سال 2002 کے گجرات فسادات کےدوران بالقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے11 مجرموں کی رہائی پر یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم نے کہا ہے کہ یہ قدم انصاف کا مذاق ہے اور سزا سے بچنے کے اس پیٹرن کا حصہ ہے، جس کا ہندوستان میں اقلیت مخالف تشدد کے ملزم فائدہ اٹھاتے ہیں۔
نئی دہلی: یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کےلیے قصوروار ٹھہرائے گئے 11 افراد کی ‘غیر منصفانہ’ رہائی کی سخت مذمت کی ہے۔
کمیشن کے وائس چیئرمین ابراہم کپور نے ایک بیان میں کہا، 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری اورمسلمانوں کے قتل کے معاملے میں عمر قید کی سزاکاٹ رہے 11 افراد کی جلد اور غیر منصفانہ رہائی کی یو ایس سی آئی آر ایف شدیدطور پر مذمت کرتا ہے۔
کمیشن کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے کہا کہ رہائی ‘انصاف کا مذاق’ ہے اور ‘سزا سےبچنے کے اس پیٹرن’ کا حصہ ہے جس کا فائدہ ہندوستان میں اقلیت مخالف تشدد کے ملزم اٹھاتے ہیں۔
شنیک نے کہا، 2002 کے گجرات فسادات میں جسمانی اور جنسی تشدد کے مجرموں کو ان کے فعل کے لیے جوابدہ ٹھہرانے میں ناکامی انصاف کا مذاق ہے۔ یہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں ملوث افراد کے لیے ‘سزا سے بچنے کے پیٹرن’ کا حصہ ہے۔
سال 2008 میں 11 افراد کو اس جرم کا مجرم پایا گیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس سے قبل نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) نے سپریم کورٹ سے شکایت کی تھی کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو رپورٹ کرنے والی گجرات پولیس ملزموں کو بچا رہی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس سی بی آئی کو سونپ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نےاین ایچ آر سی کی اس درخواست سے بھی اتفاق کیا تھا، جس میں اس نے معاملے کی سماعت مہاراشٹر میں کرنے کو کہا تھا، کیونکہ گجرات حکومت میں منصفانہ شنوائی یقینی نہیں تھی۔
گزشتہ 15 اگست کو گجرات کی بی جے پی حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت عمر قید کی سزا کاٹ رہے ان تمام 11 مجرموں کی رہائی کو منظوری دی تھی ، جس کے بعد ان سب کو اسی دن گودھرا کی جیل سے رہا کر دیا گیا۔
رہائی کی سفارش کرنے والے پینل کے ایک رکن بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی نےریپسٹ کو ‘
اچھے سنسکاروں’ والا ‘برہمن’ بتایا تھا۔
سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ریپ اور قتل کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے ان لوگوں کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا جا رہا ہے۔ جس پر کارکنوں نے
شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت
6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی ہے۔
بہرحال گجرات حکومت کے اس فیصلے پر
وائبس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے بلقیس نے کہا تھا، یہ سال 2022 ہے لیکن میں وہی خوف، عدم تحفظ اور ناامیدی محسوس کر رہی ہوں جیسا 2002 میں محسوس کر رہی تھی۔ اچانک ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ بدلا ہی نہیں ہے۔ یہ 2002 جیسا ہی لگ رہا ہے۔
سال 2002 میں پیش آئے اس واقعے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑنے والی بلقیس نے کہا تھا کہ اب ان میں صبر ہے نہ ہمت۔ انہوں نے کہا، میں بہت مایوس ہوں۔ ہم ہار گئے۔
انہوں نے مزید کہا، آزادی کا دن ہمارے لیے بری خبر لے کر آیا۔ میری آزادی، حقوق، تحفظ سب چھین لیے گئے۔ میرا ہر چیز سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ اب آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی میری مدد کر سکتا ہے؟ ہاں، میں اپنی لڑائی ہار چکی ہوں۔
قصورواروں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کی
اپوزیشن جماعتوں سمیت سماجی اور شہری حقوق کے کارکنوں نے مذمت کی ہے۔
غورطلب ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔
تین مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔
بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔
خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔
بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت کرناہے۔
اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا
حکم دیا تھا۔