ڈونالڈ ٹرمپ کا ’جنگ بندی‘ کا دعویٰ؛ ایران نے تصدیق کی، اسرائیل اب بھی خاموش

ایران کے امریکی ایئربیس پر حملے کے چند گھنٹے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔ ایران نے اس کی تصدیق کی ہے، لیکن اسرائیل کی خاموشی شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے کہا ہے کہ ابھی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔

ایران کے امریکی ایئربیس پر حملے کے چند گھنٹے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔ ایران نے اس کی تصدیق کی ہے، لیکن اسرائیل کی خاموشی شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے کہا ہے کہ ابھی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ (تصویر بہ شکریہ: وہائٹ ہاؤس)

نئی دہلی: ایران کی جانب سے قطر میں امریکی فضائیہ کے اڈے پر حملے کے چند گھنٹے بعد  امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران اور اسرائیل ‘مکمل جنگ بندی’ پر رضامند ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ایران نے اس جنگ بندی کی تصدیق کی ہے، تاہم اسرائیل کی جانب سے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا، ‘سب کو مبارکاد!’ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک ‘اپنا آخری مشن مکمل کرلینے کے بعد’ جنگ بندی پر عملدرآمد کریں گے۔

ٹرمپ نے لکھا، ‘ایران باضابطہ طور پر پہلے جنگ بندی کا آغاز کرے گا، اور بارہویں گھنٹے پر اسرائیل بھی جنگ بندی شروع کرے گا، اور چوبیسویں گھنٹے پر دنیا اس 12 روزہ جنگ کے باضابطہ خاتمے کو سلام کرے گی۔’

انہوں نے مزید لکھا، ‘یہ فرض کرتے ہوئے کہ سب کچھ ٹھیک سے چلے گا – جو کہ چلےگا ہی – میں اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے صبر، ہمت اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنے پر اسرائیل اور ایران دونوں ممالک کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ اس جنگ کو ‘دی 12 ڈے وار’ کہا جانا چاہیے۔

روئٹرزکی رپورٹ کے مطابق، ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات کی اور ان کی ٹیم ایرانی حکام سے رابطے میں  تھی۔

ٹرمپ نے ایک اور پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل اور ایران تقریباً ایک ہی وقت میں ان کے پاس آئے اور امن کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے لکھا، ‘اسرائیل اور ایران تقریباً ایک ہی وقت میں میرے پاس آئے اور کہا – ‘امن!’ میں جانتا تھا کہ وقت آگیا ہے۔ دنیا اور مشرق وسطیٰ ہی حقیقی فاتح ہیں! دونوں ممالک  کواپنے مستقبل میں بے پناہ محبت، امن اور خوشحالی ملے گی۔ ان کے پاس حاصل کرنے کو بہت کچھ ہے ،اور اگر وہ حق اور راستی کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں تو بہت کھونے کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ اسرائیل اور ایران کا مستقبل لامحدود ہے… گاڈ بلیس!’

تاہم اسرائیل نے ابھی تک ٹرمپ کے اعلان کی تصدیق نہیں کی ہے۔

اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے میزائل حملے بدستور جاری ہیں اور ان میں تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ حملے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے طور پر ہوئے ہیں یا نہیں۔

دوسری جانب ایران نے منگل کی صبح سرکاری ٹیلی ویژن پر جنگ بندی کا باضابطہ اعلان کیا۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اس رپورٹ کے شائع ہونے سے دو گھنٹے قبل ایکس پر لکھا  کہ ابھی تک جنگ بندی پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے لکھا،’جیسا کہ ایران نے بارہا واضح کیا ہے؛ جنگ اسرائیل نے ایران کے خلاف شروع کی تھی، نہ کہ ایران نے اسرائیل پر۔ اب تک کسی جنگ بندی یا فوجی کارروائیوں کو روکنے کا کوئی ‘معاہدہ’ نہیں ہوا ہے۔ تاہم، اگر اسرائیلی حکومت تہران کے وقت کے مطابق صبح 4 بجے تک ایرانی عوام کے خلاف اپنی غیر قانونی جارحیت بند کر دیتی ہے، تو ہمارا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔’

