گزشتہ دو مہینوں میں اتر پردیش پولیس کی اے ٹی ایس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سابق اور موجودہ طالبعلموں کو ملا کر 9 نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان پر حکومت کے خلاف جرائم کی سازش کرنے، حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے ارادے سے ہتھیار اکٹھا کرنے، دہشت گردانہ کارروائیوں کی سازش کرنے وغیرہ کے الزام ہیں۔
نئی دہلی: اترپردیش پولیس نے گزشتہ دو ماہ میں ‘اے ایم یو کے آئی ایس آئی ایس ماڈیول’ اور ‘علی گڑھ کے آئی ایس آئی ایس ماڈیول’ کے خلاف کارروائی کے تحت دہشت گردی کے الزام میں 9 مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ گرفتار نوجوانوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سابق اور موجودہ طالبعلم شامل ہیں۔
یہ گرفتاریاں 3 نومبر 2023 کو لکھنؤ میں یوپی انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے ذریعے درج کی گئی ایف آئی آر پر مبنی ہیں۔ ایف آئی آر میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 121 اے اور 122 کے ساتھ ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 13، 18، 18 بی اور 38 شامل ہے۔
ایف آئی آر میں حکومت کے خلاف جرم کرنے کی سازش کرنے، حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے کے ارادے سے ہتھیار اکٹھا کرنے، دہشت گردانہ کارروائی کی سازش یا کوشش کرنے، دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے لوگوں کو بھرتی کرنے اور دہشت گرد گروہ سے وابستگی سے متعلق الزامات لگائے گئے ہیں۔
اے ٹی ایس نے ملزمین پر اتر پردیش یا ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی بڑی واردات کو انجام دینے کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا ہے۔
پہلی گرفتاری نومبر 2023 کے پہلے ہفتے میں ہوئی تھی۔ 8 جنوری 2024 کو اے ٹی ایس نے معاملے میں تازہ گرفتاریاں کی ہیں۔ پولیس نے کہا کہ عمس احمد نامی شخص کو علی گڑھ میں گرفتار کیا گیا، جبکہ سنبھل کے رہنے والے عبدالصمد ملک (25) نے ایک مقامی عدالت میں خودسپردگی کی ہے۔
احمد نے 2022 میں اے ایم یو سے نفسیات میں گریجویشن مکمل کیا ہے اور پچھلے سال ایم بی اے کے داخلے کے امتحان میں شرکت کی تھی۔ وہیں، ملک اس مرکزی یونیورسٹی سے سوشل ورک میں ماسٹر ڈگری کی پڑھائی کر رہے ہیں۔
یوپی اے ٹی ایس نے الزام لگایا کہ معاملے میں پہلے گرفتار کیے گئے سات لوگوں کے ساتھ، یہ دونوں لوگ اے ایم یو میں آئی ایس آئی ایس ماڈیول تیار کر رہے تھے اور اس کے لیے دوسرے لوگوں کی بھرتی کر رہے تھے۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ گرفتار کیے گئے تمام افراد نے آئی ایس آئی ایس کے تئیں وفاداری کا عہد کیا تھااور وہ تنظیم سے بہت متاثر تھے۔ گرفتار کیے گئے نوجوان کیمپس میں ایک غیر رسمی طلبہ تنظیم ایس اے ایم یو (اسٹوڈنٹ آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) سے وابستہ تھے۔
سرکار کو اکھاڑ پھینکنے کی سازش: اے ٹی ایس
علی گڑھ میں کارروائی 5 نومبر 2023 کو اے ایم یو کے دو سابق طالبعلموں عبداللہ ارسلان اور معاذ بن طارق کی گرفتاری کے ساتھ شروع ہوئی۔ دو دن بعد یوپی اے ٹی ایس نے چھتیس گڑھ کے درگ سے تیسرے شخص وجیہہ الدین کو گرفتار کیا، جس نے اے ایم یو سے پی ایچ ڈی مکمل کی تھی۔ اے ایم یو کے ایک طالبعلم کے مطابق، وجیہہ الدین ایس اے ایم یو کی قیادت کرتے تھے۔
یوپی اے ٹی ایس نے کہا کہ اس نے گرفتار کیے گئے افراد کے پاس سے آئی ایس آئی ایس اور اے کیو آئی ایس (القاعدہ انڈین سب کونٹیننٹ) کا ‘شائع شدہ لٹریچر’ اور آئی ایس آئی ایس کے پروپیگنڈہ مواد کے ساتھ ایک پین ڈرائیو برآمد کیا ہے۔
