جہاں بی جے پی ایس پی (اور کانگریس) کی جانب سے اتر پردیش میں دی گئی گہری چوٹ کو ٹھیک سے سہلا تک نہیں پا رہی، اس کے بہی خواہ دانشور اور تجزیہ کار مدعی سست گواہ چست کی طرز پر اس چوٹ کو معمولی قرار دینے کے لیے یکے بعد دیگرے ناقص اور بودی دلیل لا رہے ہیں۔
2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: بی جے پی)
یہ سال 2004 کے لوک سبھا انتخابات کی بات ہے، جب ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی نے اتر پردیش میں 80 میں سے 35 لوک سبھا سیٹ جیت کر زبردست مظاہرہ کیا تھا اور بی جے پی کی قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی اٹل بہاری واجپائی حکومت کو کانگریس کی قیادت والی یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کی منموہن سنگھ کی حکومت سے تبدیل کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔
ستم ظریفی یہ تھی کہ کانگریس کے نئے حکمراں انہیں اس کااخلاقی کریڈٹ بھی نہیں دے رہے تھے اور ان کی حالت ‘بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ’ جیسی کر دی تھی۔ کچھ دنوں تک وہ اندر ہی اندر خاموشی سے یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے، لیکن ایک دن ایک کانگریسی لیڈر پر برس پڑے اور بولے، ‘ ذرا بھی شرم نہیں آتی تم لوگوں کو؟ یہ سوچ کر بھی نہیں کہ جس ملائم کو تم پھوٹی آنکھوں بھی نہیں دیکھنا چاہتے، اس نے مرکز میں تمہاری حکومت بنانے میں اتنا اہم رول ادا کیا ہے۔ یہ تبھی ممکن ہوا ہے ،جب ملک کی سب سے بڑی ریاست میں ایس پی نے بی جے پی کو شکست دے کر اس کا راستہ روکا ہے! کیا وہ اس کے لیے تھوڑا سا بھی کریڈٹ کامستحق نہیں؟
تب بی جے پی کو روکا
اس کے بعد ملک میں ہونے والی سیاسی پیش رفت اس بات کی گواہ ہے کہ کانگریس والوں کو ان کی بات کم از کم اس حد تک سمجھ میں آ گئی تھی کہ 2008 میں جب بائیں بازو کی جماعتوں نے امریکہ کے ساتھ متنازعہ جوہری معاہدے کے معاملے پر منموہن سنگھ حکومت سے حمایت واپس لے لی تو ایس پی نے اسے بچانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اس کی وجہ سے 2009 کے انتخابات میں ایس پی کی لوک سبھا سیٹیں گھٹ کر 23 ہوگئیں، پھر بھی بی جے پی کے منصوبے کامیاب نہیں ہوئے اور منموہن سنگھ کی حکومت اپنی واپسی کرنے میں کامیاب رہی۔ لیکن 2014 میں جیسے ہی ایس پی کی سیٹیں گھٹ کر پانچ ہوئیں، پورا قومی منظر نامہ بدل گیا۔
نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اپنے بل بوتے پرواضح اکثریت حاصل کرکے مرکز میں حکومت بنائی۔ اس کے بعد، 2019 میں یہ سرکاری کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آئی تو اس کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کے باوجود ایس پی کی سیٹیں صرف پانچ رہ گئی تھیں اور سب سے بڑی ریاست میں، بی جے پی کوکوئی روک نہیں پایا۔
اب کر دیا آدھا
یکے بعد دیگرے کئی ناکام اتحادوں کے بعد اس بار ایس پی نے ‘انڈیا’ کے بینر پر لوک سبھا کی ریکارڈ 37 سیٹیں جیت کر بی جے پی کے ‘ناقابل تسخیر’ قلعے کو ‘ہاف’ کر دیا ہے، جس کے اثر سے نہ صرف بی جے پی کی اکثریت بلکہ غیر حیاتیاتی (نان بایولوجیکل)نریندر مودی کی ملک میں اقتدار پر دس سالہ اجارہ داری بھی ختم کر دی ہے۔ اس وجہ سے ایس پی کا لوک سبھا میں تیسری سب سے بڑی پارٹی بننا اس کی کامیابی کا محض ایک ضمنی نتیجہ ہے کہ اس نے نہ صرف بی جے پی کا سیاسی حساب و کتاب بگاڑ دیا ہے بلکہ ان کی کیمسٹری بھی بدل کر رکھ دی ہے۔