انہوں نے مزید لکھا کہ ‘ہماری فوجی کارروائیوں کو ختم کرنے کا حتمی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔’

عراقچی نے ایک اور ایکس پوسٹ میں لکھا کہ اسرائیلی جارحیت کو سزا دینے کے لیے ایران کا فوجی آپریشن ‘صبح 4 بجے تک، آخری لمحے تک’ جاری رہا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ‘میں اپنی بہادر مسلح افواج کا شکریہ ادا کرنے میں تمام ایرانیوں کے ساتھ شامل ہوں، جو اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنے پیارے ملک کے دفاع کے لیے تیار ہیں، اور جنہوں نے دشمن کے ہر حملے کا آخری دم تک جواب دیا’۔

بتادیں کہ قطر میں امریکی ایئربیس پر ایران کا حملہ امریکہ کی جانب سے ایران کے تین جوہری اڈوں پر میزائل حملے کے جواب میں ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے گزشتہ ہفتے ایران پر حملہ کیا تھا جس کے بعد یہ سارا تنازعہ شروع ہوا تھا۔

Next Article

جے این یو اسٹوڈنٹ نجیب کی گمشدگی کے معاملے میں کلوزر رپورٹ کو عدالت کی منظوری، کہا – سی بی آئی کی جانچ میں کوئی کمی نہیں

جے این یو کے طالبعلم نجیب احمد کی گمشدگی کےتقریباً آٹھ سال بعد دہلی کی ایک عدالت نے اس معاملے میں سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو اس کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔ نجیب 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہیں۔

نجیب احمد کے اہل خانہ معاملے کی تحقیقات میں تیزی کا مطالبہ کرتے ہوئے ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے سوموار (30 جون) کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم نجیب احمد کے معاملے میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی جانب سے دائر کی گئی کلوزر رپورٹ کو منظور کر لیا ہے ۔ نجیب 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہیں۔

ستائیس سالہ نجیب احمد جے این یو ہاسٹل سے لاپتہ ہوئے تھے۔ لاپتہ ہونے سے ایک دن پہلے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی) کے کچھ ارکان کے ساتھ ان کی مبینہ جھڑپ ہوئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، راؤز ایونیو کورٹ کے ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری نے کہا، ‘ہاسٹل انتخابات جیسے حساس ماحول اور جے این یو جیسے کیمپس میں اس طرح کی جھڑپ اور بحث ومباحثہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، لیکن صرف اس بنیاد پر یہ سمجھنا مناسب نہیں ہے کہ نوجوان طالبعلم کسی ساتھی طالبعلم کو غائب کرنے جیسا قدم اٹھا سکتے ہیں ، خاص طور پر جب ریکارڈ پر ایساکوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔’

سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کرتے ہوئے عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔

عدالت نے کہا، ‘یہ عدالت اس ماں کے درد کو سمجھتی ہے جو 2016 سے اپنے بیٹے کی تلاش میں ہے، لیکن اس معاملے میں جانچ ایجنسی یعنی سی بی آئی کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں کوئی لاپرواہی نہیں پائی گئی ہے۔ ہر مجرمانہ تفتیش کی بنیاد سچائی کی تلاش ہوتی ہے، لیکن بعض معاملات میں تمام تر کوششوں کے باوجود تحقیقات کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ پاتی ہیں۔’

معلوم ہو کہ سی بی آئی نے اس معاملے میں سال 2018 میں کلوزر رپورٹ داخل کی تھی ، جس کے خلاف نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس نے عدالت میں عرضی داخل کی تھی ۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ سی بی آئی نے نو مشتبہ افراد کے کردار کی صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی۔

