یوپی: کیا ’ٹھوک دو‘ کے اصول پر عمل پیرا حکومت کے راج میں عام آدمی جرائم سے زیادہ محفوظ ہو گیا ہے؟

03:51 PM Sep 19, 2024 | کرشن پرتاپ سنگھ

یوگی حکومت کے سات سالوں میں اتر پردیش میں جرائم کے خاتمے کے کئی بلند و بانگ دعوے کے باوجود ایسے پولیس ‘انکاؤنٹر’ کی ضرورت ختم نہیں ہو رہی جہاں فرار ہونے کی مبینہ کوشش میں ملزم کو مار گرایا جاتا ہے۔ یا پولیس جس کو زندہ گرفتار کرنا چاہتی ہے، گولی اس کے پاؤں میں لگتی ہے، ورنہ

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

کون ذات ہو بھائی؟ … نہیں ، مطلب کس میں آتے ہو؟…مجھے لگا، ہندو میں آتے ہو! …آتا  ہوں نا صاب ! پر آپ کے چناؤ میں۔ … پر آپ کے چناؤ میں… پر آپ کے چناؤ میں۔

دلت شاعر بچہ لال ’اُنمیش‘ کی مشہور زمانہ  نظم کی یہ سطریں اتر پردیش اسمبلی کی دس نشستوں کے لیے ہونے والے ضمنی انتخابات سے پہلے کئی حلقوں میں بار بار یاد کی جا رہی ہیں- اگرچہ قدرے بدلے ہوئے سیاق سباق  میں۔ ویسے، جب بھی اس ریاست میں کوئی الیکشن ہوتا ہے تو ذات پات کو میدان میں لا کر اسے نسلی  جنگ میں بدلنے کی کامیاب یا ناکام  کوششیں کی ہی جاتی ہیں۔

لیکن جیسا کہ شاعر— کہانی کار پریہ درشن نے بہت پہلے اس نظم کے سلسلے میں اپنے ایک تبصرے میں لکھا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس  نظم کی سطروں کا یاد آنا ریاست کے عوام کی سوئی ہوئی شرم کو جگاپائے گایا نہیں۔ جگابھی پائے گا تو کتنی دیر کے لیے؟

مارے جانے والوں کی ذات

اس سلسلے میں سب سے غورطلب  بات یہ ہے کہ ‘یہ  بدلا ہوا سیاق و سباق’ ایسے لوگوں کی ذات کا نہیں ہے، جن سے پوچھا جاسکے کہ ‘کس میں آتے ہو’، تو وہ اس کا جواب دے پائے۔ ان کی ذات کا بھی نہیں ہے، جو مرمر کر جینے کو ملعون ہیں۔ زندہ رہنے کی جدوجہد میں ہر قدم پر سینکڑوں بار مرنے کو مجبور ہو رہےلوگوں کی ذات کابھی نہیں ہے۔ان کی ذات کا  ہے، جنہیں اتر پردیش پولیس نے پچھلے سات سالوں میں اصلی یا نقلی  انکاؤنٹر میں مار گرایا ہے۔

بہت سے لوگ اتر پردیش کویوں ہی ‘پرشن پردیش’ تھوڑے ہی کہتے ہیں۔ ضرورت محسوس ہو تو وہ مارے جا چکے  لوگوں کی ذات کے سوالوں میں بھی الجھ سکتا ہے- ہاں، انہیں الجھا بھی سکتا ہے- اور  زندگی اور موت کا سوال بنے چکے ضمنی انتخابات کے وقت ایسی ضرورت نہیں  ہوگی توپھر کب ہوگی؟

ایسے میں یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ اس سوال میں وہ بھی الجھے ہوئے ہیں جو ذات پر مبنی مردم شماری چاہتے ہیں اور وہ بھی جو ذات پر مبنی مردم شماری نہیں چاہتے ۔ دوسرے لفظوں میں حکمران جماعت اور اپوزیشن دونوں۔ یہاں تک کہ  وہ بھی جو کہتے رہے ہیں کہ جو  مارے گئے ،وہ  مجرم تھے اور مجرموں کی کوئی ذات نہیں ہوتی ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

الزام تراشیوں  کے ایک طویل سلسلے میں ان کی طرف سے کہیں  یا ان کی جانب  سے باقاعدہ  مختلف اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ  جو مارے گئے ، ان  میں کون سی ذات  کے زیادہ ہیں- اونچی ذات سے یا دلت اور پسماندہ ذات سے؟ حکمراں پارٹی یہ دعویٰ کرنے سے بھی باز نہیں آرہی ہے کہ ان انکاؤنٹر میں اس کی پولیس نے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کی ذات یا ان کے ہندو ووٹ بینک کے ‘شکار’ میں  بھی کوئی رعایت نہیں برتی  ہے۔

