اتر پردیش کے کانپور شہر کے برہ علاقے کا معاملہ۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو میں کچھ لوگ ایک مسلمان رکشہ ڈرائیورکی پٹائی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اس سےمبینہ طور پر‘جئے شری رام’کا نعرہ لگانے کو کہہ رہے ہیں۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ متاثرہ رکشہ ڈرائیورکے ایک رشتہ دار کا اس کے پڑوسیوں کے خلاف زمین کو لےکرمقدمہ چل رہا ہے اور جولائی میں اس معاملے میں دونوں فریق نے ایک دوسرے کے خلاف کیس درج کرایا تھا۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے کانپور ضلع میں جبراً ‘جئے شری رام’کا نعرہ لگواتے ہوئے ایک مسلمان رکشہ ڈرائیور کی کچھ لوگوں کے ذریعے مبینہ پٹائی کے معاملے میں مقدمہ درج کرکے تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
گزشتہ11اگست کوسوشل میڈیا پر وائرل ہوئے اس واقعہ کے ویڈیو میں کچھ لوگ ایک مسلمان رکشہ ڈرائیورکی پٹائی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اس دوران وہ اس سے مبینہ طور پر‘جئے شری رام’کا نعرہ لگانے کو کہہ رہے ہیں۔
متاثرہ رکشہ ڈرائیور کی پہچان افسار احمد کے طور پرہوئی ہے۔
ویڈیو میں رکشہ ڈرائیور کی بچی حملہ آوروں کے آگے اپنے والد کو چھوڑ دینے کی منت کرتی اورگڑ گڑاتی نظر آ رہی ہے، بعد میں کچھ پولیس اہلکار اس رکشہ کے ڈرائیورکو اپنی جیپ سے لے جاتے نظر آ رہے ہیں۔ فوٹیج میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ پولیس کی موجودگی میں بھی حملہ آور رکشہ ڈرائیور کو پیٹ رہے ہیں۔
کانپور کی ڈی ایس پی(ساؤتھ)روینہ تیاگی نے بتایا کہ یہ واقعہ بدھ(11 اگست)کو کانپور کے برہ علاقے میں رام گوپال کراسنگ کے پاس ایک بستی میں رونما ہوا ہے۔
In a viral video, a group of people allegedly beat up a Muslim man at Ram Gopal Chauraha in Barra, yesterday.
As per the video, some unknown persons are assaulting a man. Case registered, necessary action being taken against the accused: Raveena Tyagi, DCP South Kanpur Nagar pic.twitter.com/z8P1diH6fY
— ANI UP (@ANINewsUP) August 12, 2021
انہوں نے بتایا کہ متاثرہ کی شکایت پر مقدمہ درج کرکے کارر وائی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ پولیس نے اس معاملے میں شامل کسی بھی تنظیم یا شخص کا نام نہیں لیا ہے۔
واردات کے شکار ہوئے ای رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ بدھ کودوپہرتقریباً تین بجے کچھ لوگ گالی گلوچ کرتے ہوئے اسے مارنے پیٹنے لگے۔
پولیس ذرائع کے مطابق، متاثرہ ای رکشہ ڈرائیور کے ایک رشتہ دار کا اس کے پڑوسیوں کے خلاف زمین کو لےکر مقدمہ چل رہا ہے اور پچھلی جولائی میں اس معاملے میں دونوں فریق نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق،اس واقعہ کو ایک مہینے پہلے ایک سلم میں الگ الگ کمیونٹی کے دو خاندانوں کے بیچ ہوئے تنازعہ سے جوڑتے ہوئے اےسی پی(گووندنگر)وکاس پانڈے نے کہا، ‘رکشہ ڈرائیور افسار احمد نے شکایت کی ہے۔ اسی بنیادپر ہم نے کیس درج کیا ہے۔ ہم نے کچھ مقامی لوگوں کو نامزد کیا ہے، جن پر مارپیٹ اور دنگے سے متعلق دفعات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔’
متاثرہ34 سالہ افسار احمد نے اپنی شکایت میں پانچ لوگوں کا نام لیا ہے، جبکہ 10 نامعلوم ہیں۔ ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 147 (دنگا)، 323(جان بوجھ کر چوٹ پہنچانا)، 504(امن و امان کو متاثر کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین)اور 506(مجرمانہ طور پر دھمکی)کے تحت درج معاملہ درج کیا ہے۔