سی بی آئی نے عدالت کو بتایا کہ مشتبہ افراد کے کال ڈیٹیل ریکارڈ کی جانچ کی گئی لیکن نجیب کی گمشدگی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا،’اگرچہ 14 اکتوبر 2016 کی رات نجیب احمد کے ساتھ مارپیٹ اور دھمکیوں کے الزامات گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتے ہیں، لیکن ریکارڈ پر ان واقعات اور 15 اکتوبر 2016 کو ان کے لاپتہ ہونے کے واقعے سے متعلق کوئی براہ راست یا قرائنی شہادت ریکارڈ میں نہیں ہیں۔’

معلوم ہو کہ نجیب 15 اکتوبر 2016 کو جے این یو کے ماہی مانڈوی ہاسٹل سے غائب ہوئے تھے ۔ واقعہ سے ایک رات قبل ان کا اے بی وی پی سے وابستہ کچھ طلبہ کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔ جب واقعہ کے سات ماہ گزرنے کے بعد بھی دہلی پولیس کو اس معاملے میں کوئی جانکاری نہیں ملی تو ہائی کورٹ نے 16 مئی 2017 کو کیس کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی ۔

تاہم، بعد میں سی بی آئی نےشواہد کے فقدان کے باعث معاملے کی جانچ بند کر دی تھی۔

Next Article

بہار: تیجسوی یادو نے ووٹر لسٹ کے رویژن کو لے کر الیکشن کمیشن کی منشا پر سوال اٹھائے

بہار اسمبلی انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن شروع کیا ہے۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے کمیشن کی منشا پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی نظرثانی ہے، جہاں ہر ہفتے نئے آرڈر آتے ہیں اور پرانے آرڈر بدل دیےجاتے ہیں؟ کیا کمیشن  خود ہی طے نہیں کر پا رہا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟

آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو۔تصویر بہ شکریہ: ایکس /تیجسوی یادو

نئی دہلی: بہار اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن شروع کیا ہے ، جس میں 2003 کے بعد شامل ووٹروں سے شہریت کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت تمام رائے دہندگان کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کی تصدیق کی جائے گی۔

الیکشن کمیشن کی اس مہم نے بہار میں ایک بڑی سیاسی بحث چھیڑ دی ہے۔ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے الیکشن کمیشن کی منشا پر سوال اٹھائے ہیں۔

ایکس پر ایک طویل پوسٹ میں انہوں نے کہا، ‘ہم دیکھ رہے ہیں کہ ووٹر لسٹ اسپیشل انٹینسیو ریویژن 2025 کے نام پر بہار میں ایک ایسی مہم چلائی جا رہی ہے، جو پوری طرح سےکنفیوژن، غیر یقینی اور جابرانہ رویے سے بھری ہوئی ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ 27 جون کو ان کی پریس کانفرنس کے بعد سے اب تک الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کی اس خصوصی مہم کے دوران کئی بار رہنما خطوط تبدیل کیے ہیں، کبھی اہلیت کی تاریخ میں تبدیلی، کبھی دستاویز کی نوعیت میں تبدیلی، کبھی عمل کی مدت میں تبدیلی۔

انہوں نے سوال کیا کہ ‘یہ کیسا ریویو ہے، جہاں ہر ہفتے نئے آرڈر آتے ہیں اور پرانے آرڈر تبدیل کیے جاتے ہیں؟ کیا کمیشن خود ہی طے نہیں کر پا رہا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ کیا اس ساری مہم کا پلان کسی سیاسی جماعت کے ساتھ شیئر کیا گیا؟ کیا کوئی آل پارٹی میٹنگ ہوئی؟ کیا یہ یکطرفہ اور خفیہ انتخابی ‘صفاف صفائی’ نہیں ہے؟

