گزشتہ 8 ستمبر کو ہندوستان پہنچے امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی روز ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ امریکی صدر کے ساتھ آئے صحافیوں کو اس ملاقات سے دور رکھا گیا تھا۔
نئی دہلی: ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے پریس کانفرنس نہ کرنے کے فیصلے کو ہندوستانی صحافیوں نےتسلیم کرلیا ہے، لیکن جمعہ کو جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ہندوستان پہنچے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ آنے والے صحافیوں کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق، بائیڈن نے 8 ستمبر کو نئی دہلی پہنچنے کے فوراً بعد مودی کے ساتھ بند کمرے میں ملاقات کی۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ’ جس وقت وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر یہ ملاقات ہوئی ، اس وقت امریکی پریس کودونوں رہنماؤں کی نظروں سے دور ایک وین میں قید کر دیا گیا تھا-یہ ان صحافیوں اور فوٹوگرافروں کے لیے ایک غیرمعمولی صورتحال تھی جو اپنے ملک اور دنیا بھر میں امریکی صدر کے ہمراہ جاتے ہیں اور ان کی عوامی موجودگی کا مشاہدہ کرتے ہیں اوراس کو ریکارڈ کرتے ہیں۔’
امریکی محکمہ خارجہ کو کور کرنے والی روئٹرز کی خارجہ پالیسی کی رپورٹر حمیرہ پامک نے ٹوئٹ کیا کہ ‘ہندوستانی دورےپر پریس کی رسائی کے بارے میں سوال لگاتار برقرار ہیں، کیونکہ وہائٹ ہاؤس کے سرکاری پروگرام میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ شروعات میں مودی– بائیڈن ملاقات کے دوران صحافیوں کے عام گروپ کو اجازت دی جائے گی۔
Questions about press access on the India trip have been persistent, after the official White House schedule did not show that the usual pool of reporters would be allowed in for the start of the Modi-Biden meeting.
— Hümeyra Pamuk (@humeyra_pamuk) September 8, 2023
بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کے لیے ایئر فورس ون کی پرواز پر وہائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرین جیاں پیئرے نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ رہنماؤں تک رسائی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ٹرانسکرپٹ کے مطابق، ایئر فورس ون پر سوار پریس پریشان دکھائی دی کہ ایسا نہیں ہو رہا جیسا کہ وہ عام طور پر دوسرے حالات کرتے ہیں۔ امریکی پریس ٹیم کی ذمہ داری پریس سیکرٹری کیرن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کی ہے۔
کور میں پریس سے وابستہ ایک شخص نے صحافیوں کی رسائی کے بارے میں سوال کیا تھا کہ اگر یہ بہت محدود ہو گی تو وہ اس کے لیے کیا کر رہے ہیں اور اگر صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے تو بائیڈن مودی سے کیوں مل رہے ہیں۔
اس کے جواب میں سلیوان نے کہا کہ اس ملاقات کے لیے نئے پروٹوکول بنائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ ملاقات وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر ہو رہی ہو تو اس طرح سے یہ معمول کی بات نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر میں ہونے والی بیٹھکوں اور مکمل پروگرام کے ساتھ یہ آپ کا عام دو طرفہ ہندوستانی دورہ نہیں ہے۔ وہ جی – 20 کے میزبان ہیں، جو بڑی تعداد میں رہنماؤں کی میزبانی کر رہے ہیں، اور اگر ایسا وہ اپنے گھر میں کر رہے ہیں تو انہوں نے اپنے حساب سے پروٹوکول طے کیے ہیں۔’
صحافیوں کے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے پوچھا کہ کیا وہ کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں جہاں صدر بائیڈن نے صحافیوں کے گروپ کے بغیر دو طرفہ ملاقات کی ہو۔
