اسمبلی انتخاب سےمحض چندہ ماہ قبل وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مجوزہ آبادی قانون کو ضروری بتاتے ہوئے کہا کہ بڑھتی آبادی صوبے کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ لیکن کیایہ رکاوٹ اچانک رونما ہوئی ہے ؟ اگر نہیں، تو اس کو لےکراس وقت مناسب ا قدامات کیوں نہیں کیے گئے، جب ان کی حکومت کے پاس اس کو آگے بڑھانے کا وقت تھا؟
اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ (فوٹو : پی ٹی آئی)
ہمارےملک میں بیشتر منتخب حکومتیں،خواہ وہ صوبوں کی ہوں یا مرکز کی،کس طرح چار سال کمبھ کرن کی نیند سوتی ہیں،اورپکڑے جانے پر اپنے مینڈیٹ کی من مانی تشریحات کےراستے نئے ہلچل پیدا کرتی ہیں، پانچویں سال میں ہڑبڑاکر جاگتی ہیں اور عوام کو دکھانے لائق بنانے کےپھیر میں اپنے چہروں پرمختلف طریقوں سے رنگ وروغن کرتی ہیں۔ان دنوں کسی کویہ سب دیکھنا ہو تو اس کو اتر پردیش آنا چاہیے۔
وبا کےشدید بحران کی ساعت میں اکیلا چھوڑکرشہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ، استحصال اوران کونظرانداز کرنے کے بیچ چار سال گزار دینے والی اس صوبے کی بی جے پی کی یوگی آدتیہ ناتھ سرکار کو اب کچھ ہی مہینوں بعد رائے دہندگان کا سامنا کرنا ہے تو وہ ان کےجذبات کو سہلانے اور بدعنوانیوں کو بھنانے کا ایسا کوئی قدم اٹھا نہیں رکھ رہی، جس سے وہ پولنگ مراکز تک جاتے جاتے جذبات کی رومیں اتنی دور بہہ جائیں کہ نہ یہ پوچھ پائیں کہ حضوریہ قدم اتنے ہی ضروری تھے تو چار سال پہلے ہی کیوں نہیں اٹھا لیے ، نہ یہ یاد رکھ پائیں کہ پچھلے چار سالوں میں ان پرکیابیتی۔
اس کی کم سے کم دو مثالیں ابھی بالکل تازہ ہیں۔ پہلی؛ گزشتہ29 جون کو صدر رام ناتھ کووند کے ہاتھوں راجدھانی لکھنؤ کے عیش باغ میں ڈاکٹر بھیم راؤامبیڈکر کے میموریل اورکلچرل سینٹر کا سنگ بنیاد، جس میں ڈاکٹرامبیڈکر کا25 فٹ اونچامجسمہ، 750 لوگوں کی گنجائش والا آڈیٹوریم، لائبریری،ریسرچ سینٹر،فوٹو گیلری،میوزیم،کنونشن سینٹر، کیفےٹیریا، ہاسٹل اور دیگر سہولیات ہوں گی۔
دوسری؛ ریاستی قانون کمیشن کامجوزہ
آبادی قانون کا مسودہ بنانا، اس پر عوام کی رائے طلب کرنا اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ہاتھوں نئی آبادی پالیسی جاری کرنے کے بعد‘ہم دو، ہمارے دو’پر زور دینا۔
مسودے میں مجوزہ قانون لاگو ہوا تو سرکاری اسکیموں،سہولیات، پروموشن اوررعایت کا فائدہ صرف دو بچوں والے لوگوں کو ملے گا۔ دو سے زیادہ بچوں کے والدین ان کے فائدوں سے تو محروم ہوں گے ہی، سرکاری نوکریاں بھی نہیں پائیں گے، نہ مقامی بلدیاتی انتخابات ہی لڑ سکیں گے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ کہتے ہوئے مجوزہ قانون اور پالیسی کو ضروری بتایا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی صوبے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ لیکن انہوں نے اس سے وابستہ کئی تکلیف دہ سوالوں کا جواب دینا گوارہ نہیں کیا ہے۔ مثلاً، کیایہ رکاوٹ ابھی اچانک آ کھڑی ہوئی ہے؟ اگر نہیں تو اس کو لےکر تب مناسب قدم کیوں نہیں اٹھائے گئے، جب ان کی سرکار کے پاس اسے آگے بڑھانے کا وقت تھا؟