کمیشن اور اس کے عزائم سوالوں کی زد میں

یادو نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن بہار میں ووٹروں کی گہرائی سے نظرثانی کیوں کر رہا ہے اس کے پیچھے دیے گئے دلائل، انہیں پڑھنے کے بعد کمیشن اور اس کے ارادے سوالوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘کمیشن کا کہنا ہے کہ رائے دہندگان کی آخری بار نظرثانی سال 2003 میں کی گئی تھی، اس کے بعد ریاست میں شہرکاری، معلومات کا وقت پر اپڈیٹ نہ ہونا اور فرضی اور غیر ملکی شہریوں کے ناموں کا فہرست میں اندراج جیسے مسائل سامنے آئے۔ ایسے میں کمیشن نے ایک بار پھر پوری ریاست میں اسپیشل انٹینسو ریویژن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیے گئے پروگرام کے مطابق، نظر ثانی کا کام 1 جولائی 2025 کی اہلیت کی تاریخ کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شہرکاری، معلومات کا وقت پراپڈیٹ نہ ہونا اور فہرست میں فرضی اور غیر ملکی شہریوں کے نام درج ہونے جیسے مسائل کی وجہ سے ووٹر لسٹ کی مکمل نظرثانی کرنا ضروری ہو گیا ہے تو پھر یہ عمل ایک دو سال پہلے کیوں شروع نہیں کیا گیا تاکہ افراتفری نہ ہو۔  بہار اسمبلی کا الیکشن نومبر 2025 میں ہو جانا ہے تو الیکشن سے دو ماہ قبل صرف 25 دنوں کے اندر اس طرح کی مکمل نظر ثانی کیسے ممکن ہوگی؟

یادو نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے کہ بی ایل او ووٹر کی رہائش گاہ پر تین بار جائیں گے۔ اگر ووٹر دیے گئے پتے پر نہیں ملا تو اس کا نام ووٹر لسٹ سے حذف کر دیا جائے گا۔ مکمل نظرثانی کے لیے ووٹرز کا خود موجود ہونا ضروری ہے۔

بہار کے لوگوں کے پاس مانگے گئے 11 دستاویز نہیں ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ ‘کمیشن کے اس اصول کا شکار وہ لوگ ہوں گے جو اپنی روزی کمانے کے لیے طویل یا مختصر مدت کے لیے گھر سے دور چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ عام طور پر انتخابات کے وقت اپنے گاؤں-گھر لوٹتے ہیں۔ ووٹ ڈالتے ہیں۔  کچھ دن  چھٹیاں مناتے ہیں۔ پھر وہ اپنے کام پر لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو فزیکل ویری فکیشن کے دوران ہی ووٹر لسٹ سے خارج کر دیا جائے گا۔ انہیں کاغذات دکھانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی غریب آدمی اپنا کام چھوڑ کر دوسری ریاست سے گھر آکر ووٹنگ کے لیے اپنی تصدیق کروائے۔ ایسے لوگوں میں قبائلی، دلت، پسماندہ اور اقلیتی برادریوں کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔’

آر جے ڈی لیڈر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جو 11 دستاویز مانگے گئے ہیں وہ بہار کے لوگوں کے پاس نہیں ہیں اور دیے گئے دلائل ’بے حسی‘ کو ظاہر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘2 دسمبر 2004 کے بعد کے ووٹروں کو اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ اپنے والدین  کا شناختی کارڈ بھی جمع کرانا ہوگا۔ آدھار کارڈ اور راشن کارڈ شناختی کارڈ کے طور پر قابل قبول نہیں ہوگا۔’

انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن کی جانب سے 11 دستاویز کو تسلیم کیا گیا ہے جنہیں دستیاب کرایا جا سکتا ہے۔ اب میں الیکشن کمیشن، بہار حکومت اور حکومت ہند سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ بہار میں ان 11 دستاویز کا فیصد کتنا ہے؟’

