گزشتہ 26 جنوری کو دہلی میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران غیرمصدقہ خبریں نشر کرنے کےالزام میں کانگریس رہنما ششی تھرور،صحافی راجدیپ سردیسائی، مرنال پانڈے اور چار دیگر صحافیوں کے خلاف سیڈیشن کی دفعات میں معاملہ درج ہوا ہے۔ انہی لوگوں کے خلاف مدھیہ پردیش کی بھوپال پولیس نے بھی کیس درج کیا ہے۔
ششی تھرور، راجدیپ سردیسائی اور مرنال پانڈے۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: اتر پردیش پولیس نے کانگریس رہنما ششی تھرور، انڈیا ٹو ڈے کے صحافی راجدیپ سردیسائی، نیشنل ہیرالڈ کی سینئر صلاح کار ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آواز کے ایڈیٹرظفر آغا، د ی کارواں میگزین کےایڈیٹر اوربانی پریش ناتھ، دی کارواں کےایڈیٹر اننت ناتھ اور اس کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ونود کے جوس سمیت ایک نامعلوم شخص کے خلاف سیڈیشن قانون کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
گزشتہ 26 جنوری کو دہلی میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ(ریلی)کے دوران غیر مصدقہ خبریں نشر کرنے کے الزام میں ان کے خلاف سیڈیشن کی دفعات میں معاملہ درج ہوا ہے۔اس سلسلے میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزمین نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ کے ذریعے تشدد کو بھڑکایا تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ پولیس پر کیے گئے بڑے پیمانے پر ہوئے حملے کی وجہ سے سینکڑوں پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ اس کے باوجود ملزمین نے منظم طریقے سےفرضی خبرنشرکیا،جس میں الزام لگایا گیا کہ پولیس نے ایک شخص کو گولی ماری، جس سے اس کی موت ہو گئی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا،‘یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھاتاکہ یہ مختلف کمیونٹی کے بیچ بڑے پیمانے پر دنگا اور فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ بنے۔’ یہ بھی کہا گیا کہ ان کے ٹوئٹ کی وجہ سے ترنگے کی جگہ پر لال قلعے پرمذہبی جھنڈے اور دیگر جھنڈے پھہرائے گئے۔
ایف آئی آر میں آگے کہا گیا، ‘ان کے ان کاموں نے ہندوستانی جمہوریہ کے خلاف بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی۔ کمیونٹی کے بیچ دشمنی اور تشدد کا بیج بونے اوردنگا جیسےحالات پیدا کرنے کی کوشش کی۔’دراصل نوئیڈا کے ارپت مشراکی شکایت کی بنیاد پر سی آر پی سی کی دفعہ 154 کے تحت یہ ایف آئی آر نوئیڈا سیکٹر 20 پولیس تھانے میں درج کی گئی ہے۔
ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ153اے (مختلف کمیونٹی کے بیچ مذہب اورکاسٹ کی بنیاد پر دشمنی کو بڑھانا)، 153بی (قومی سالمیت پر منفی اثر ڈالنے والے الزام)، 295اے (مذہنی جذبات کو مجروح کرنا)، 298 (کسی شخص کےمذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مقصد سے کہے گئے لفظ)، 504(بدامنی کے ارادے سے جان بوجھ کرتوہین کرنا)، 506(مجرمانہ طور پر دھمکی دینا)، 502 (ہتک کرنے والی مطبوعہ یا نقش شدہ مواد کی فروخت)، 124اے (سیڈیشن)، 34(یکساں ارادے سے کیا گیا مجرمانہ فعل)اور 120بی(مجرمانہ سازش کے لیے سزا)اور آئی ٹی کی دفعہ 66 (کمپیوٹرسے متعلق جرم )کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔
گزشتہ 26 جنوری کو آئی ٹی او کراسنگ پر ایک نوجوان کی موت کو لےکر کیے گئے ٹوئٹ پر ان سب کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔
ان ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ کسان کی موت ٹریکٹر ریلی کے دوران دہلی پولیس کی گولی سے ہوئی۔ بعد میں دہلی پولیس نے اس واقعہ کا سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کرکے کہا کہ ٹریکٹر پر سوار نوجوان کی موت توازن بگڑنے سے ٹریکٹر کے پلٹنے کے حادثے میں ہوئی۔
ایک
نیوز رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ معاملہ یوپی میں درج کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس معاملے کا دائرہ اختیار دہلی تھا۔
ایک ماہر قانون کے مطابق، ‘اس معاملے میں جو دفعات لگائی گئی ہیں، وہ قابل دست اندازی ہیں۔ یوپی پولیس شاید یہ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ معاملے کو کہیں بھی درج کرایا جا سکتا ہے اور پھر اس معاملے کو بعد میں اس دائرہ اختیار کی پولیس کو منتقل کیا جائےگا۔’
