اتراکھنڈ: ہری دوار کانوڑ رُوٹ پر واقع مسجد اور مزار پر پردہ ڈالا گیا، اعتراض کے بعد ہٹایا گیا

ہری دوار شہر کے جوالاپور میں کانوڑ یاترا کے راستے پر واقع دو مساجد اور ایک مزار کو بڑی-بڑی چادروں سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ کابینہ وزیر ستپال مہاراج نے کہا کہ یہ امن وامان برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا۔ وہیں، انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پردہ لگانے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔

ہری دوار شہر کے جوالاپور میں کانوڑ یاترا کے راستے پر واقع دو مساجد اور ایک مزار کو بڑی-بڑی چادروں سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ کابینہ وزیر ستپال مہاراج نے کہا کہ یہ امن وامان  برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا۔ وہیں، انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پردہ لگانے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔

 (ویڈیو اسکرین گریب: ایکس)

(ویڈیو اسکرین گریب: ایکس)

نئی دہلی: اتراکھنڈ کے ہری دوار شہر میں کانوڑیاترا کے راستے پر واقع  دو مساجد اور ایک مزار کو جمعہ کو ‘پریشانی سے بچنے’ کے لیے سفید کپڑے کی بڑی چادروں سے ڈھانپ دیا گیا۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،تاہم، مختلف جماعتوں کے اعتراضات کے بعد شام کو یہ پردے ہٹا لیے گئے۔

جوالاپور کے علاقے میں مساجد اور مزار کے سامنے بانس کے سہارے پردے کے طور پر سفید چادریں لٹکائی گئی تھیں۔ ایک مسجد کے مولانا اور مزار کے نگراں کا کہنا ہے کہ انہیں اس سلسلے میں انتظامیہ کے کسی  حکم کی جانکاری نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کانوڑیاترا کے دوران اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔

اس دوران کابینہ وزیر ستپال مہاراج نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کیا گیاتھا۔

انہوں نے کہا، ‘ایسا کوئی بھی کام صرف پریشانی سے بچنےکے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ ہم زیر تعمیر عمارتوں کو بھی ڈھانپ دیتے ہیں۔‘

مقامی لوگوں اور رہنماؤں کے اعتراضات کے بعد ضلع انتظامیہ نے شام تک چادریں ہٹا لیں۔

یاترا کے مینجمنٹ کے لیے خصوصی پولیس افسر (ایس پی او) کے طور پر تعینات کیے گئے دانش علی نے کہا، ‘ہمیں ریلوے پولیس چوکی سے پردے ہٹانے کے احکامات ملے تھے۔ اس لیے ہم انہیں ہٹانے آئے ہیں۔‘

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے کہا کہ جو ہوا وہ غلطی تھی۔ انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے چادرلگانے کا کوئی حکم جاری نہیں کیاتھا۔

ہری دوار کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (سٹی) سوتنتر کمار نے اخبار کو بتایا کہ ایسا کرنے کا کوئی حکم نہیں تھا – نہ ہی ضلع انتظامیہ کی طرف سے اور نہ ہی پولیس کی طرف سے۔

اعتراض

وہیں، کانگریس لیڈر اور سابق وزیر نعیم قریشی نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔

انہوں نے کہا، ‘ہم مسلمان ہمیشہ کانوڑ میلے میں شیو بھکتوں کا خیرمقدم کرتے ہیں اور مختلف جگہوں پر ان کے لیے ناشتے پانی کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ ہری دوار میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی کی ایک مثال ہے اور یہاں پردے لگانے کی روایت کبھی نہیں رہی۔‘

قریشی نے کہا کہ کانوڑ میلہ شروع ہونے سے پہلے انتظامیہ نے ایک میٹنگ کی تھی اور ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے ممبران کو ایس پی او بنایا گیا تھا۔

ایک مزار کے نگراں شکیل احمد نے بتایا کہ مزارڈھانپنے  کے بارے میں کسی نے مزار کے ذمہ داران سےبات نہیں کی۔ کانوڑیے اکثر مسجدوں اور مزار کے باہر درختوں کے سائے میں رک کر آرام کرتے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔

کانگریس لیڈر اور سابق ضلع پنچایت صدر راؤ آفاق علی نے کہا کہ مساجد اور مزاروں کو ڈھانپنے کا انتظامیہ کا فیصلہ حیران کن ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کچھ کانوڑیے مساجد میں ماتھا ٹیکنے بھی جاتے ہیں۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر مذہب اور ذات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ آج مساجد ڈھانپ  رہے ہیں، کل مندروں کو بھی اسی طرح ڈھانپ دیا جائے تو کیا ہوگا؟‘

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اتراکھنڈ کانگریس کے نائب صدر سوریہ کانت دھسمانا نے کہا، ‘ہری دوار ضلع میں کانوڑیاترا کے راستے پر واقع مساجد اور مزاروں  پر پردے لگانے کا حکم، چاہے کسی نے بھی جاری کیا ہو، سپریم کورٹ کے اس حکم کے خلاف ہےجس نے راستے میں آنے والے ہوٹل اور ریستوراں کے مالکان اورمیوہ فروشوں سے اپنا نام، ذات اور مذہبی شناخت ظاہر کرنے والے حکم پر پابندی لگا دی ہے۔‘

معلوم ہو کہ سپریم کورٹ نے جمعہ (26 جولائی) کو کانوڑ یاترا کے راستے پر واقع ریستوراں کو جاری کردہ پولیس ہدایات پر عبوری روک میں توسیع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی دکاندار کو دکان کے باہر اپنا نام لکھنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

بتا دیں کہ گزشتہ ہفتے   اتر پردیش کی مظفر نگر پولیس اور اتراکھنڈ کی ہری دوار پولیس نے کانوڑ یاترا کے راستے پر واقع ریستوراں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے مالکان کے نام دکانوں کے باہر آویزاں کریں، جس پر22 جولائی کو سپریم کورٹ نے پابندی لگا دی تھی ۔ جمعہ (26 جولائی) کو سپریم کورٹ نے اس پابندی کو برقرار رکھا ۔

یوپی اور اتراکھنڈ  میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ان احکامات کی مخالفت نہ صرف اپوزیشن جماعتوں نے کی بلکہ بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی مرکزی حکومت کے اتحادیوں نے بھی کی  ۔