انہوں نے ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ وقت کی حد پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ 26 جولائی تک بی ایل او کو ہر ووٹر کے گھر گھر جاکر گنتی کے فارم کی تقسیم، جمع اور گھر گھر تصدیق کرنا ہوگی۔ لیکن 6 دن گزر جانے کے بعد بھی 99.99 فیصد مقامات پر یہ عمل شروع نہیں ہوا۔ اب 19 دن رہ گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہار میں مانسون نے زور پکڑ لیا ہے۔ ندیوں میں پانی کی سطح بڑھ گئی ہے۔ لوگوں نے ندی کے ساحلی علاقوں سے محفوظ مقامات کی تلاش شروع کر دی ہے۔ بہار کا 73 فیصد علاقہ سیلاب سے متاثر ہے۔ ان علاقوں میں دلت/پسماندہ/انتہائی پسماندہ اور اقلیتی طبقے کے زیادہ تر لوگ رہتے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ خصوصی نظرثانی کا عمل ووٹر لسٹ سے ان کے نام نکالنے کی سازش ہے؟

Next Article

نیویارک سٹی کے میئر  کے عہدے کے امیدوار ظہران ممدانی نے ٹرمپ کی دھمکی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا

نیویارک سٹی کے میئر کے عہدےکے ڈیموکریٹک امیدوار ظہران ممدانی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے گرفتاری اور ملک بدری کی دھمکی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ممدانی نے کہا کہ وہ امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ کو خوف و ہراس پھیلانے سے روکیں گے اور ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ظہران ممدانی اور ڈونالڈ ٹرمپ (فوٹو: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: نیویارک سٹی کے میئر کے عہدے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ظہران ممدانی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو کرارا جواب دیا ہے۔ ٹرمپ نے انہیں گرفتار کرنے اور ملک سے ڈی پورٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے بعد ممدانی نے کہا  کہ اگر وہ میئر منتخب ہوئے توآئی سی ای (امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ) کو غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنے سے روکیں گے۔

اس کے جواب میں ٹرمپ نے ممدانی کی شہریت پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ وہ انہیں گرفتار کروا  دیں گے۔

ظہران ممدانی مشہور ہندوستانی فلمساز میرا نائر کے بیٹے ہیں۔ وہ 1998 میں سات سال کی عمر میں یوگانڈا سے امریکہ آئے تھے۔

ٹرمپ کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئےممدانی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ​​ٹوئٹر) پر لکھا؛

ریاستہائے متحدہ کے صدر نے مجھے گرفتار کرنے، میری شہریت چھیننے، مجھے حراستی مرکز میں ڈالنے اور ملک بدر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ میں نے کوئی قانون توڑا ہے، بلکہ اس لیے کہ میں آئی سی ای کو ہمارے شہر میں ڈرپھیلانے کی اجازت نہیں دوں گا۔

انہوں نے مزید کہا؛

ان کے بیانات صرف ہماری جمہوریت پر حملہ نہیں ہیں، بلکہ نیویارک کے ہر شہری کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہے جو ڈر کر چھپنا نہیں چاہتے: اگر آپ بولیں گے تو وہ آپ کے پیچھے آئیں گے۔ ہم ڈرانے کی اس کوشش کو قبول نہیں کریں گے۔

ممدانی نے نیویارک کے موجودہ میئر ایرک ایڈمز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، ان پر الزام لگایا کہ وہ ٹرمپ جیسی ‘تفرقہ، گمراہ کن اور نفرت انگیز سیاست’ پر عمل پیرا ہیں۔

ممدانی نے لکھا، ‘نیویارک کے ووٹرز نومبر میں اس کا زوردار جواب دیں گے۔’