آبادی کنٹرول کی پالیسی اور قانون کی یاد اب کیوں آئی ہے، جب فی الحال ریاستی سرکار کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچا ہے کہ وہ اسے منزل تک پہنچا سکے؟ ایسے میں کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ وہ اسمبلی انتخاب تک اس کو ٹال دیتی اور نئی سرکار کو اس بابت فیصلہ کرنے دیتی؟
پھر جب تک دو سے زیادہ بچوں کےوالدین کے پارلیامنٹ وقانون سازاسمبلی کےانتخابات لڑنے کا راستہ کھلا ہوا ہے، انہیں مقامی بلدیاتی انتخاب لڑنے سے روکنے سے کیا حاصل ہوگا؟ مجوزہ قانون بنا تو کس تاریخ سے لاگو ہوگا؟ اگر بننے کی تاریخ سے تو اس کا اثر لمبے وقت کی مانگ کرےگا اور پہلےکی کسی تاریخ سے تو اس کا تعین کیسے کیا جائےگا؟
کیا ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے میموریل اورکلچرل سینٹر کے سنگ بنیاد کی ہی طرح، جس کی تعمیر نئی سرکار کی مدت کارمیں ہی ممکن ہے،آبادی کنٹرول پالیسی و قانون کے خیال کو آگے کرنے کا مقصد بھی اس سرکار کے ناقص کورونا مینجمنٹ، نظم ونسق و سماجی ہم آہنگی جیسےمحاذ پر ناکامی،داخلی عدم اطمینان سے پیدا ہوئے بحران اور دوسرے بڑے مسائل سے توجہ ہٹاکر انتخابی فائدہ اٹھانا بھر نہیں ہے؟
اپوزیشن جماعتیں بلاوجہ تو نہیں کہہ رہی ہیں کہ بڑھتی عدم مقبولیت کی وجہ سے اس کے پاس اسمبلی انتخاب جیتنے کے لیے سرکاری مشینری کے غلط استعمال، فرقہ وارانہ پولرائزیشن اورغنڈہ گردی پر اترنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا ہے؟
ریاستی سرکار یا وزیر اعلیٰ آبادی کےکنٹرول کو لےکرذرا بھی سنجیدہ ہیں تو ان کی جانب سے سے ان سوالوں کے جواب آنے ہی چاہیے۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کی آبادی کی فکرسوالوں کے گھیرے سے باہر نہیں نکلنے والی۔ اس وجہ سے اور کہ ان کی حامی و محافظ جماعتوں کے نزدیک آبادی کنٹرول کا مدعا، مدعے سے زیادہ اقلیت مخالف ماحول بنانے کا ہتھیار بن رہا ہے۔
ان کی دورنگی دیکھیے؛ایک طرف بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کہتے رہے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ کا مقابلہ کرنے کےلیے ہندوؤں کو آبادی کنٹرول کاخیال ہی ترک کر دینا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ بچہ پیدا کرنے چاہیے اور دوسری اطرف ان کے رضاکاروں نے یہ نیریٹو بھی بنا رکھا ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کی وجہ سے وسائل اتنے کم پڑ جا رہے کہ اکثریت تک ترقی کے ثمرات نہیں پہنچ پا رہے۔
یہ ویسے ہی ہے، جیسے دلتوں، آدی واسیوں اور دیگر پسماندہ کمیونٹی پر ریزرویشن کے ذریعے اہل اورباصلاحیت اشرافیہ کی نوکریاں ‘لوٹ لینے’ کی تہمت لگا دی جاتی ہے۔
