صدارتی انتخابات میں کملا ہیرس کی آمد امریکی جمہوری نظام کی طاقت اور مستحکم معاشرے کی خوبصورتی کی دلیل ہے۔ ان کی ماں شیاملا 1958 میں امریکہ آئی تھیں اور صرف 66 سال بعد ان کی بیٹی اس کرہ ارض کی سب سے طاقتور مملکت کی صدر بن سکتی ہیں۔
نئی دہلی: نومبر 2024 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کا منظر نامہ تیزی سے بدلتا جا رہا ہے۔ کچھ دن پہلے تک یہ مقابلہ ڈیموکریٹ لیڈر اور موجودہ صدر جو بائیڈن اور ان کے ریپبلکن حریف ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ٹرمپ اس مقابلے میں برتری حاصل کرتے ہوئےبھی نظر آرہے تھے، لیکن جیسے ہی کملا ہیرس صدارتی عہدے کی امیدوار بنیں، منظرنامہ یکایک تبدیل ہو گیا۔
صدارتی انتخابات میں کملا ہیرس کی انٹری کیسے ہوئی؟
اس کی شروعات21 جولائی کو اس وقت ہوئی، جب بائیڈن نے ‘پارٹی اور قومی مفاد’ کا حوالہ دیتے ہوئے خود کو صدارتی عہدے کی دوڑ سے باہر کرلیا اور نائب صدر کملا ہیرس کو صدارتی امیدوار کے طور پر اپنی حمایت دینے کا اعلان کیا۔ یہ صحیح ہے کہ ڈیموکریٹ لیڈر ان پر اپنی امیدواری واپس لینے کے لیے دباؤ بنا رہے تھے، لیکن کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ بائیڈن اس طرح انتخابی مہم سے دستبردار ہو جائیں گے۔
گزشتہ 26 جولائی کو سابق امریکی صدر براک اوباما اور ان کی اہلیہ مشیل اوباما نے ڈیموکریٹ امیدوار کے طور پر کملا ہیرس کواپنی حمایت دینے کا اعلان کیا۔ امریکی ہاؤس اسپیکر نینسی پیلوسی سمیت کئی دیگر ڈیموکریٹک لیڈربھی ہیریس کی حمایت کر رہے ہیں۔
بھلے ہی کملا ہیرس اب تک باضابطہ طور پر ڈیموکریٹ امیدوار نہیں بنی ہیں، لیکن وہ واحد ڈیموکریٹ ہیں جنہیں پارٹی کے اتنے قدآور لیڈروں کی حمایت حاصل ہے۔ امیدواری کا فیصلہ7 اگست کو ڈیموکریٹ رولز کمیٹی میں کیا جائے گا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کمیٹی ہیرس کو پارٹی کا باضابطہ امیدوار بنائے گی۔
کیا واقعی کملا ہیرس نے ڈیموکریٹ پارٹی کو نئی امید دی ہے؟
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، چند روز قبل تک جو ڈیموکریٹ ایم پی صدارتی انتخابات میں شکست کے خدشات سےدوچار تھے، ان کا کہنا ہے کہ کملا ہیرس کے میدان میں آنے سے استحکام آیا ہے۔ مثال کے طور پر، مونٹانا سے ڈیموکریٹ سینیٹر جان ٹیسٹر نے اپنے ساتھیوں کو خبردار کیا تھاکہ وہ بائیڈن کے ساتھ الیکشن نہیں جیت سکتے۔ لیکن اب انہیں یقین ہے کہ وہ پورے دم خم کے ساتھ الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
اب ڈیموکریٹس کو بائیڈن کی عمر اور فٹنس وغیرہ سے متعلق سوال کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ انتخابی پلیٹ فارم پر کملا ہیرس کے نمودار ہونے سے ڈیموکریٹس کے لیے ایک امید پیدا ہوئی ہے اور انھیں بائیڈن سے بہتر آپشن تسلیم کیا جا رہا ہے۔
یہاں تک کہ نامور رائٹر سلمان رشدی نے بھی کملا ہیرس کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ واحدہستی ہیں جو ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کو آمریت کی جانب لے جانے سے روک سکتی ہیں۔
کیا کملا ہیرس ری پبلکن پارٹی اور ٹرمپ کے لیے بڑا چیلنج ہیں؟
اس سوال کا جواب بدلتی ہوئی سیاسی پیش رفت کے ساتھ بدل جائے گا۔ یہ سچ ہے کہ ہیرس کرشمائی رہنما کے طور پر نہیں جانی جاتی ہیں۔ ٹرمپ کے پاس کٹر حامیوں کا ایک طبقہ ہے، جبکہ ہیرس کے پاس نہیں ہے۔ نیز، ٹرمپ پر ہوئے جان لیواحملے نے ان کے لیے کچھ ہمدردی پیدا کر دی ہے۔ بائیڈن کے دوڑ سے باہر ہونے کے بعد 24 جولائی کو شائع ہونے والے سی این این کے سروے کے مطابق ، ٹرمپ کو 49 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے، جبکہ ہیرس کو 46 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ٹرمپ کی حمایت میں قدرے کمی آئی ہے۔ اگر کملا ہیرس امیدوار بنتی ہیں تو ٹرمپ کا عمروالا کارڈنہیں چلے گا، جسے وہ بائیڈن کے خلاف مسلسل استعمال کر رہے تھے۔بازی پلٹ بھی سکتی ہے کیونکہ ٹرمپ 78 اور ہیرس 59 سال کی ہیں۔ اب ہیرس ٹرمپ کی عمر کو ایشو بنا سکتی ہیں، کیونکہ اگر ٹرمپ جیت گئے تو وہ اب تک کے سب سے معمر امریکی صدر ہوں گے۔
