واقعہ اتر پردیش کے کاس گنج ضلع کا ہے۔ 16 جولائی کو ایک خاتون نے ایک مسلم شخص کے خلاف لو جہاد اورریپ کا الزام لگاتے ہوئے ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ اب خاتون نے کہا ہے کہ اس کو اس کام کے لیے دو افراد نے پیسہ دے کر کام پررکھا تھا۔ سازش کرنے والے دونوں ملزمین میں سے ایک کو مبینہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوتھ ونگ کا لیڈر بتایا جا رہا ہے۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: دہلی کی ایک خاتون نے دو لوگوں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اتر پردیش کے کاس گنج میں مسلمان شخص کو ‘لو جہاد’ اور ریپ کے معاملے میں پھنسانے کے لیےاس کی خدمات حاصل کی تھیں۔ دونوں ملزمین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ عبوری ضمانت پر باہر ہیں۔
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، دونوں میں سے ایک نے اپنے فیس بک پیج پر اپنی پہچان بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے یوتھ ونگ کے ضلعی نائب صدر کے طور پر کرائی ہے۔
رپورٹ میں خاتون کی عمر 24 سال بتائی گئی ہے اور اس کا نام رادھا ہے۔ اس نے اس سے قبل ایک مسلمان شخص پر شادی کا وعدہ کرکے ریپ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، مسلم شخص کا نام پرنس قریشی ہے۔ خاتون نے اپنے الزامات میں یہ بھی کہا تھا کہ پرنس نے خود کو ہندو بتا کر اس کے ساتھ میل جول بڑھایا تھا۔
پولیس نے 16 جولائی کو قریشی پر تعزیرات ہند کی دفعہ 376 (ریپ)، 323 (چوٹ پہنچانا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت معاملہ درج کیا تھا۔
ہندوتوا تنظیموں کے تقریباً 200 کارکنوں نے کاس گنج کے گنج ڈندواڑہ پولیس اسٹیشن کے قریب اس واقعہ کے خلاف مظاہرہ بھی کیا تھا۔
بتادیں کہ 2020 کے آخر میں اتر پردیش حکومت لو جہاد کو روکنے کے لیے ایک متنازعہ قانون لائی تھی۔ اس قانون کے تحت درج کئی مقدمات کو جانبدارانہ قرار دے کر اس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سے قبل مرکزی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ اس کے پاس ایسے معاملات سے متعلق کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔
تاہم، رادھا نے مبینہ طور پر اپنے الزامات کو واپس لے لیا ہے اور اب کہا ہے کہ دو لوگوں – امن چوہان اور آکاش سولنکی نے اسے پیسے دے کر ایسا کرنے کو کہا تھا۔ اس کا بیان ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا گیا۔
ٹائمس آف انڈیا کے مطابق، چوہان کے فیس بک اکاؤنٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ بی جے پی کے یوتھ ونگ کے لیڈر ہیں۔ بی جے پی کے کاس گنج کے صدر نے کہا، انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔
خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ قریشی اور ملزمیں کے درمیان تجارتی مقابلہ آرائی ہے۔
مجرمانہ سازش کے الزام میں تینوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ چوہان اور سولنکی کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں عبوری ضمانت مل گئی ہے۔
کاس گنج کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) بی بی جی ٹی ایس مورتی نے ٹائمس آف انڈیا کو بتایا کہ خاتون کی طرف سے دی گئی تفصیلات غلط پائی گئی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا، ‘وہ طبی معائنے کے لیے جانے سے بھی گریزاں تھیں۔’
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