ایرک ایڈمز نومبر میں آزاد امیدوار کے طور پر دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب ممدانی نے ڈیموکریٹک پارٹی کے باضابطہ امیدوار کے طور پر نامزدگی حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کوومو کو شکست دی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ٹرمپ نے ممدانی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس سے قبل بھی صدر ٹرمپ نے انہیں ‘کمیونسٹ’ اور ‘پاگل’ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر ممدانی میئر بنے تو انہیں ‘صحیح طریقے سے کام’ کرنا پڑے گا، ورنہ نیویارک کو ملنے والی وفاقی فنڈنگ ​​روک دی جائے گی۔

Next Article

چھ ماہ بعد بھی ہندوستان نے اڈانی کو امریکی سمن نہیں سونپا: ایس ای سی نے نیویارک کی عدالت کو دی جانکاری

یو ایس سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے نیویارک کی ایک عدالت کو بتایا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے ابھی تک گوتم اور ساگر اڈانی کو سمن نہیں سونپا ہے، حالانکہ چھ ماہ قبل ہیگ کنونشن کے تحت ہندوستانی وزارت قانون سے اس کی باقاعدہ درخواست کی گئی تھی۔

گوتم اڈانی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: یو ایس سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) نے 27 جون کو نیویارک میں ایک فیڈرل کورٹ کو مطلع کیا کہ ہندوستانی حکومت نے اب تک ارب پتی گوتم اڈانی اور ان کے بھتیجے ساگر اڈانی کو سمن بھیجنے کا عمل مکمل نہیں کیا ہے، جبکہ اس کے لیے بین الاقوامی معاہدے کے تحت تقریباً چھ ماہ قبل ہندوستان سے رابطہ کیا گیا تھا۔

گزشتہ 27 جون کو لکھے گئے خط میں ایس ای سی نے اس سال کی  تیسری اسٹیٹس رپورٹ عدالت کو سونپی۔ اس سے قبل فروری اور اپریل میں بھی کمیشن نے اپڈیٹیڈ رپورٹس پیش کی تھیں۔ ایس ای سی نے بتایا کہ اس نے ہیگ کنونشن کے آرٹیکل 5(اے) کے تحت ہندوستان کی وزارت قانون سے ہندوستان میں اڈانی برادران کو سمن اور شکایتی خطوط بھیجنے کے لیے مدد طلب کی تھی۔

تاہم، ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ ہندوستانی حکام نے یہ دستاویز اڈانی خاندان تک پہنچائے ہیں۔

نیویارک کی ایسٹرن ڈسٹرکٹ کورٹ میں داخل کی گئی اپنی اسٹیٹس رپورٹ میں ایس ای سی نے لکھا، ‘اپریل کی اسٹیٹس رپورٹ کے بعد سے، ایس ای سی نے ہندوستان کے وزارت قانون سے متعلقہ ہندوستانی حکام کے ذریعےمدعا علیہان (گوتم اڈانی اور ساگر اڈانی) کو سمن اور خطوط سونپنے کی کوششوں کے بارے میں خط و کتابت کی ہے، لیکن یہ کام ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔’

اپریل میں سونپی گئی اپنی پچھلی رپورٹ میں ایس ای سی نے کہا تھا کہ ہندوستان کی قانون و انصاف کی وزارت نے کمیشن کی درخواست کی وصولیابی کی تصدیق کی ہے اور اسے متعلقہ عدالتی حکام کو بھیج دیا گیا تھا۔

یہ قانونی عمل گزشتہ سال نومبر میں شروع کیے گئے فوجداری اور دیوانی مقدمات سے متعلق ہے۔

امریکی محکمہ انصاف (یو ایس ڈپارٹمنٹ آف جسٹس)نے تب گوتم اڈانی، ان کے بھتیجے ساگر اڈانی، اڈانی گرین انرجی کے سابق سی ای او ونیت جین، ہندوستانی قابل تجدید ذرائع کمپنی ازیورپاور کے دو سابق ایگزیکٹوز اور کینیڈین پنشن فنڈسی ڈی پی کیوکے تین سابق ایگزیکٹوز پر  2020 اور 2024 کے درمیان ہندوستانی حکومت کے عہدیداروں کو250 ملین ڈالر سے زائد کی رشوت دے کرشمسی توانائی کے منصوبوں کے معاہدے کو حاصل کرنے کا الزام لگایا تھا۔