سلیوان نے کہا،’کئی بار وہ (امریکی صدر) کثیرالجہتی اجلاسوں میں گئے اور غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ بیٹھے۔ درحقیقت، میں ان مثالوں کے بارے میں سوچ سکتا ہوں جہاں میں نے تصاویر لی ہیں کیونکہ میں ایک غیر ملکی رہنما اور صدر بائیڈن کے ساتھ کمرے میں موجود تھا۔’
لیکن میڈیا کی موجودگی کے بارے میں مسلسل سوالات کا سامنا کرتے ہوئے سلیوان نے اعتراف کیا کہ ،’ہم اسے ایک سنگین مسئلہ سمجھتے ہیں، جسے آپ لوگوں نے ہمارے ساتھ اٹھایا ہے۔ ہم اسے بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اسے انتہائی سنجیدگی سے لیتا ہوں۔ ہم وہ کر رہے ہیں جو ہم کر سکتے ہیں، لیکن آخر کار ہمیں میزبان کے ساتھ اور خاص طور پر اس کی نجی رہائش گاہ پر ان کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرتے ہوئے ان ملاقاتوں کے پیرامیٹرز اور پروٹوکول کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔’
پروٹوکول کیا کہتا ہے؟
ہندوستان میں دو طرفہ مذاکرات کرنے کے لیےنارمل پروٹوکول حیدرآباد ہاؤس کو لے کر ہے، جہاں قائدین کی ملاقات کے بعد اسی کمپلیکس کے ایک اور ہال میں میڈیا کے ساتھ محدود سوال و جواب کا سیشن ہوتا ہے۔ سوال پوچھنے کا چلن 2014 کے بعد ختم ہو گیا، لیکن پروٹوکول کے دیگر حصے کئی دہائیوں سے تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔
جب کوئی بھی دو رہنما ہندوستان میں بات چیت کے لیے بیٹھتے ہیں، تو ہندوستان کی طرف سے ایک سرکاری فوٹوگرافر اور دوسرے ملک سے ایک نمائندہ پول رپورٹر کو بلایا جاتا ہے۔ سوال نہیں پوچھے جاتےبلکہ یہ صرف ایک فوٹو آپ ہوتاہے۔ میڈیا ایڈوائزری میں بھی اسے اسی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
فطری ہے کہ ہر ملک کی اپنی پروٹوکول پریکٹس ہے۔ وہائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو اس کمرے میں آنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں دونوں رہنما بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ سوالات بھی کر سکتے ہیں۔
چونکہ ہندوستان میں ایسا کوئی پروٹوکول نہیں ہے، تو ایک بار وزارت خارجہ کے ایک سینئر اہلکار اور وہائٹ ہاؤس کے متعلقہ پریس افسر کے درمیان کھینچ تان ہوئی تھی، جو تقریباً ہاتھا پائی تک پہنچ گئی تھی۔ یہ اس وقت ہوا تھاجب وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں امریکی صدر بلکلنٹن ہندوستان آئے تھےاور اسی دوران امریکی فریق نے دونوں رہنماؤں کے بیٹھنے کے بعد ان کے صحافیوں کو بات چیت کے لیے ہال میں لانے کی کوشش کی تھی۔
حالاں کہ، وزیر اعظم کی رہائش گاہ کو کبھی کبھی سفارتی ملاقاتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن میڈیا کو وہاں کبھی مدعو نہیں کیا گیا ہے، چاہے وہ یو پی اے کے ادوار میں ہو یا 2014 کے بعد۔ شاذ و نادر موقعوں پر ہی وزیر اعظم ملک میں آنے والے معززین کو عشائیہ پر مدعو کرتے ہیں، جیسا کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اوباما فیملی کے لیے کیا تھا۔ لیکن راشٹرپتی بھون میں سرکاری عشائیہ کی طرح ہی یہ ایک محدود تقریب ہوتی ہے، جہاں کسی بھی حکومت کی طرف سے میڈیا کو لیڈروں سے سوالات کرنے کے لیے مدعو نہیں کیا جاتا۔
ڈپلومیسی کی یہ روایت رہی ہے کہ مہمان رہنما کو میزبان حکومت کے پروٹوکول پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہائٹ ہاؤس نے اس سال کے شروع میں اصرار کیا کہ وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ کے دوران وہاں کے میڈیا کے ذریعے مودی اور بائیڈن سےسوالات پوچھے جائیں گے، تو ہندوستانی فریق کے پاس رضامندی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، کیونکہ امریکہ میں یہی پروٹوکول ہے۔