صحافی آشیش ساگر پچھلے کچھ دنوں سے اتر پردیش کے باندہ ضلع میں کین ندی میں غیر قانونی ریت کان کنی کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔الزام ہے کہ ضلع کے پیلانی حلقہ کی املور مورم کان سے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریت نکالی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے ندی اور ماحولیات کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ضلع انتظامیہ سے شکایت کی گئی ہے۔ وہیں علاقے کے ایس ڈی ایم کا کہنا ہے کہ غیرقانونی کان کنی نہیں ہو رہی ہے۔
صحافی آشیش ساگر۔ (فوٹو: دھیرج مشرا)
اس دن صحافی آشیش ساگر گھر پر نہیں تھے۔کین-بیتوا ندی جوڑومنصوبے سے متاثر ہونے والے آدی واسیوں کی کہانی لکھنے کے لیےتقریباً 200 کیلومیٹر دور ایک گاؤں میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ باربار ان کے فون کی گھنٹی بج رہی تھی، لیکن مصروفیت کی وجہ سے وہ کال نہیں لے پا رہے تھے۔
کام سے خالی ہونے پر انہوں نے دیکھا ان کی ماں نے انہیں کئی سارے کال کیے ہیں۔ رات کے تقریباً نو بج چکے تھے۔ انہوں نے فون ملایا تو ادھر سے بےحدتشویش ناک لہجے میں کانپتی ہوئی آواز انہیں سنائی دی۔
ماں نے کہا، ‘تم ایسا کام کیوں کرتے ہو کہ لوگ گھر پر دھمکی دینے چلے آتے ہیں۔ تمہیں سکون سے جینا نہیں آتا ہے کیا۔ جیسے باقی لوگ چپ چاپ اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہے ہیں، کما کھا رہے ہیں، ویسا تم کیوں نہیں کرتے ہو۔’
اتنا سن کر آشیش کے ماتھے پر فکر کی لکیریں کھنچ گئی،اندر ڈر پھیلنے لگا، لیکن انہوں نے خود کو سنبھالتے ہوئے اپنی ماں کو بھروسہ دلایا کہ کسی کو کچھ نہیں ہوگا، وہ فکر نہ کریں۔ حالانکہ اس کے ساتھ ہی ساگر نے یہ بھی کہا کہ وہ جو کام کرتے ہیں، اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے، وہ عوامی مفادکا کام ہے۔
دراصل آشیش ساگر پچھلے کئی دنوں سے اتر پردیش کے باندہ ضلع میں کین ندی میں غیرقانونی کان کنی کی اسٹوری کر رہے ہیں۔الزام ہے کہ ضلع کے پیلانی حلقہ کی املور مورم کان سے اصولوں کی شدید خلاف ورزی کرتے ہوئے بالو نکالا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ندی اور ماحولیات کو شدیدنقصان ہو رہا ہے۔
اس کان کے آُپریٹر غازی آباد کے وپل تیاگی ہیں اور اس کے حصہ دار جئےرام سنگھ نام کے ایک بی ایس پی رہنما ہیں۔ساگر نے کہا کہ گزشتہ 14 جون کو سنگھ اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ ان کے گھر پر پہنچے تھے اور ان کی ماں سے کہا تھا، ‘اپنے بیٹے کو سمجھا لینا۔ میرے خلاف اس طرح کی خبریں نہ لکھے۔’
صحافی کو ملی دھمکی کے سلسلے میں ڈی ایم کو دیا گیامیمورنڈم ۔
اس معاملے کو لےکر ساگر کے علاوہ املور کی گرام پردھان پروین سنگھ پریہ اور کارکن اوشا نشاد نے مل کر ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم دیا ہے، حالانکہ ابھی تک کوئی مؤثر کارروائی نہیں ہوئی ہے۔
میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی گرام پنچایت املور میں چلنے والےبلاک7 کلاس 3 کی زمین میں اوورلوڈنگ نکاسی اور غیر قانونی کان کنی کے بارے میں خط دیا تھا، لیکن اسے لےکر لیکھ پال نے ان کی غیر موجودگی میں جانچ کی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ کیا کارروائی کی گئی ہے۔
حالانکہ پیلانی کے ایس ڈی ایم رام کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ وہاں پر غیرقانونی کان کنی نہیں ہو رہی ہے۔
ایس ڈی ایم نے دی وائر سے کہا، ‘میرے علم میں تو نہیں ہے کہ کس نے کس کو دھمکی دی ہے۔ اس سے میرا کوئی مطلب نہیں ہے۔ وہاں غیرقانونی کان کنی ہو ہی نہیں رہی ہے۔ پٹےدار اپنے علاقے میں کان کنی کر رہے ہیں۔ حالانکہ مجھے یہ نہیں پتہ ہے کہ پٹےدار اور ان کےمعاون کون ہیں، فائل دیکھنے پر بتا پاؤں گا۔’
وہیں دھمکی کے سلسلے میں باندہ پولیس نے کہا ہے کہ ‘معاملے میں سرکل افسر صدر کو جانچ کر ضروری کارر وائی کے لیے ہدایت دی گئی ہے۔’صحافی آشیش ساگر کہتے ہیں انہیں خود کی جان کا ڈر نہیں ہے اور وہ لگاتارغیر قانونی کان کنی کے خلاف لڑتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا، ‘میرے جیسے لوگ خود کے لیے کبھی نہیں ڈرتے ہیں۔ مجھے صرف اپنے بوڑھے ماں باپ کی فکر ہے۔ ان کی عمر 72 سال سے زیادہ کی ہے، ذرا سوچیے اگر ایسی حالت میں پانچ چھ لوگ آپ کے گھر پہنچ جائیں اور دھمکی دینے لگیں تو ان کی کیا حالت ہوگی۔ پہلے انہوں نے مجھے کئی بار فون کیا، لیکن میں نے اٹھایا نہیں، اس کے بعد یہ میرے گھر پر پہنچ گئے۔’