وہیں، یو ایس سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے گوتم اڈانی اور ساگر اڈانی کے خلاف ایک سول معاملہ دائر کیا، جس میں ان پر امریکی قوانین کی متعدد انسداد فراڈ دفعات کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔

فوجداری اور دیوانی مقدمات کے دستاویز منظر عام پر آنے کے دو دن بعد 22 نومبر کو نیویارک کی وفاقی عدالت نے ایس ای سی کیس میں گوتم اڈانی اور ساگر اڈانی کو سمن جاری کیا تھا۔ تاہم، ابھی تک سمن کی تعمیل نہیں ہوئی ہے۔

Next Article

جموں و کشمیر: ٹیچر کو دہشت گرد کہنے پر عدالت نے زی نیوز، نیوز 18 اور دیگر چینلوں کے خلاف کیس درج کرنے کو کہا

عدالت نے زی نیوز، نیوز  18 اور  دیگر نیوز چینلوں کے ادارتی عملے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو کہا ہے، جنہوں نے مقامی مدرسے کے استاد کو غلط طریقے سے ‘پاکستانی دہشت گرد’ قرار تھا ۔ عدالت نے اسے صحافت کی معمولی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے ہوئی گولہ باری کے بعد جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں ایک گھر کا منظر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

سری نگر: ایک عدالت نے جموں و کشمیر پولیس کو زی نیوز، نیوز 18 اور دیگر نامعلوم ٹی وی نیوز چینلوں کے مدیران اور اینکروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ان چینلوں نے گزشتہ ماہ ہندوپاک فوجی تنازعہ کے دوران ایک مدرسے کے استاد کو غلط طور پر ‘پاکستانی دہشت گرد’ قرار دیا تھا، جبکہ ایک المناک واقعے میں ان کی موت ہوئی تھی۔

سنیچر (28 جون) کو سب-جج شفیق احمد کی عدالت نے کہا کہ ملزمان کی جانب سے مانگی گئی معافی ‘ان کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں کر سکتی۔’ یہ رپورٹنگ ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ہندوستان نے پاکستان اور پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف ‘آپریشن سیندور’ شروع کیا تھا اور ریاست میں کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔

عدالت نے جموں و کشمیر پولیس کو بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 353(2) (عوامی انتشار)، 356 (ہتک عزت) اور 196(1) (مذہبی گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت اورساتھ ہی انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ، 2000 کی دفعہ 66 (کمپیوٹر کے ذریعے بے ایمانی یا دھوکے سے کی گئی حرکت ) کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کو کہا ہے۔

ایف آئی آر درج کرنے کا حکم ‘کچھ نیوز اینکروں اور قومی ٹی وی میڈیا چینلوں زی نیوز، نیوز 18 وغیرہ کے ادارتی عملے کے خلاف دیا گیا ہے، جنہوں نے پونچھ ضلع کے جامعہ ضیاء العلوم میں استاد کے طور پر کام کرنے والے قاری محمد اقبال کی موت کے بعد گمراہ کن رپورٹنگ کی تھی ۔

اقبال 7 مئی کی صبح اس وقت ہلاک ہو گئے جب وہ طلباء کے کھانے کے لیے کریانہ کی خریداری کر رہے تھے اوراسی دوروان  پاکستان کی جانب سے کی گئی توپوں کی گولہ باری میں مارے گئے۔

ٹی وی چینلوں نے کیا دکھایا تھا؟

دی وائر قاری محمد اقبال کی موت کی اطلاع دینے والے پہلے میڈیا اداروں میں شامل تھا ، جو آپریشن سیندور کے بعد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر پاکستان کی طرف سے کی گئی شدید گولہ باری  میں پونچھ ضلع میں مارے گئے 12 افراد میں شامل تھے۔