کملا ہیرس کی امیدواری کا مطلب
کملا ہیرس کی والدہ شیاملا گوپالن ہندوستانی تھیں اور والد ڈونالڈ جے۔ ہیرس کا تعلق جمیکا سے تھا۔ اپنی ماں کی موت کے بعدہیرس نے ہندو روایت کے مطابق ان کی راکھ چنئی کے سمندر میں بہائی تھی۔ کملا ہیرس نے کئی بار اپنے ہندوستانی ورثے کا ذکر کیا ہے۔
ان کی امیدواری امریکی جمہوری نظام کی طاقت اور مستحکم معاشرے کی خوبصورتی کی دلیل ہے۔ شیاملا 1958 میں امریکہ آئی تھیں، اور صرف 66 سال بعد ان کی بیٹی اس کرہ ارض کی سب سے طاقتور مملکت کی صدر بن سکتی ہیں۔ اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ جنوب ایشیائی اور سیاہ فام نژاد کی پہلی خاتون صدر ہوں گی۔
سال 2019 میں دی کنورسیشن میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ امریکی آبادی میں سفید فام لوگوں کی حصے داری گھٹ رہی ہے۔ سفید فام آبادی 1950 میں 90 فیصد سے تھوڑی کم تھی جو 2018 میں 60 فیصد ہو گئی۔ یہ ممکنہ طور پر اگلے 25 سالوں میں 50 فیصد تک کم ہو جائے گی۔ 2020 میں یونائیٹیڈ اسٹیٹس سینسس بیورو کے مطابق ، امریکہ میں کثیر نسلی آبادی کل آبادی کا تقریباً 10.2 فیصد تھی۔ یہ تعداد 2010 میں 90 لاکھ سے بڑھ کر 2020 میں 338 لاکھ ہو گئی یعنی 276 فیصد کا اضافہ ہوا۔ جنوب ایشیائی امریکی کمیونٹی بھی امریکہ میں تیزی سے بڑھنے والے گروہوں میں سے ایک ہے۔ خاص طور پر ‘ایشیائی ہندوستانی’ کی آبادی 2010 میں 28 لاکھ تھی جو 2020 میں بڑھ کر 44 لاکھ ہو گئی یعنی 56 فیصدکا اضافہ ہوا۔
کملا ہیرس کی کمزور کڑیاں؟
کچھ چیزیں کملا ہیرس کے خلاف جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ بغیر دستاویز کے امریکہ میں داخل ہونے والوں کو مجرم تصور کرنے کے خلاف ہے ۔ وہ امیگریشن اور کسٹمز کے سخت قوانین کو ختم کرنے کی بھی حمایت کر چکی ہیں۔ جبکہ امریکہ میں ایک عرصے سے تارکین وطن کے خلاف ماحول بن رہا ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اسے مزید تقویت ملی۔ اس الیکشن میں بھی وہ ‘ غیر قانونی تارکین وطن’ کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں ۔
کملا ہیرس ماحولیاتی مسائل کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ سمندر میں ڈرلنگ پر پابندی کے حق میں رہی ہے۔ انہوں نے گرین نیو ڈیل کی بھی حمایت کی تھی۔ ان کے اس موقف کے خلاف ٹرمپ الیکشن میں لہر پیدا کر سکتے ہیں۔
کملا ہیرس اور عالمی سیاست
کملا ہیرس نے فلسطینی شہریوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بھی بار بار اسرائیل کی سلامتی اور دفاع کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا دفاع کیا ہے۔ دسمبر 2023 میں انہوں نے کہا تھا، ‘اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور ہم حماس کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل کے جائز فوجی مقاصد کی حمایت کرتے ہیں۔’
بائیڈن کی طرح ہیرس بھی ناٹو کی حامی رہی ہیں۔ وہ روس کے خلاف یوکرین کی ‘ دفاعی کوششوں’ کی حمایت کرتی ہیں۔ اس سال جون میں سوئٹزرلینڈ میں یوکرین کے حوالے سے ایک سربراہی کانفرنس ہوئی تھی جس میں ہیرس نے کہا تھا کہ ‘روس کی جارحیت نہ صرف یوکرین کے لوگوں کی زندگی اور آزادی پر حملہ ہے بلکہ عالمی غذائی تحفظ اور توانائی کی فراہمی پر بھی حملہ ہے۔’
ہیرس چین کے معاملے میں بائیڈن کی پالیسی پر عمل کر سکتی ہیں۔ ایشیا میں چینی اثر و رسوخ کو روکنے پر ان کی توجہ مرکوز ہو سکتی ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنس (آسیان) کے سربراہی اجلاس میں انہوں نے چین پر بحیرہ جنوبی چین میں پڑوسی ممالک کی سمندری حدود پر بے وجہ دعوے مسلط کرنے کا الزام لگایا تھا ۔
ہیرس نے تائیوان کی بھی حمایت کی ہے۔ ستمبر 2022 میں، انہوں نے کہا تھا ، ‘ہم اپنی طویل مدتی پالیسی کے مطابق تائیوان کے اپنے دفاع کی حمایت جاری رکھیں گے۔’