ہاں یہ حوالہ ان معنوں میں ذات کے ساتھ مذاہب یا ‘ہندو مسلم’ کا بھی بن گیا ہے کہ متعلقہ فریق یہ بھی بتا رہے ہیں کہ مارے جانے والوں میں کتنے ہندو اور کتنے مسلمان ہیں اور کس  کی تعداد کم یا زیادہ  ہے۔

چونکہ ضمنی انتخابات قریب ہیں، تو اس تناظر کو سیاست سے جڑنا یوں بھی ضروری تھا،مارے جانے والوں کے خاندانوں اور پیاروں سے ہمدردی ذات اور مذہب کی بنیاد پرہونا بھی ضروری تھا۔

سب سے بڑا سوال

لیکن اس جگل بندی میں سب سے بڑا اور اہم سوال حاشیے میں  چلا گیا ہے کہ مذکورہ انکاؤنٹروں میں اورن-سورن، اگڑے پچھڑے یا ہندو مسلم جو بھی مارے گئے، وہ مارے ہی کیوں گئے؟

قرون وسطیٰ کے انصاف اور اخلاقیات کے خود ساختہ حامی (جو دال بھات میں  موسل چند  یعنی بیچ میں دخل اندازی کرنے والوں کی طرح کہہ رہے ہیں کہ وہ خونخوار غنڈے، مافیا یا مجرم تھے اور پولیس یا دوسروں کے لیے خطرہ بن جا نے کی وجہ سے اپنے جینے کا حق کھو چکے تھے۔ ) کی مان بھی لیں تو سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ان  عام لوگوں کی زندگیاں بھی قدرے محفوظ ہو گئی ہیں،جس کی یقین دہانی کے نام پر 2017 سے جمہوری نظام انصاف کومنھ چڑا کر’ٹھوک  دینے‘ کےآمرانہ پولیسنگ کا سلسلہ چلایا  جارہا ہے؟

اس کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سات سالوں میں ریاست میں جرائم کے خاتمے کے کئی بلند و بانگ دعوے کے باوجود اس طرح کے پولیس انکاؤنٹر کی ضرورت ختم نہیں ہو رہی ہے اور یہ دلیل ‘پولیس کی پسندیدہ دلیل’ ہے کہ جو شخص مرا،اس کوجوابی فائرنگ میں اس وقت  مارا گیا ،جب وہ ان پر گولی چلا کر یا رائفلیں چھین کر فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی گولی، جسے وہ زندہ گرفتار کرنا چاہتی ہے، اس کی ٹانگ میں لگتی ہے ورنہ… ایسی صورت حال میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ عام لوگ زیادہ محفوظ محسوس کر رہے ہیں؟

یہاں تک کہ اقتدار کے نشے  میں ڈوبےبی جے پی والے بھی امن و امان سے متعلق پابندیوں پر عمل نہیں کررہے ہیں۔ یہ سطریں لکھنے تک، اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر لکھیم پور کھیری میں ایک کوآپریٹو سوسائٹی کے انتخابات میں بی جے پی ایم ایل اے منجو تیاگی کے ذریعے مبینہ طور پر ایس ڈی ایم کے سامنےہی  اپوزیشن  امیدواروں کے پرچے لوٹ لینے کا ویڈیو چل رہا ہے، جس میں ایک اعلیٰ اہلکار ایک دوسرے کا منھ تاکتے نظر آ رہے ہیں۔

ریاست کے 2022 کے اسمبلی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ یوگی جی ریاست میں ایسا رام راجیہ لائے ہیں کہ اب 16 سال کی لڑکی بھی زیورات پہن کر 12 بجے رات میں سڑکوں پر بے خوف گھوم سکتی ہے، لیکن اس کے  دو سال بعد بھی ایسا ’رام راجیہ‘  ہےکہ ان لڑکیوں کی لاشیں بھی پھندوں سے لٹکی پائی جا رہی ہیں ، جن کے پاس پہننے کو زیور ہوتے ہی نہیں۔

دوسری طرف زیورات ہیں کہ پرہجوم بازاروں اور صرافوں کے اداروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ رات کی کون کہے دن میں بھی نہیں اور حفاظتی انتظامات کے باوجود۔ کم از کم سلطان پور میں ہوئی ڈکیتی تو یہی بتاتی ہے۔

خواتین کے خلاف جرائم کے قومی کمیشن برائے خواتین کے اعدادوشمار میں نہ صرف ریاست اب بھی سرفہرست ہے بلکہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادوشمار بھی کچھ مختلف نہیں بتاتے۔ حالانکہ ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ‘آپریشن کنویکشن’ کر کے پکڑے گئے مجرموں کو سزا دینے میں ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے۔

