صنعتکار گوتم اڈانی پر امریکہ میں رشوت خوری کے الزام کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر اڈانی کو تحفظ دینے کا الزام لگاتے ہوئے سی بی آئی اور جے پی سی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ وہیں، بی جے پی نے کانگریس کو الزامات کو لے کر سپریم کورٹ جانےکی صلاح دی ہے۔
نئی دہلی: صنعتکار گوتم اڈانی پر امریکی سرمایہ کاروں کے ساتھ دھوکہ دہی کا الزام لگاہے ، جس کے باعث ہندوستان میں سیاسی ہنگامہ برپا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے جمعرات کو اڈانی گروپ کے خلاف الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور امریکی اٹارنی آفس نے صنعتکار گوتم اڈانی پر ‘بڑے پیمانے پر رشوت خوری ‘ کا الزام لگایا ہے اور گوتم اڈانی کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے اڈانی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور الزام لگایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی انہیں بچارہے ہیں۔
بتادیں کہ اس سے پہلے بھی راہل گاندھی اور کانگریس وزیر اعظم اور بی جے پی حکومت پر اڈانی گروپ کو تحفظ دینے اور ان کی فرم کو ہندوستان اور بیرون ملک سرکاری ٹھیکے حاصل کرنے میں مدد کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی نے کہا، ‘ اب یہ امریکہ میں بالکل واضح ہو چکا ہے کہ اڈانی نے امریکی اور ہندوستانی قوانین کو توڑا ہے۔ ان پر امریکہ میں الزام لگایا گیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ اڈانی آج بھی اس ملک میں آزاد کیوں گھوم رہے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ اڈانی پر کوئی تحقیقات نہیں ہو رہی ہے۔ ہم اس مسئلے کو مسلسل اٹھاتے آ رہے ہیں۔
وہیں، کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے اس معاملے کی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) کی تحقیقات پر زور دیا اور کہا کہ اس کی مکمل تحقیقات کے لیے فوری طور پر جے پی سی تشکیل دی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس اڈانی گروپ کے لین دین کی تحقیقات کے لیے جے پی سی کی تشکیل کا مسلسل مطالبہ کرتی رہی ہے۔ کیونکہ ان کے لین دین ہندوستانی معیشت کے کلیدی شعبوں میں اجارہ داری کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے پڑوس میں خارجہ پالیسی کے لیے خصوصی طور پر بڑےمسائل پیدا کر رہے ہیں۔
وہیں، امریکہ میں اڈانی کے خلاف فرد جرم کے پس منظر میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سینئر رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ نے دعوی کیا کہ اڈانی گروپ نے دہلی کے پاور سیکٹر میں بھی داخل ہونے کی کوشش کی تھی، لیکن اس وقت کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال انہیں روک دیا تھا۔
ایک پریس کانفرنس میں سنگھ نے دعویٰ کیا کہ اڈانی گرین انرجی نے غیر اخلاقی طریقوں سے کئی ریاستوں بشمول گجرات، مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش اور راجستھان میں بجلی کی فراہمی کے ٹھیکےحاصل کیے ہیں۔
سی پی آئی (ایم) نے سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کیا
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے جمعرات (21 نومبر) کو کہا کہ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو صنعتکار گوتم اڈانی کے خلاف ہندوستان میں سرکاری عہدیداروں کومبینہ طور پر رشوت دینے کے لیے امریکہ میں پراسیکیوشن کی طرف سے فراہم کردہ مواد کی بنیاد پر فوری طور پر مقدمہ درج کرنے کی ہدایات دی جانی چاہیے۔