کیا تعجب کہ انتخابی مہم کے دوران ‘انڈیا’ کا (کہنا چاہیے کہ مخلوط حکومتوں کے تصور کا ) مذاق اڑاتے رہے مودی کو حکومت سازی کے لیے اپنے ناقابل اعتبار اور جاہ طلب اتحادیوں سے اوڑھی ہوئی انکساری کے ساتھ مول تول کرنا پڑا ہے۔ ان کی اس نمائشی انکساری سے یہ ‘کاش’ بھی جڑا ہوا ہے کہ اگر وہ ایس پی کو دس بارہ سیٹوں تک محدود رکھ پاتے(جیسا کہ ان کے ایگزٹ پول والے بہی خواہ اہ کہہ رہے ہیں) تو نہ ان سے اپنے دم پر ملنے والی اکثریت کی بہار جاتی رہتی اور نہ ہی دانتو ں میں تنکا دبا کر اور کلیجے پر ہاتھ رکھ کر کہنا پڑتا کہ ‘سیاست میں نمبرگیم تو چلتا ہی رہتا ہے۔’
یہاں قارئین کو یہ سب کچھ یاد دلانا اس لیے ضروری محسوس ہوا کہ جہاں بی جے پی ایس پی (اور کانگریس) کی جانب سے دی گئی کراری چوٹ کو ٹھیک سےسہلا تک نہیں پا رہی، اس کے بہی خواہ دانشور اور تجزیہ نگار ‘مدعی سست گواہ چست’ کی طرز پر اس چوٹ کومعمولی قرار دینے کے لیے یکے بعد دیگرے ناقص اور بودی دلیل لا رہے ہیں ۔
بعض صاحبان تو اس کٹ حجتی پر اتر آئے ہیں کہ بی جے پی اس ریاست میں یا تو مقامی وجوہات سے ہاری ہے یا ‘انڈیا’ کے پھیلائے ہوئے ‘خوف کی نفسیات’ یااپنے 2019 کے ممبران پارلیامنٹ کے خلاف زبردست اینٹی انکمبینسی کی وجہ سے۔
یہ جو ہے گھمنڈ
ان حضرات کی بے چارگی محسوس کیجیے کہ وہ جس سانس میں اتر پردیش کے مینڈیٹ کو مقامی عوامل کا نتیجہ بتا رہے ہیں، اسی سانس میں وہ اڑیسہ اور آندھرا پردیش کے مینڈیٹ کو-یہاں تک کہ کیرالہ اور تمل ناڈو میں بی جے پی کی ‘بڑھت ‘ کو بھی وہاں کی سرکاروں کے گھمنڈ کے خلاف بتا ر ہے ہیں اور انہیں اس میں کوئی تضاد بھی نظر نہیں آتا۔
یہی نہیں، وہ بی جے پی کے ارکان پارلیامنٹ کے خلاف جس اینٹی انکمبنسی کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ٹکٹ کٹ جاتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا، اس میں مودی اور ان کی حکومت کا معمولی سا حصہ بھی نہیں قبول نہیں کرتے۔
ویسے ہی ، جیسے ایک معروف پولسٹر نے لفظوں کی بازی گری کرتے ہوئے یہ کہہ کر مودی کا دفاع کیا تھا کہ رائے دہندگان میں ان کے تئیں کچھ عدم اطمینان بھلے ہو، غصہ نہیں ہے۔
ان صاحبان کی مانیں تو ‘انڈیا’ کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ اس نے مودی اور بی جے پی کی بابت اس اندیشے کو پیدا کیا کہ اگر ان کی سیٹیں چار سو پار ہو گئیں تو وہ ملک کے آئین کو تبدیل کر دیں گے اور ریزرویشن کو ختم کر دیں گے- جس کی وجہ رائے دہندگان میں ایسا خوف پیدا ہوگیا کہ وہ اپنی بڑی (ہندوتوا؟) شناخت سے ہٹ کر ایک محدود شناخت – مذہب سے ذات کی طرف- شفٹ ہوگئے اور اپنے حقوق چھن جانے کے خوف میں بی جے پی کے خلاف ووٹ دے آئے۔
کس نے پھیلائی فیئر سائیکوسس؟