کچھ قومی میڈیا چینلوں نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ اقبال ایک ‘پاکستانی دہشت گرد’ تھا جس کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ سے تھا، اور ان کی موت کو سکیورٹی فورسز کی ‘کامیابی’ کے طور پر پیش کیا۔

ریپبلک ورلڈ نے اقبال کو ‘اعلیٰ لشکر کمانڈر’ قرار دیا جو ‘پلوامہ سمیت کئی بڑے دہشت گرد حملوں میں ملوث تھا۔’ سی این این نیوز 18نے انہیں ‘لشکر کا دہشت گرد’ قرار دیا جبکہ زی نیوزنے انہیں ‘آپریشن سیندور’ میں مارا گیا ‘دہشت گرد’ بتایا۔

تاہم، پونچھ کے مقامی باشندوں نے، جو اقبال کو ذاتی طور پر جانتے تھے، ان جھوٹے الزامات کے خلاف احتجاج کیا۔ اس کے بعد، جموں و کشمیر پولیس نے ایک ایڈوائزری  جاری کرتے ہوئے ‘معزز مذہبی شخصیت’ کے بارے میں غلط بیانی کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کی وارننگ دی۔

پولیس ایڈوائزری میں کہا گیا ،’اس طرح کے حساس واقعات کی غلط رپورٹنگ نہ صرف غیر ضروری خوف و ہراس پھیلاتی ہے بلکہ اس سے متوفی کے وقار اور سوگوار خاندان کے جذبات کی بھی توہین ہوتی ہے۔’ جس کی وجہ سے متعلقہ میڈیا چینلوں کو معافی مانگنی پڑی۔

عدالت نے پونچھ پولیس کو آرڈر دیا

عدالت نے سنیچر کو پونچھ پولیس کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے میں ‘منصفانہ اورآزاد تفتیش’ کرے۔ اس کے ساتھ ہی پونچھ تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو بھی سات دنوں کے اندر تعمیل رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت کی گئی۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ پریس کی آزادی ‘جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہے اور آئین کے آرٹیکل 19(1)(اے) کے تحت محفوظ ہے’، لیکن یہ آزادی آرٹیکل 19(2) کے تحت ہتک عزت، امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات کی بنیاد پر معقول پابندیوں کے تابع بھی ہے۔’

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ‘اس معاملے میں مقامی مذہبی ادارے کے مقتول استاد کو ‘پاکستانی دہشت گرد’ کہنا، وہ بھی بغیر کسی تصدیق کے اور ہندوپاک جنگ جیسی حساس صورتحال میں – اسےصرف صحافت کی معمولی غلطی کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا۔’ عدالت نے کہا کہ یہ میڈیا اداروں کی ‘اخلاقی اور آئینی ذمہ داری’ ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ کو ‘درست، غیر جانبدارانہ اور صداقت پر مبنی ‘ رکھیں۔

‘آزادی صحافت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی ہتک آمیز یا گمراہ کن مواد شائع کرنے کا لائسنس مل گیا ہے۔ جب ایسی رپورٹنگ کسی فرد یا معاشرے کو شدید نقصان پہنچاتی ہے تو اس سے قانون کے مطابق نمٹا جانا چاہیے۔’ عدالت نے ریمارکس دئیے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ملزمین کی گمراہ کن رپورٹنگ نے متوفی کے خاندان کو ذہنی اذیت دی ہے، مدرسے کی شبیہ کو داغدار کیا ہے اور جموں و کشمیر کی اکثریتی مسلم کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

قبل ازیں، پونچھ سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیٹ شیخ محمد سلیم نے بھارتیہ نیائےسنہتا کی دفعہ 175(3) کے تحت عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس میں پونچھ کے ایس ایچ او کو ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت  دینےکی درخواست کی گئی تھی۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے  یہاں کلک کریں ۔)