سی پی آئی (ایم) نے ایک بیان میں کہا،’یہ شرمناک ہے کہ اڈانی کی جانب سے سرکاری افسران کو اتنے بڑے پیمانے پر رشوت دینے اور انہیں اپنے ماتحت کرنے کا معاملہ ہندوستان میں نہیں بلکہ امریکہ میں ان کے مجرمانہ نظام عدل کے ذریعے بے نقاب ہوا۔’
بیان میں وزیر اعظم نریندر مودی پر صنعتکار کو بچانے کا الزام لگایا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘وزیر اعظم مودی نے خود اڈانی کو ہنڈنبرگ کیس میں لگائے گئے الزامات پر کسی بھی تحقیقات یا قانونی کارروائی سے بچایا تھا۔’
سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے کہا کہ فرد جرم نہ صرف اڈانی اور اس کی کاروباری سلطنت کی ذاتی سالمیت پر سوال اٹھاتی ہے بلکہ ہندوستانی نگرانوں اور انتظامیہ کی سالمیت کے بارے میں بھی سوال اٹھاتی ہے جس کے تحت اس طرح کے غیر اخلاقی عمل پروان چڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ،’سازگار پالیسیوں سے لے کر ہائی پروفائل انفراسٹرکچر سودوں تک، وزیر اعظم مودی کی ملی بھگت کے بارے میں وسیع پیمانے پر عوامی تاثر پایا جاتا ہے۔ تمام الزامات کی تحقیقات کے بار بار کیے جانے والے مطالبات – چاہے وہ رشوت خوری، اسٹاک میں ہیرا پھیری یا ریگولیٹری ناکامیوں سے متعلق ہوں – مودی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔صرف غیر جانبدارانہ تحقیقات سے ہی حقیقت سامنے آسکتی ہے۔’
سی پی آئی (ایم ایل) کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے کہا کہ اگر مودی حکومت فوری تحقیقات کا حکم نہیں دیتی ہے تو سپریم کورٹ آف انڈیا کو اس سنگین فرد جرم کا از خود نوٹس لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ہندوستان کی بین الاقوامی امیج اور ہندوستان کی گھریلو معیشت کے مفاد پر بہت برا اثر پڑے گا۔ بھٹاچاریہ نے سیبی کی چیئرپرسن مادھبی پوری بچ کو بھی فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا، جن پر اڈانی کی بے قاعدگیوں سے منسلک ہونے کا الزام ہے۔
بی جے پی نے عدالت جانے کا چیلنج دیا
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جمعرات (21 نومبر) کو کہا کہ کانگریس کو صرف میڈیا میں اس معاملے کو اٹھانے کے بجائے اڈانی گروپ کی کمپنی سے متعلق الزامات کے ساتھ عدالت سے رجوع کرنا چاہیے ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ امریکی عدالتی دستاویز میں مذکور چار ہندوستانی ریاستوں میں سے کسی میں بھی اس مدت کے دوران بی جے پی کی حکومت نہیں تھی۔
بی جے پی ترجمان سمبت پاترا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ‘جس طرح (کانگریس ایم پی) راہل گاندھی کسی معاملے کو سنسنی خیز بنانے کے لیے بیان دیتے ہیں، یہ ہندوستان کی حفاظت کرنے والے ڈھانچے پر حملہ کرنے کی کوشش ہے۔’
پاترا نے کہا کہ جن ریاستوں کو فرد جرم میں نامزد کیا گیا ہے وہ چھتیس گڑھ، اڑیسہ، تمل ناڈو، جموں و کشمیر اور آندھرا پردیش ہیں، اور اڈانی گروپ کے خلاف امریکی الزامات میں جن چار ریاستوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی میں بھی اس مدت کے دوران بی جے پی کا وزیر اعلیٰ نہیں تھا۔
پاترا نے کہا، ‘گاندھی نے آج کہا کہ مودی اڈانی کے پیچھے ہیں۔ ایسے میں چھتیس گڑھ میں کانگریس کی بھوپیش بگھیل حکومت نے اڈانی کی کمپنی سے 25000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کیوں قبول کی؟ اڈانی کمپنی کو راجستھان میں اشوک گہلوت حکومت میں 65000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی – کیوں؟ کرناٹک میں، جہاں کانگریس اب بھی اقتدار میں ہے، ایک لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا، ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ اس میں سے کتنا کام ہوا ہے۔’
