کانپور میں 3 جون کو بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے ذریعے پیغمبراسلام کے بارے میں کیے گئے متنازعہ تبصرےکے خلاف احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ اس معاملے میں پولیس نے بی جے پی یووا مورچہ کے سابق ضلع اکائی سکریٹری ہرشیت سریواستو کو سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
نئی دہلی: کانپور پولیس نے گزشتہ ہفتے شہر میں پیش آئےتشدد کے سلسلے میں منگل کو بی جے پی لیڈر سمیت 13 اور لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ تشدد کے معاملے میں اب تک گرفتار ہونے والوں کی تعداد 51 ہو گئی ہے۔
تقریباً 10 اور مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ایسٹ) پرمود کمار نے بتایا کہ پولیس کی طرف سے لگائے گئے پوسٹر کے بعد 16 سالہ نوجوان نے کرنل گنج پولیس اسٹیشن میں آکر خودسپردگی کی۔ ان کے مطابق، پوسٹر میں لگائی گئی تصویر میں اس کی تصویر بھی شامل ہے۔
کمار نے بتایا کہ کوتوالی پولیس نے 3 جون کے تشدد سے متعلق فرضی اور اشتعال انگیز مواد پھیلانے کے الزام میں دو فیس بک اور تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کے صارف کے خلاف منگل کو ایف آئی آر درج کی ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لاء اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے بتایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی یووا مورچہ کے سابق ضلع اکائی سکریٹری ہرشیت سریواستو کو سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ہرشیت سریواستو نے اپنے ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیے ہیں۔
خبررساں ایجنسی اے این آئی نے سریواستو کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ایک تصویر ٹوئٹ کی ہے جس میں وہ بی جے پی صدر جے پی نڈا کے ساتھ کور تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔
Uttar Pradesh | Kanpur Police arrest BJP youth wing leader Harshit Srivastava over his controversial tweet in view of clashes in the district that broke out recently. Case registered. pic.twitter.com/0D3tEq32L9
— ANI UP/Uttarakhand (@ANINewsUP) June 7, 2022
سریواستو پرآئی پی سی اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 153اے (دشمنی کو فروغ دینا) اور 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے جان بوجھ کر بدنیتی پر مبنی عمل) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزید سچائی کا پتہ لگانے اور دوسروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انکوائری کی جارہی ہے۔
جوائنٹ کمشنر آف پولیس آنند پرکاش تیواری نے بتایا، ہم زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے تحت کام کریں گے۔ جمعہ سے لے کر اب تک ہم نے ایسے 23 سوشل میڈیا صارفین کے خلاف کیس درج کیا ہے۔
کانپور میں ہوئے فرقہ وارانہ تصادم کے ویڈیوز ٹوئٹ کرنے پر اتر پردیش پولیس نے ‘ملت ٹائمز’ کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی ہے۔
ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 505 اور 507 اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایک اور اہلکار نے بتایا کہ ضلع انتظامیہ نے ڈپٹی اسٹاپ کے کراسنگ کے قریب واقع ایک پٹرول پمپ کو سیل کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آرہا ہے کہ جمعہ کو پیش آئے تشدد سے پہلے لوگوں کو اس پٹرول پمپ سے بوتلوں میں ایندھن دیا جا رہا ہے۔ اسی علاقے میں مبینہ طور پر پٹرول بم بھی پھینکے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ بوتلوں میں پٹرول کی فروخت ممنوع ہے اس لیے تحقیقات مکمل ہونے تک پٹرول پمپ کا لائسنس رد کردیا گیا ہے۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ فسادی دور دور سے مختلف اضلاع اور علاقوں سے آئے تھے اور خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی )اس کی جانچ کر رہی ہے۔
اہلکار نے کہا کہ ایس آئی ٹی نے اپنی توجہ ان لوگوں پر مرکوز کی ہے جو فسادات کے اہم سازش کار اور مالی مددگار ہو سکتے ہیں۔
پولیس نے مبینہ کلیدی سازش کار ظفر حیات ہاشمی کی بیوی زارہ حیات کےرول کی بھی تفتیش شروع کر دی ہے،جن کی گرفتاری گزشتہ روز لکھنؤ کے حضرت گنج سے ہوئی تھی۔
ایس آئی ٹی کے ذریعہ جمع کیے گئے شواہد نے ہاشمی کی بیوی پر شک پیدا کیا ہے جو کئی وہاٹس ایپ گروپس کی ایڈمن تھیں۔
کانپور کمشنریٹ پولیس نے سوموار کو پوسٹر جاری کیے تھے،جن میں ان لوگوں کی تصویریں ہیں جنہوں نے جمعہ کے تشدد میں مبینہ طور پر کردار ادا کیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمین کی تصاویر مختلف ویڈیوز کے ذریعے اکٹھی کی گئی ہیں۔
بتادیں کہ اتر پردیش کے کانپور میں3 جون جمعہ کوبھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپور شرما کی طرف سے پیغمبر اسلام کے بارے میں کیے گئے متنازعہ ریمارکس کے خلاف ایک مظاہرے کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔
نوپور نے یہ تبصرہ ٹی وی پر ایک بحث کے دوران کیاتھا۔ گیان واپی مسجد تنازعہ پر بحث ہو رہی تھی۔ بعد میں یہ ہندوستان کے خلاف ایک سفارتی مسئلہ بن گیا، جس کی وجہ سے بی جے پی نے شرما کو پارٹی سے معطل کر دیا۔
چار جون کو، پولیس نے 1000 سے زیادہ نامعلوم افراد کے خلاف تین ایف آئی آر درج کی ہیں، جن میں سے 55 کو ملزم نامزد کیا گیا ہے، جو مسلمان ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)