اے ٹی ایس نے کہا کہ ان کے الکٹرانک آلات کے میموری کارڈز میں اے کیو آئی ایس اور آئی ایس آئی ایس کے ‘ممنوعہ لٹریچر’ کے تبادلے، دہشت گردی اور ‘ملک مخالف’ نظریے کی حمایت کرنے والے کئی گروہوں کے بارے میں جانکاری دکھائی تھی۔
گیارہ نومبر 2023 کو اے ٹی ایس نے ‘آئی ایس آئی ایس کے علی گڑھ ماڈیول’ کی تحقیقات کے تحت چار دیگر کو گرفتار کیا۔ گرفتار کیے گئے نوجوان میں —29 سالہ رقیب امام جنہوں نے اے ایم یو سے ایم ٹیک کیا ہے، 23 سالہ نوید صدیقی اے ایم یو میں بی ایس سی کی پڑھائی کر رہے ہیں، 27 سالہ محمد نعمان نے یہاں اے ایم یو سے بی اے آنرز کیا ہے اور 33 سالہ محمد ناظم شامل ہیں۔
پولیس نے کہا کہ نعمان، ناظم اور نوید کو ان کے آبائی ضلع سنبھل سے گرفتار کیا گیا، جبکہ رقیب کو علی گڑھ سے گرفتار کیا گیا۔
اے ٹی ایس نے دعویٰ کیا کہ گرفتار کیے گئے افراد ‘پرتشدد جہاد’ کے ذریعے حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور شرعی قانون نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
اے ٹی ایس نے یہ بھی کہا کہ یہ چار نوجوان مبینہ طور پر ‘ہم خیال لوگوں’ میں آئی ایس آئی ایس کا لٹریچر تقسیم کر رہے تھے اور انہیں تنظیم میں شامل ہونے کے لیے بھرتی کر رہے تھے۔
اے ٹی ایس نے کہا کہ وہ ایس اے ایم یو میٹنگوں کے ذریعے ایک دوسرے کے رابطے میں آئے تھے اور جہاد کے لیے ‘خفیہ مقامات’ پر لوگوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر تربیت دینے کے لیے آن لائن پلیٹ فارم اور بیٹھکوں کا استعمال کر رہے تھے۔
سال 2008 میں، ایس اے ایم یو نے بے حیائی کے خلاف ایک ماہ کی طویل مہم چلائی تھی۔
الزامات کی حقیقت جانچ سے پتہ چلے گی: اے ایم یو پراکٹر
اے ایم یو کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ پولیس جو بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے وہ ‘بے بنیاد’ ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اے ٹی ایس کے ذریعے لگائے گئے الزامات ابھی تک ثابت نہیں ہوئے ہیں، افسر نے کہا کہ یونیورسٹی میں اس طرح کے انحراف کے خلاف ‘زیرو ٹالرینس’ کی پالیسی ہے۔
اہلکار نے کہا، ‘اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہے اور یونیورسٹی (تحقیقات میں) تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔’
اے ایم یو کے پراکٹر وسیم علی نے کہا کہ انہیں پتہ ہے کہ یونیورسٹی کے کچھ سابق اور موجودہ طلباء کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن کسی بھی ریاستی ایجنسی نے انہیں کوئی آفیشیل جانکاری نہیں دی ہے۔
علی نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ان الزامات کی سچائی اور یہ کس بنیاد پر لگائے گئے ہیں، تحقیقات سے سامنے آئے گا یا عدالت میں فیصلہ کیا جائے گا۔’
انہوں نے کہا کہ گرفتاری اور یوپی پولیس کے مبینہ آئی ایس آئی ایس ماڈیول کو مرکزی یونیورسٹی سے جوڑنے سے اے ایم یو کی شبیہ پر کوئی گہرا اثر نہیں پڑے گا۔
انہوں نے کہا، ‘ہماری یونیورسٹی میں 25000 طالبعلم ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیں اور پاس ہو کر چلے جاتے ہیں۔ اگر ان میں سے 3-4 طالبعلم، جن میں سے زیادہ تر پاس ہو چکے ہیں، کو ایسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو مجھے نہیں لگتا کہ اس سے یونیورسٹی کی امیج پر کوئی اثر پڑے گا۔ یہ متعلقہ افراد پر منحصر ہے۔’
تاہم، انہوں نے محسوس کیا کہ کیس میں گرفتاریوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے، یہ ‘تشویش کا باعث’ ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہمارا نصاب اور نظام شفاف ہے۔ ہمارے نصاب میں ایسی کوئی چیز نہیں ہےجو ایسی چیزوں کو فروغ دیتی ہو۔ یونیورسٹی ملک کے آئینی فریم ورک کے مطابق کام کرتی ہے اور تعلیم فراہم کرتی ہے۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