پاترا نے کہا کہ مغربی بنگال میں اسی گروپ نے 35000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ آندھرا پردیش میں یہ 60000 کروڑ روپے تھی اور تمل ناڈو میں یہ 4500 کروڑ روپے تھی۔
انہوں نے کہا، ’19 اکتوبر 2024 کو اڈانی فاؤنڈیشن نے کانگریس حکومت کے زیر اقتدار تلنگانہ میں ہنر کی ترقی کے لیے 100 کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔ آپ نے وہ چندہ ایک ‘کرپٹ’ شخص سے کیوں لیا؟ انہوں نے کہا کہ جنوری 2024 میں تلنگانہ حکومت نے اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے ساتھ ایک مفاہمت نامے پر دستخط کیے تھے جن کی مالیت 12400 کروڑ روپے تھی۔
تاہم، پاترا نے جموں و کشمیر کا نام نہیں لیا، جہاں مرکز کی حکومت تھی۔
جگن موہن ریڈی 1750 کروڑ روپے کی رشوت کے لیے ‘غیر ملکی اہلکار’ 1 کے نشانے پر
رپورٹ کے مطابق ، ارب پتی صنعتکار گوتم اڈانی کے خلاف امریکی اٹارنی کے دفتر کے مجرمانہ فرد جرم میں ایک ‘غیر ملکی آفیشل نمبر 1’ کا ذکر ہے، جس پر اڈانی گروپ سے مبینہ طور پر 1750 کروڑ روپے کی رشوت لینے کا الزام ہے۔
فرد جرم کی عوامی کاپی میں کئی ناموں اور اداروں کے نام خفیہ رکھے گئے ہیں، جن میں سے ایک ‘فارن آفیشل نمبر 1’ ہے۔ فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ نمبر 1 ہندوستان کا شہری ہے جو ہندوستان میں رہتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ‘تقریباً مئی 2019 سے جون 2024 تک، غیر ملکی اہلکار نمبر 1 نےہندوستان کے آندھرا پردیش کے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے طور پر کام کیا۔’
جون 2024 میں آندھرا پردیش میں حکومت بدل گئی، جگن موہن ریڈی اقتدار سے باہر ہو گئے اور چندر بابو نائیڈو کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔
فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ اڈانی نے ‘ایس ای سی آئی اور آندھرا پردیش کی ریاستی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے درمیان پی ایس اےکے کام کو آگے بڑھانے کے لیے آندھرا پردیش میں غیر ملکی عہدیدار نمبر 1 سے ذاتی طور پر ملاقات کی،جس میں 7 اگست 2021 یا اس کے آس پاس 12 ستمبر 2021 کو یا اس کے آس پاس اور 20 نومبر، 2021 یا اس کے آس پاس ملاقات شامل ہے۔’
فرد جرم میں کہا گیا ہے،’تقریباً 1750 کروڑ روپے (تقریباً 228 ملین ڈالر) کی بدعنوان ادائیگیاں غیر ملکی سرکاری نمبر 1 کو کی گئیں، جس کے بدلے میں غیر ملکی سرکاری نمبر 1 نے آندھرا پردیش کی ریاستی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو مینوفیکچرنگ لنکڈ پروجیکٹ کے تحت ایس ای سی آئی سے سات گیگا واٹ شمسی توانائی خریدنے کے لیے راضی کر لیا۔’
فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ آندھرا پردیش کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے1 دسمبر 2021 کو یا اس کے آس پاس ایس ای سی آئی کے ساتھ پی ایس اے(یا بجلی کی فراہمی کا معاہدہ) کیا، جس کے مطابق ریاست نے تقریباً سات گیگا واٹ شمسی توانائی خریدنے کی رضامندی دی – جو کسی بھی ہندوستانی ریاست یا علاقے کے مقابلے میں اب تک کی سب سے بڑی مقدار ہے۔
ایس ای سی آئی یا سولر انرجی کارپوریشن آف انڈیا نریندر مودی کی حکومت والی حکومت ہند کے تحت نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت کی ایک کمپنی تھی۔
اس کے بعد وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ آندھرا پردیش ڈسکام اور اڈانی گروپ کے درمیان کوئی براہ راست معاہدہ نہیں ہواہے۔ اس لیے اڈانی کے خلاف فرد جرم کے پیش نظر ریاستی حکومت پر لگائے گئے الزامات غلط ہیں۔