ٹائمس آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق،جمعرات کو ہی مدھیہ پردیش کی بھوپال پولیس نے انہی لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ153(کمیونٹی کے بیچ دشمنی بڑھانا)کے تحت کیس درج کیا تھا۔ شکایت میں الزام لگایا گیا تھا کہ کسانوں کی ریلی کے دوران ان لوگوں کے ذریعے کیے گئے جھوٹے اور گمراہ کن ٹوئٹ کی وجہ سے قومی سلامتی کو شدید خطرہ پیدا ہوا۔
یہ کیس بھوپال کے کشل نگر کے رہنے والے سنجے رگھوونشی کی جانب سے کی گئی شکایت کی بنیاد پر درج کیا گیا ہے۔ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے صحافیوں کے خلاف دونوں پولیس فورسز کی جانب سے کیس درج کرنے کی مذمت کی ہے۔
گلڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے، ‘26 جنوری کو دہلی میں کسانوں کے احتجاج سے متعلق رپورٹنگ کے لیے اتر پردیش اور مدھیہ پردیش پولیس نے سینئر صحافیوں کے خلاف جس طرح سے ایف آئی آر درج کی ہے، اس کی ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا مذمت کرتا ہے۔ گلڈ ان ایف آئی آر کو ڈرانے دھمکانے، پریشان کرنے اور آزاد میڈیا کو دبانے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہے۔’
مرکزی حکومت کے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں نے 26 جنوری کو کسان رہنما راکیش ٹکیت، درشن پال اور گرنام سنگھ چڈھونی سمیت کئی کسان رہنماؤں کی قیادت میں ٹریکٹر ریلی نکالی تھی۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے بیچ جھڑپ ہوئی، جس میں تقریباً 400 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
کارواں نے اپنے سلسلےوار ٹوئٹس میں دعویٰ کیا تھا کہ ایک عینی شاہد نے کہا تھا کہ اس نے پولیس کو مظاہرین پر فائرنگ کرتے دیکھا تھا۔اس ٹوئٹ میں کہا گیا تھا، ‘ایک عینی شاہد نے د ی کارواں کو بتایا ہے کہ اس نے پولیس کو آندھرا ایجو کیشن سوسائٹی کی گرل کے پیچھے سے فائرنگ کرتے دیکھا تھا۔’
ابھی تک ان ٹوئٹ کو دی کارواں کی جانب سے نہ ہی ڈی لٹ کیا گیا ہے اور نہ ہی واپس لیا گیا ہے۔
صحافی راجدیپ سردیسائی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا، ‘آئی ٹی اوپر مبینہ طورپر پولیس کی گولی باری میں نونیت سنگھ نام کے 45 سال کے ایک شخص کی موت ہو گئی۔ کسانوں نے مجھے بتایا کہ قربانی رائیگاں نہیں جائےگی۔’
حالانکہ،پولیس کی جانب سے ویڈیو ریلیز ہونے کے منٹوں بعد ہی سردیسائی نے اپنا بیان واپس لیتے ہوئے کہا، ‘کسان مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ نونیت سنگھ ٹریکٹر پر تھا اور دہلی پولیس نے اسے گولی ماری۔ ویڈیو میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ پولیس بیریکیڈ توڑنے کی کوشش کرتے وقت ٹریکٹر پلٹ گیا۔ مظاہرین کا دعویٰ اب نہیں ٹھہرتا، پوسٹ مارٹم کا انتظار ہے۔’
دی وائر کو پتہ چلا ہے کہ انہوں نے انڈیا ٹو ڈے کے دو شو میں بھی اس سی سی ٹی وی فوٹیج پر بات کی تھی۔اس معاملے پر ظفر آغا کا ٹوئٹ نہیں مل سکا۔
بتا دیں کہ
انڈیا ٹو ڈے نے ٹوئٹ کے لیے راجدیپ سردیسائی کو دو ہفتوں کے لیے انہیں آف ایئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کے ایک مہینے کی تنخواہ میں بھی کٹوتی کی جائےگی۔پولیس نے ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشدد کے سلسلےمیں 37 کسان رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا، ‘یہ دعویٰ کہ پولیس نے جان بوجھ کر ایک شخص کو گولی ماری، اس سے مختلف کمیونٹی میں ڈر اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کر سکتا ہے اور اس طرح کے حساس وقت میں یہ قومی اتحاد کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔’
ایف آئی آر میں کہا گیا،‘یہ ٹوئٹ(صحافیوں کے ذریعے)بڑی تعداد میں لوگوں کو فارورڈ کیے گئے اور اس سے ملک کے نظم ونسق پرمنفی اثر پڑا اس لیے ان گمراہ کن ٹوئٹ کو ہٹاناضروری ہے۔’
اس معاملے میں شکایت درج کرانے والے نے کہا، ‘میں نے دیکھا ہے کہ ان سب لوگوں نے افواہ پھیلائی۔ ایسے وقت میں جب یوم جمہوریہ کی پریڈ ہو رہی تھی، ان لوگوں نے کہا کہ کسی نے بے قصور شخص کو گولی ماری اور حقیقت میں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پتہ چلا کہ ٹریکٹر کے حادثے کا شکار ہونے سے یہ واقعہ ہوا۔ جن لوگوں کے خلاف میں نے شکایت درج کرائی ہے، انہوں نے سوشل میڈیا اور لائیو ٹیلی ویژن فیڈ کے ذریعے یہ افواہ پھیلائی۔’
حالانکہ شکایت گزارنے کہا کہ انہیں امید نہیں تھی کہ ان سب کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ درج ہوگا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)