پولیس کے مطابق، نابالغ کے والد نے اپنی شکایت میں الزام لگایا ہے کہ نندہ نگر کے ایک سیلون میں کام کرنے والے مسلم نوجوان نے ان کی 14 سالہ بیٹی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ اس معاملے میں پاکسو ایکٹ سمیت متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
چمولی میں پولیس کی موجودگی میں بند دکانوں کے شٹر توڑنے کی کوشش کر تے ہوئے مظاہرین۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@HateDetectors کے ویڈیو سے اسکرین شاٹ)
نئی دہلی: اتراکھنڈ کے چمولی ضلع کے نندہ نگر علاقے میں اتوار (1 ستمبر) کو نابالغ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا واقعہ سامنے آنے کے بعد مشتعل ہجوم نے مسلمانوں کی تقریباًآدھا درجن دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، لوگوں کا الزام ہے کہ مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ شخص نے علاقے میں ایک نابالغ لڑکی کو فحش اشارے کیے تھے ،جس پر لوگوں نے غصے میں آکر ان کی دکانوں کو نشانہ بنایا۔
اس معاملے کی بابت سینئر پولیس افسران نے بتایا کہ تشدد کے بعد علاقے میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے اور اب حالات قابو میں ہیں۔
پولیس کے مطابق، نابالغ کے والد نے سنیچر(31 اگست) کو نند پریاگ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ نندہ نگر کے ایک سیلون میں کام کرنے والے عارف خان نے 22 اگست کو ان کی نابالغ بیٹی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔
چمولی کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سرویش پنوار نے اخبار کو بتایا،’ہمیں شکایت موصول ہوئی تھی کہ ملزم نے شکایت کنندہ کی 14 سالہ بیٹی کے سامنے خود کو برہنہ کیا ۔ اس معاملے میں، ہم نے پاکسو ایکٹ سمیت متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ ملزم فرار ہے اور ہم اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
پنوار نے مزید کہا کہ اتوار کو بازار میں بچی سے چھیڑ چھاڑ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ایک بھیڑ جمع ہوگئی، جلوس نکالا گیا اور اس دوران بھیڑ نے پانچ چھ دکانوں سے سامان پھینک دیا اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ یہ تمام دکانیں مسلمانوں کی تھیں۔
اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے
وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ خواتین کی عزت اور احترام ہمیشہ اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ کسی بھی خاتون یا بیٹی کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ سی ایم نے کہا کہ قانون مجرم کو سزا دے گا، دیو بھومی میں ایسے واقعات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق، اتوار کو ہی ایک اور نابالغ سے چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں ملزم بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما بھگوت بوہرا کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ بی جے پی نے انہیں پارٹی سے نکال دیا ہے۔
اس سے پہلے سنیچر کو بھی لال کنواں کے بی جے پی لیڈر اور نینی تال دودھ یونین کے صدر مکیش بورا پر یک خاتون نےجنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔
اپوزیشن نے ان معاملات پر حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے اپنے لیڈروں کو خواتین کے خلاف جرائم کرنے کا ‘لائسنس’ دے رکھا ہے کیونکہ انہیں حکومت کی طرف سے تحفظ حاصل ہے۔
پارٹی کی ترجمان گریما دسونی نے کہا، ‘انہوں نے بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دیا، لیکن سچ یہ ہے کہ ہم سب کو اپنی بیٹیوں کو بی جے پی سے ہی بچانا ہے۔‘