت بنیں۔ ان سے کہیں کہ اگر کہیں غلط ہو رہا ہے تو میں تمہارے ساتھ ان کو کاٹنے کے لیےآؤں گی۔ کوئی کیس نہیں ہوگا لیکن چند دنوں کے لیے بس ہلکی سی تکلیف ہوگی۔ ہمیں بلاؤ، ہم تمہارے ساتھ رہیں گے۔
سال 2019 میں مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی تعریف کرنے والی بی جے پی رکن پارلیامنٹ سادھوی پرگیہ کے حوالے سےوزیر اعظم نریندر مودی کی تنقید پر، سادھوی اناپورنا نے کہا کہ سیکولر آئین کی وجہ سے مودی کو سمجھوتہ کرنا پڑا تھا۔
حالاں کہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ،’مودی اور مودی جیسے لوگوں’نے قبل میں بتایاہے کہ گوڈسے اور گاندھی کیا تھے۔ پانڈے ہندو مہاسبھا کی ایک سرکردہ رہنما ہیں اور اکثر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے لیے سرخیوں میں رہتی ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے مودی کے خلاف اپنے تبصروں کے لیےسرخیاں بٹوری تھیں، جب انہوں نے اعلان کیا کہ مرکزی حکومت دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کے ایک سال سے جاری احتجاج کے مدنظرزرعی قوانین کو منسوخ کر دے گی۔
پانڈے نے ہندو مہاسبھا کے علی گڑھ دفتر سے مودی کی تصویرکو ہٹا دیا تھا اور کہا تھا کہ ،جس کی ایک بات نہیں ہوتی اس کا ایک باپ نہیں ہوتا۔
§
ایک تیسرے مذہبی رہنما، سوامی آننداسوروپ، جن کی نفرت انگیز تقاریر اور تشدد پر اکسانے کے بارے میں پہلے بھی
دی وائر نے رپورٹ کیا ہے، کو بھی دھرم سنسد کے قتل عام کے بارے میں بیانات دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا، اس دھرم سنسد کا فیصلہ بھگوان کافیصلہ ہو گا اور حکومت کو اس کو سننا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم ایک ایسی جنگ چھیڑیں گے جو 1857 کی بغاوت سے بھی خوفناک ہو گی۔
انہوں نے ذاتی مثالوں کی روشنی میں سمجھایا کہ ہندوؤں کو مسلم ریہڑی پٹری والوں کے ساتھ کے کیسا سلوک کرنا چاہیے۔
آنندسوروپ نے کہا،میں جس گلی میں رہتا ہوں وہاں ہر صبح مجھےبڑی داڑھی والاایک ملا دکھائی دیتا تھا اور آجکل وہ زعفرانی داڑھی رکھتے ہیں۔ یہ ہری دوار ہے جناب۔ یہاں کوئی مسلمان خریدار نہیں ہے اس لیے اسے باہر پھینک دو۔
سوامی آنندسوروپ نے پہلے بھی اتراکھنڈ میں نام نہاد ‘لینڈ جہاد’کے خلاف بی جے پی کے ایم ایل اے اجیندر اجے کی مہم کی حمایت کی تھی۔اس سال کے شروع میں انہوں نے غیر ہندوؤں کے اتراکھنڈ میں داخلے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔
جب دی وائر نے بی جے پی کے ایم ایل اے اجیندر اجے سے پوچھا کہ کیا وہ آنند سوروپ کے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ اتراکھنڈ میں غیر ہندوؤں کے زمین کے مالک ہونے کے اختیار پر پابندی لگائی جانی چاہیےتو انھوں نے کہا، میں بہت حد تک اس سے متفق ہوں۔اس کی دو وجہ ہے۔ پہلا، یہ قومی سلامتی کا سوال ہے کیونکہ ہم ایک سرحدی ریاست ہیں۔ دوسرا، اتراکھنڈ ہندوؤں کے لیے مقدس ہے اور وہاں ہندوؤں کے لیے خاص مقدس مقامات کیوں نہیں ہوسکتے؟
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)