کوئی ان حضرات سے پوچھے کہ شعوری طور پر ہندو مسلمان کرتے گھوم رہے مودی ‘انڈیا’ کےاقتدار میں آ نے پر تو دلتوں اور پسماندہ طبقات کا ریزرویشن مسلمانوں کو دیے جانے، خواتین کا منگل سوتر اور جانے کیا کیا چھن جانے، یہاں تک کہ بھینس کھل جانے اور رام مندر میں بابری تالہ لٹک جانے کا خوف دکھا کر کون سی سائیکوسس پیدا کر رہے تھے کہ اور کیا سب سے پہلے ان کے لوگوں نے ہی یہ کہنا شروع نہیں کیا تھا کہ ان کی حکومت تو 272 سیٹوں سے بھی بن جائے گی، چار سو پار سیٹیں تو آئین میں تبدیلی کے لیے چاہیے؟
‘انڈیا’ اس طرح نہیں تو اور کس طرح ان کے کہے کی کاٹ کر اپوزیشن ہونے کی اپنی ذمہ داری ادا کرتا؟
سوال یہ ہے کہ یہ سب اس حقیقت کو کیوں برداشت نہیں کر پا رہے ہیں کہ اتر پردیش کے ووٹروں نے اسے آئین کو بچانے کا آخری موقع سمجھ کر رعایا یا بھکت بنے رہنے سے انکار کر دیا اور شہری بننے کی راہ پر چل پڑے؟ انہوں نے گنجے کو ناخنوں سے محروم کر دیا ہے تو اس کے لیے ان کی تنقید کی جائے یا تعریف؟
کیا ایس پی اور کانگریس پر بھی تنقید کی جانی چاہیے کہ انہوں نے اسے اپنی بقا کا آخری موقع مانا اور اس کے استعمال کے لیے اپنی پرانی امیج سے آگے بڑھ کر خود کو نئے سرے سے تلاش کر لیا- اس طرح کہ ان کا اتحاد پچھلی بار کی طرح غیر فطری یا محض رہنماؤں کا ہو کر نہیں رہ گیا، دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے دل بھی آپس میں مل گئے۔
پھرتو وہ اپنے روایتی ووٹ بینک کی مدد سے بی جے پی کو شکست دینے کی کوششوں تک ہی محدود نہیں رہے، اس کے ووٹ بینک پر بھی حملہ کر دیا، بی ایس پی کے بھی۔
انہوں نے اس تذبذب کو بھی دور کیا جس کی وجہ سے کئی طبقے بی جے پی سے غیر مطمئن ہونے کے باوجود ان کے قریب آنے سے گریز کرتے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے 2019 میں امیٹھی میں راہل گاندھی کو جتنے ووٹوں سےہرایا تھا، اس بار ان کے ‘کارکن’ کشوری لال شرما سے اس کےتین گنا ووٹوں سے ہار گئیں۔
شہری بننے دیں پلیز!
ہم پہلے ہی
ایک مضمون میں ایودھیا میں بی جے پی کی شکست کا ذکر چکے ہیں ۔ لیکن یہاں ان حضرات سے یہ پوچھنے کے لیے اس کا ذکر ضروری ہے کہ کیا یہ شکست بھی مقامی مسائل کی مرہون منت ہے؟ کیا بی جے پی وہاں مقامی مسائل پر الیکشن لڑ رہی تھی؟
پھر کیوں ایودھیا کے لوگوں کو ایسی زبان میں جلی کٹی یا سخت اور تلخ باتیں کہہ کر غصہ اتارا جا رہا ہے، جس کا یہاں ذکر تک نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہا جا رہا ہے کہ وہ نہ تو بھگوان رام کے ہوئے اور نہ ہی ان کے جنہوں نے ان کا پانچ سو سالہ انتظار ختم کیا؟کیوں اس کے لیے ان کا موازنہ بھگوان رام کی رعایا سے کیا جا رہا ہے؟ کیا اس لیے کہ انہیں رعایا ہی بنائے رکھنے کا ‘ارادہ’ ہے – اور انہیں شہری نہیں بننے دینا ان کی منشا ہے؟
یہی نہیں مودی اور یوگی کے درمیان جس تضاد کوچھپانے میں بی جے پی اکثر اپنی توانائیاں صرف کرتی رہتی ہے، کم از کم سوشل میڈیا پر یہ اس حد تک ظاہر ہو چکا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو ‘فوٹانیاں’ بولے جا رہے ہیں؟
چلو مان لیتے ہیں کہ چوٹ روح پر لگی ہے اور اذیتناک ہے، لیکن اس طرح چھپانے یاسہلانے سےتو اس کا درد کم ہونے کے بجائے اور بڑھے گا اور مزید اذیت میں مبتلا کرے گا۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)