احمد کی شکایت کے مطابق، ‘انہوں نے مجھے اور میرےاہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکی دی اور کہا کہ مجھے علاقہ چھوڑ دینا چاہیے۔ مجھے پولیس نے بچایا۔’
پولیس نے اس واقعہ کے سلسلے میں گزشتہ جمعرات کو تین لوگوں کو گرفتار کیا۔ ان کی پہچان اجئے راجیش‘بینڈ والا’، امن گپتا اور راہل کمار کے طور پر ہوئی ہے۔
کانپور کے پولیس کمشنر اثیم کمار ارون نے کہا، ‘ہم دوسرے ملزمین کی تلاش کر رہے ہیں۔’
اس بیچ، بجرنگ دل کے کئی کارکنوں نے تینوں کی گرفتاری کے خلاف کانپور میں ڈی ایس پی(ساؤتھ)دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
پولیس کمشنر ارون نے کہا کہ پچھلے تنازعہ میں دونوں فریق کی شکایتوں کے بعد انہوں نے معاملہ درج کیا تھا۔ لیکن اس معاملے میں بعد میں جبراً تبدیلی مذہب کے الزام بھی سامنے آئے تھے۔
ایک سینئرپولیس افسرنے کہا کہ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے بدھ کو علاقے میں احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
کانپور ڈی ایس پی(ساؤتھ)روینہ تیاگی نے پچھلے واقعہ پر ایک بیان جاری کرکے کہا کہ ایک خاتون نے 12جولائی کو پڑوس کی ایک نوجوان خاتون کے خلاف دفعہ354(کسی خاتون کے وقارکو مجروح کرنے کے ارادے سے اس پر حملہ یا مجرمانہ طور پر طاقت کا استعمال)کے تحت ہراسانی کاالزام لگاتے ہوئے شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد خاتون کے بیٹوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جانچ کے دوران اس میں شامل فیملی کی ایک خاتون نے دعویٰ کیا کہ اس پرمذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔
واقعہ کے بعد علاقے میں کشیدگی بنی ہوئی ہے۔امن و امان بنائے رکھنے کےلیے علاقے میں پولیس تعینات کر دی گئی ہے۔
لائیو ہندستان کے مطابق، معاملے کی شروعات 9 جولائی کو ہوئی تھی، جب برہ8کی ایک فیملی کی نابالغ بیٹی سے کچھ نوجوانوں نے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔متاثرہ فیملی نے پولیس سے شکایت کی پر رپورٹ درج نہیں ہوئی۔
گزشتہ31 جولائی کو بی جے پی ایم ایل اےمہیش ترویدی کی دخل اندازی پر پولیس نے بچی کی ماں کی شکایت پر تین سگے بھائیوں صدام، سلمان اورمکل کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ایف آئی آر صرف چھیڑخانی کی دفعہ میں درج کی گئی، جبکہ ماں نےمذہب تبدیل کرنے کے دباؤ کا الزام لگایا تھا۔
تبدیلی مذہب کی دفعہ نہ لگانے کی مخالفت میں بدھ کو بجرنگ دل کارکن ملزمین کے گھر پہنچ گئے۔ملزم فیملی نہیں ملی تو اس کے پڑوسی ای رکشہ ڈرائیورافسار احمد کو پکڑ لیا۔ اسے پیٹتے ہوئے رام گوپال چوراہے تک لے گئے۔
اس واقعہ کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے یوپی کانگریس نے الزام لگایا کہ کانپور شہر میں فرقہ وارانہ زہر گھولا جا رہا ہے۔
हिन्दू – मुस्लिम एकता की मिसाल गणेश शंकर विद्यार्थी जी ने कानपुर में साम्प्रदायिक दंगों में अपनी जान दी थी, आज उनके शहर कानपुर में जहर घोला जा रहा है।
वतन की जो हालत बताने लगेंगे,
तो पत्थर भी आँसू बहाने लगेंगे,
कहीं भीड़ में खो गयी आदमियत
जिसे ढूँढने में जमाने लगेंगे pic.twitter.com/W1dWgOJz7u— UP Congress (@INCUttarPradesh) August 12, 2021
اس نے ٹوئٹ کرکے کہا،‘ہندو مسلم اتحاد کی مثال گنیش شنکر ودیارتھی جی نے کانپور میں فرقہ وارانہ فسادات میں اپنی جان دی تھی، آج ان کےشہر کانپورمیں زہر گھولا جا رہا ہے۔ وطن کی جو حالت بتانے لگیں گے، تو پتھر بھی آنسو بہانے لگیں گے، کہیں بھیڑ میں کھو گئی آدمیت جسے ڈھونڈنے میں زمانے لگیں گے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)