اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی کا کہنا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کے حل کے بعد ایسے اور مسئلے اٹھ کھڑے ہوںگے کیونکہ ملک میں ایسے گیارہ اور متنازعہ مقامات ہیں۔ اس لئے آباواجداد کی غلطیاں سدھارتے ہوئے مسلمانوں کو ملک میں امن و آشتی کے لئے ان کو ہندوؤں کو دے دینا چاہیے۔
اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے صدر وسیم رضوی(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے سوموار کو کہا کہ مسلمانوں کو اپنے آباواجداد کی غلطیاں سدھارنے کے لئے تمام متنازعہ مقامات پر اپنا دعویٰ چھوڑکر ان کو ہندوؤں کو دے دینا چاہیے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، رضوی نے کہا کہ سنیوں کے متنازعہ مقامات پر نماز پڑھنے کی اجازت مانگے جانے کے بعد اس طرح کی اپیل کی ضرورت لگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس طرح کے تمام مدعے حل نہیں ہوئے تو ایودھیا مدعا حل ہونے کے بعد اس طرح کے اور مسئلے کھڑے ہو جائیںگے۔
رضوی نے یہ اپیل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کے ذریعے کی ہے۔ اس اپیل میں رضوی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ متھرا، وارانسی اور جونپور سمیت ملک بھر میں 11 ایسے متنازعہ مقامات ہیں۔ رضوی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جب مسجد بنانے کے لئے توڑی گئی سبھی چرچ کی تعمیرنو کی گئی ہے، اب وقت ہے کہ مندروں کی زمین واپس کی جائے جو مغلوں کے ذریعے لے لی گئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا، ‘ جو مسجدیں مندروں کی جگہ بنائی گئی ہیں، ان کو ہندوؤں کو دے دیا جانا چاہیے۔ ہمیں آباواجداد کی غلطیوں کو سدھارنا چاہیے، پورے ملک میں سکون قائم کرنا چاہیے۔ ‘ انڈین ایکسپریس سے سوموار کو بات کرتے ہوئے رضوی نے کہا، ‘ سنیوں کے ان متنازعہ مقامات، جہاں مسجدیں بنی ہیں، میں نماز پڑھے جانے کی اجازت مانگنے کی پیشکش کے بعد اس اپیل کی ضرورت تھی لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے۔ رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ کا حل تلاش کرنا کوئی حل نہیں ہے کیونکہ ایسے اور مسئلے اٹھ کھڑے ہوںگے۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘ کیونکہ 11 ایسے بڑے مقامات ہیں جہاں مبینہ طور پر مندروں کو توڑکر مسجدیں بنائی گئی تھیں۔ چونکہ ان متنازعہ مقامات پر نماز کی اجازت نہیں ہے، میں نے اسلام کے ماننے والوں سے اپیل کی کہ آباواجداد کی غلطیاں سدھارنے کے لئے وہ یہ جگہوں کو ہندوؤں کو سونپ دیں۔ ‘
غور طلب ہے کہ وسیم رضوی پر 2016 سے وقف کی زمین کے غیر قانونی مختص اور غلط استعمال کے چار مجرمانہ معاملے درج ہیں، جن میں ایک لکھنؤ، ایک الٰہ آباد اور دو معاملے رام پور میں چل رہے ہیں۔ حال ہی میں اترپردیش حکومت کے ذریعے مرکزی حکومت سے شیعہ اور سنی وقف بورڈ اور ان کے صدور کے خلاف وقف کی زمین کے غلط استعمال اور بدانتظامی کے الزامات کی سی بی آئی جانچ کرنے کی سفارش بھیجی گئی ہے۔
واضح ہو کہ سپریم کورٹ میں چل رہے ایودھیا معاملے میں کوئی شیعہ فریق نہیں ہے۔ 16 اکتوبر کو عدالت میں چل رہی سماعت کے آخری دن
دی وائر نے بتایا تھا کہ اس معاملے کے کلیدی مسلم فریق سنی وقف بورڈ نے آئینی بنچ کو صلح نامہ کے بارے میں بتایا تھا کہ اگر مرکز کے ذریعے ان کی کچھ شرطیں مانی جاتی ہیں، تو وہ معاملے میں اپنی اپیل واپس لے سکتے ہیں۔
اس صلح نامہ میں ہندوستان کی سبھی مسجدوں کی پختہ حفاظت، ایودھیا کی 22 مسجدوں کی تعمیرنو، بابری مسجد کے عوض میں کسی اور جگہ پر مسجد بنانے کی اجازت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ ساتھ ہی،موجودہ وقت میں اے ایس آئی کے تحفظ والی کچھ تاریخی مسجدوں میں عبادت کے امکان کی بات بھی کی گئی ہے۔ حالانکہ اس کے بعد سنی وقف بورڈ نے اس صلح نامہ سے خود کو الگ کرتے ہوئے معاملے کے تمام مسلم فریقین نے سپریم کورٹ میں اپنا
بیان داخل کر کے کہا تھا کہ انہوں نے متنازعہ زمین سے اپنا دعویٰ واپس نہیں لیا ہے اور وہ اس کو قبول نہیں کرتےہیں۔