بدقسمتی سےجانکاروں کے مطابق ریاستی قانون کمیشن کی جانب سے مجوزہ آبادی کنٹرول قانون کا مسودہ بھی اس طرح کے سماجی تعصبات اور گمراہ کن اقتصادی تصورات سے ہی متاثر لگتا ہے۔ پھر بھی یوگی سرکار چار سال پہلے اس مسودے و پالیسی کے ساتھ سامنے آتی تو اسے اس کا سہرا دیا جا سکتا تھا کہ جیسے بھی ممکن ہوا، اس نے اس معاملے پر سیاسی پارٹیوں و سرکاروں کی1975 سے چلی آ رہی چپی کوتوڑنے کا حوصلہ کیا۔ اس لیے کہ 1975 میں ملک پر تھوپی گئی ایمرجنسی کے دوران بڑے پیمانے پر ہوئی جبراً نس بندی نے آبادی کنٹرول جیسے ضروری کام کو اتناداغدار کر دیا کہ سرکاروں و سیاسی پارٹیوں نے اس پر منھ کھولنا ہی بند کر ڈالا۔
لیکن اب وہ اس مسئلے کو انتخابی سال میں جس طرح منزل کی پرواہ کیے بنا انتخابی فائدہ سے جوڑکر آگے بڑھا رہی ہے، اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
سچائی یہ ہے کہ 1975کے انجام سے ڈری سرکاروں کے آبادی کنٹرول کی جانب سے آنکھیں بند کر لینے کے باوجود ملک کے جوڑے1975 میں ہی نہیں اٹکے پڑے ہیں۔ ان میں بیداری آئی ہے اور وہ خود اپنے بچوں کی تعداد محدود رکھنے لگے ہیں۔ جن کے زیادہ بچے ہیں، ان کی تعداد میں اضافے کا تعلق بھی ان کے مذہب اورفرقے سے کم غریبی، جہالت اور خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کی عدم واقفیت سے زیادہ ہے۔
ان کے حالات بدلے بنا ان کی پریشانی کا قانونی علاج جذام میں خارش ہی ثابت ہونا ہے ،اوچھے سیاسی مقاصد کے رہتے تو اور بھی۔ اس پر اکثریت کو رجھانے کی نیت ٹھیک سے پھول پھل گئی تو یہ قانون ایک طرح سے فلاحی منصوبے بند کرنے کا طریقہ بھی ہو سکتا ہے، جس کی زد میں تمام طبقوں وفرقوں کے غریب و محروم لوگ آئیں گے۔
دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ہمارے ملک اور سماج میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اکثر ہر سماجی،اقتصادی اور ثقافتی مسئلے کے قانونی حل کو لے کراتاولے رہا کرتے ہیں۔اگر انتخابی فائدے کے لیےیوگی آدتیہ ناتھ سرکار نے بھی اپنے کو انہی کی صف میں شامل کر لیا ہے تو اسے یہ سمجھنا کیوں کر گوارہ ہونے والا ہےکہ قانون ہر مسئلے کاحل نہیں ہوا کرتا۔
بڑھتی آبادی کامسئلہ بھی ان میں سے ایک ہے،جس کے حل کا راستہ عملی طریقوں سے گزرکر وسائل کی کارپوریٹ لوٹ روک کر ان کے اضافہ اورصحیح استعمال کرنے تک جاتا ہے ہاں، چوری، رساؤ اور بدعنوانی روکنے تک بھی۔
پھرآبادی کا کنٹرول ہمیشہ نعمت بھی نہیں ہوا کرتی۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین ہے، جہاں سختی سے آبادی کنٹرول کرنے کی وجہ سے سماجی فارمولہ بری طرح گڑبڑا گیا ہے۔ اسے‘آئیڈیل’ ماننے سے پہلے سمجھنا ضروری ہے کہ ہندوستان ایک خاندانی بنیادپر نامیاتی و بڑھنے والا سماج ہے، جسے مغربی ممالک یا چین جیسے کھانچے میں فٹ کرنا لگ بھگ ناممکن ہے۔
لیکن کیا کیجیےگا ابھی تو یہ سمجھنے کی بے صبری ہی تمام سمجھ پر بھاری ہے کہ اس سے کتنی پریشانیوں سے دھیان ہٹےگا اور بی جے پی کو کتناانتخابی فائدہ ہوگا؟
ظاہر ہے کہ اس پالیسی و قانون کے پیچھےآبادی کی کم انتخابی فائدہ کی فکر زیادہ ہے، جس میں شامل حضرات کو یقین ہے کہ کوئی اپنا ہو یا پرایا اور ان کی حمایت کرے یا مخالفت، اس کو لوگوں کے شعورپر حاوی کراکر ان کی انتخابی مدد ہی کرےگا۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)