گزشتہ جنوری میں نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے اتر پردیش کی حکومت سے کہا تھا کہ وہ اسلامی مدرسہ دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر مبینہ طور پر’غیر قانونی اور گمراہ کن’ فتویٰ شائع کرنے کے معاملے کی جانچ کرے، جس کے بعد سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ نےویب سائٹ تک رسائی پر پابندی لگا دی ہے۔
دارالعلوم دیوبند۔ (فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا)
نئی دہلی: اتر پردیش کے سہارنپور ضلع کے دیوبند میں واقع اسلامی تعلیمی ادارے دارالعلوم کی سرکاری ویب سائٹ پر سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ اکھلیش سنگھ نےپابندی لگا دی ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے گود لیے گئے بچے کے سلسلے میں دیے گئے فتویٰ کے پیش نظر ایک شخص نے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) میں شکایت درج کرائی تھی، جس پر کمیشن نے سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ کواس معاملے میں تحقیقات کے احکامات جاری کیے تھے۔
اس معاملے پرنوٹس لیتے ہوئے سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ اکھلیش سنگھ نے جانچ مکمل ہونے تک دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر پابندی لگانے کی ہدایت دی ہے۔
غور طلب ہے کہ دارالعلوم کی ویب سائٹ پر بچوں کو گود لینے، گود لیے گئے بچے کے جائیداد میں قانونی حقوق سے متعلق فتوے موجود ہیں۔ اس سلسلے میں این سی پی سی آر نے سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ کو نوٹس دے کر جانچ کے حکم دیے ہیں۔
گزشتہ جنوری میں
نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے اتر پردیش کی حکومت سے کہا تھا کہ وہ مبینہ طور پر ‘غیر قانونی اور گمراہ کن’ فتویٰ شائع کرنے کے لیے اسلامی مدرسہ دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ کی چھان بین کرے۔
بچوں کے حقوق کی اعلیٰ تنظیم نے ریاست کے چیف سکریٹری سے کہا تھا کہ وہ اس ویب سائٹ تک رسائی کو اس وقت تک روک دیں جب تک کہ اس طرح کے مواد کو ہٹا نہ دیا جائے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا نے اسے کچھ فتوے اٹھا کر اور سنسنی خیز بنا کر مدارس اور ان کی تعلیم کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش قرار دیا ہے۔
این سی پی سی آر نے کہا کہ وہ اس شکایت پر کارروائی کر رہا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ویب سائٹ پر فتوے کی ایک فہرست ہے، جو ملک کے قانون کے تحت فراہم کردہ دفعات کے خلاف ہے۔
این سی پی سی آر نے ریاست کے چیف سکریٹری کو لکھے ایک خط میں کہا ہے کہ، کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس ایکٹ کے سیکشن 13 (1) (جے) کےتحت شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے ویب سائٹ کو چیک کرنے کے بعد یہ دیکھا گیا کہ لوگوں کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل کے جواب میں دی گئی وضاحتیں اور جوابات ملک کے قوانین اور ایکٹ کے مطابق نہیں ہیں۔
اس نے کہا کہ اس طرح کےبیان بچوں کے حقوق کے منافی ہیں اور ویب سائٹ تک کھلی رسائی ان کے لیے نقصان دہ ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)