صحافی نے الزام لگایا کہ بی ایس پی رہنما نے ان کی ماں سے کہا تھا، ‘لڑکے کو سمجھا لو، نیتاگری نہ کرے، جب کچھ مقدمے لگ جا ئیں گے تو سدھر جائیں گے۔’وہیں بی ایس پی رہنما جئےرام سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ صحافی اور کارکن غیر قانونی ریت کان کنی کی شکایت کرکے پیسے وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا، ‘جو لوگ انہیں پیسہ دے دیتے ہیں، وہ چپ ہو جاتے ہیں۔ چونکہ میں مقامی شخص ہوں اور ایمانداری سے سیاست کرتا ہوں، اس لیے ان کے آگے نہیں جھکوں گا۔’
پچھلے چار سالوں سے بالو کا کاروبار کر رہے سنگھ نے دھمکی دینے کے سلسلے میں کہا، ‘میں راستے سے گزر رہا تو ان کی ماتا جی دکھیں۔ میں نے پرنام کیا اور ان کا چرن چھوا۔ ہم نے انہیں الاہنا دیا کہ ماتاجی ہم آپ کے پڑوسی ہیں اور آپ کا لڑکا الٹا سیدھا چھاپ رہا ہے، آپ خود چل کر دیکھیے، اگر غیرقانونی کان کنی ہو رہی ہے تو چھاپیں، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو یہ سب نہ کریں۔ کیا الاہنا دینا غلط ہے، یہ تو ہماری روایت میں ہے۔’
کین ندی۔ (فوٹو: آشیش ساگر)
اپنی سماجی سرگرمی اور صحافت کی وجہ سے ہی آشیش ساگر نے شادی نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح کا کام وہ کرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کے ساتھ دیگر لوگوں کو بھی تکلیف جھیلنی پڑتی، اس لیےانہوں نے شادی نہ کرنا ضروری سمجھا۔
صبح اٹھ کر گھر کا سارا کام اور ماں باپ کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے بعد ساگر اپنی اسٹوری کرنے باہر نکلتے ہیں۔ پچھلی تقریباً ایک دہائی سے انہوں نے بندیل کھنڈ کے کئی اہم مدعے اٹھائے ہیں، ان میں بندیل کھنڈ پیکیج، تمام پینے کے پانی سے متعلق منصوبے، پودے لگانے میں بے ضابطگیاں، ندی جوڑو منصوبے جیسے کئی کام شامل ہیں۔
اپنے کاموں میں انہوں نے آر ٹی آئی قانون کا بھی خوب استعمال کیا ہے، جانکاری نہ ملنے پر اس کی قانونی لڑائی لڑی اور کئی لوگوں کو اسے لےکربیدار بھی کیا ہے۔اس وقت وہ ‘وائس آف بندیل کھنڈ’ نام سے اپنا ایک چینل چلا رہے ہیں۔ اس سے پہلے انہیں ویڈیو والینٹیر کے لیے بطور کمیونٹی نامہ نگار کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ د پریس ٹرسٹ آف بندیل کھنڈ کےبانی ہیں۔
معلوم ہو کہ حال ہی میں اےبی پی نیوز کے صحافی سلبھ شریواستو کی پرتاپ گڑھ میں مشتبہ حالات میں موت ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اپنی موت سے ایک دن پہلے ہی انہوں نے الہ آبادزون کے اےڈی جی کو خط لکھ کر شراب مافیاؤں کے کے ذریعے اپنےقتل کے اندیشے کا اظہار کیا تھا۔
اس کا حوالہ دیتے ہوئے آشیش ساگر نے کہا، ‘ماں باپ کہتے ہیں، کھانے دو اگر دنیا کھا رہی ہے، کیا ہو جائےگا یہ سب کرنے سے، دیکھ لو پرتاپ گڑھ کے صحافی کے ساتھ کیا ہو، لیکن میرا ماننا ہے کہ جوصحیح ہے،اگر ہم اس پر آواز نہیں اٹھائیں گے، تو یہ جرم ہے۔’
اس معاملے میں یوپی پولیس کی جانب سےفوراً مناسب کارروائی نہیں کرنے کو لےکر ٹوئٹر پر صحافیوں، سماجی کارکنوں اورمقامی لوگوں نے گہری ناراضگی ظاہر کی۔
یوپی کانگریس نے بھی ٹوئٹ کر کہا، ‘ریت کان کنی اور ماحولیات سے جڑے مدعے اٹھانے پر آشیش ساگر دکشت، املور گرام پردھان اور اوشا نشاد کو مافیاؤں کی طرف سے لگاتار دھمکیاں مل رہی ہیں۔ انتظامیہ جلد از جلد ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔’
اس کے جواب میں باندہ پولیس نے ضروری کارروائی کے لیے ایریا افسر صدر کوہدیت دیے جانے کی بات کہی ہے۔بتا دیں کہ میڈیا کی آزادی سےمتعلق ‘رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس’ کی سالانہ رپورٹ میں پریس کی آزادی کے معاملے میں ہندوستان 180ممالک میں 142ویں مقام پر ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ ملک صحافت کے لیے بےحد خطرناک ہے۔ اس میں سے اتر پردیش کی حالت اور زیادہ قابل رحم ہے۔ یہاں پر صحافیوں کو اپنا کام کرنے کی وجہ سے بے رحمی سے مارنے، ڈرانے دھمکانے سمیت کئی معاملے سامنے آ چکے ہے۔