ان تمام باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ سات سال سے جاری ‘ٹھوک دو’ کس قدر بے بس اور بے لذت گناہ ہے۔ اس گناہ کا کوئی ‘حاصل’ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس نے نہ صرف ریاست کی پولیس بلکہ پورے حکمران نظام کو جرائم پر قابو پانے اور انصاف کے تمام جمہوری اور عدالتی اصولوں  کو آنکھ دکھانے کا عادی بنا دیا ہے۔

پولیس کا کردار

ایسے میں وہ کیسےیاد رکھیں کہ چونکہ ہر مجرم بالآخر نظام کی پیداوار  ہوتاہے اس لیے اس کے خوفناک ہونے کی سب سے بڑی ذمہ داری خود نظام پر عائد ہوتی ہے اور ریاست کا موجودہ حکمراں نظام بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس کا جرم اس لحاظ سے بہت بڑا ہے کہ وہ اپنی انا میں یہ تسلیم  بھی نہیں کرتا کہ اس کی پولیس جو ان دنوں اس کی  شہ  پر ‘انکاؤنٹر بہادر’ بن گئی ہےاس کا آزادی سے پہلے سے  ایک خاص قسم کا جاگیردارانہ اور اشرافیہ پسند طبقاتی کردار ہے   اور پولیس اصلاحات کی عدم موجودگی میں یہ ابھی تک اس سے آزاد نہیں ہو سکی ہے۔

مزید یہ کہ اس کی بے گناہوں کے ساتھ نقلی انکاؤنٹر کی’ روایت‘ اس نظامِ حکمرانی سے بہت پرانی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو  دلت، مظلوم، محروم اور اقلیتی طبقے نئے پرانے جاگیرداروں، پولیس اور جرائم پیشہ افراد سب کی کارگزاریوں کی سب سے زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں ، پولیس کے ذریعے مجرم قرار دیے جانے کے بعد  انکاؤنٹر میں مارے جانے والے نوجوانوں کا تعلق بھی انہی  طبقے سے زیادہ ہے۔کئی بار وہ پولیس کے مظالم کے خلاف مزاحمت کی قیمت بھی چکاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی جان و مال کی حفاظت کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔

یاد کیجیے، اس سے پہلے ایک وقت تھا جب ہم مجرموں کی اصلاح کی بات کرتے تھے، جیلوں کو بھی اصلاح گاہوں میں بدلنے کی بات کرتے تھے، اور انصاف کا معیار یہ تھا کہ اگر سو مجرم بھی آزاد ہو جائیں تو بھی ایک بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔اب اگر سارا زور انہیں یا ان کے نام پر کسی کو بھی ٹھوک دینے پر دیا جا رہا ہے – ان کی ہلاکت پر – اور بات اس ‘دلیل’ تک پہنچا دی  گئی ہے کہ ٹھوک نہ دیتے  تو وہ جانیں کس  کس کوٹھوک دیتے، تو کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ پچھلے سالوں میں اس ‘ٹھوک دو’ نے مجرموں میں کتنا خوف پیدا کیا ہے؟

’اپنوں‘ پر مہربانی!

مارے جانے والے ‘مجرموں’ کی جگہ لینے کے لیے دوسرے مجرم آگے جا رہے ہیں تو کیا  انہیں مارنے والے نظام کے علاوہ  کون ہے ،جس کو اس کا جوابدہ ٹھہرایا جائے اوراس سے کہا جائے کہ جرائم  کا خاتمہ مجرموں کو مارنے یا ان کو سخت ترین سزا دینے سے نہیں، ان کے اسباب کو دور کرنے سے ہی ممکن ہے۔ استحصال، امتیازی سلوک اور عدم مساوات پر مبنی سماجی نظام اور اقتدار اپنے گریبان میں  جھانک کر اور خود کو بدلے بغیر جرائم کے خاتمے کے بارے میں کیسے مطمئن ہو سکتے ہیں؟

خاص طور پر جب وہرہ کمیٹی نے دہائیوں پہلے اشارہ کر دیا  ہےکہ سیاست دانوں، نوکرشاہوں اور مجرموں کا گٹھ جوڑ اب اورمضبوط ہو چکا ہے اور ‘پرایے’ مجرموں پر بے رحم حکومتیں اور سیاسی جماعتیں ‘اپنے’ مجرموں پر اس قدر مہربانی کرنے لگی  ہیں کہ وہ ایوان کی ’زینت ‘میں بھی اضافہ کرنے لگے ہیں۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)