آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کے خلاف مظفر نگر کے اسکول کے مسلمان طالبعلم کو ساتھی طالبعلموں کے ذریعے زدوکوب کرنے سے متعلق ویڈیو شیئر کرکے طالبعلم کی شناخت ظاہر کرنے کے الزام میں کیس درج کیا گیا ہے۔ زبیر نے اس کو ‘بدلے کی سیاست’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے این سی پی آر کے کہنے کے بعد مذکورہ ویڈیو ہٹا دیا تھا۔
نئی دہلی: اترپردیش پولیس نے مظفر نگر میں ایک مسلم طالبعلم کا ویڈیو شیئر کرنے کے لیے فیکٹ چیکر اور آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
زبیر نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے ویڈیو ہٹاتے ہوئےٹوئٹر پر اپنے فالوورز کو اس بارے میں مطلع کیا تھا، اس کے باوجود ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ایف آئی آر میں زبیر پر واقعے کاویڈیو آن لائن شیئر کرکے لڑکے کی شناخت کو اجاگر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
جس گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اسی گاؤں کے وشنودت کی شکایت پر منصور پور پولیس اسٹیشن میں 28 اگست کی صبح ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
زبیر پر جوینائل جسٹس (بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ) ایکٹ 2015 کی دفعہ 74 کے تحت الزام لگایا گیا ہے، جس میں چھ مہینے تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 25 اگست کو زبیر نے متاثرہ طالبعلم کے والد کا ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ انہوں نے دوسرے طالبعلموں کے ذریعے اپنے بیٹے کو مارنے کے لیے ٹیچر کے خلاف پولیس میں شکایت درج نہیں کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
زبیر کے ٹوئٹ سے نہ صرف اس شخص کی شناخت ظاہر ہوئی بلکہ اس کے نابالغ بیٹے کی شناخت بھی اجاگر ہوگئی۔ تاہم، چند گھنٹوں بعد زبیر نے ویڈیو کو ہٹا دیا تھا، جب این سی پی سی آر نے لوگوں سے ویڈیو شیئر نہ کرنے کے لیے کہا اور انہیں متنبہ کیا کہ لڑکے کی پہچان کو ظاہر کرنا ایک جرم تھا۔
زبیر کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سےحیران ہیں کہ اس ویڈیو کو صحافیوں اور سیاستدانوں سمیت ہزاروں لوگوں نے بڑے پیمانے پر شیئر کیاتھا، لیکن پولیس نے ان کے ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کرنے کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کا انتخاب کیا۔
زبیر نے دی وائر کو بتایا،’ذاتی طور پر کہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ انتقامی سیاست ہے۔ جیسے ہی این سی پی آر نے لوگوں سے ویڈیو شیئر نہ کرنے کو کہا، میں نے ویڈیو کو ہٹا دیا اور یہ بات اپنی ٹائم لائن پر بھی بتا دی۔ مجھ سے پہلے اور بعد میں بہت سے دوسرے ٹی وی چینلوں اور اینکروں نےیہی ویڈیو چلایا ہے۔’
اس سلسلے میں تھانہ منصورپور کے ایس ایچ او کو کیے گئے فون کا جواب نہیں ملا۔
زبیر کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے ابھی تک ان سے رابطہ نہیں کیا گیا ہے اور وہ اس معاملے میں قانونی صلاح لے رہے ہیں۔
معلوم ہو کہ سوشل میڈیا پر سامنے آئے اس واقعے سے متعلق ایک ویڈیو میں اتر پردیش کے مظفر نگر کے ایک پرائیویٹ اسکول کی ٹیچر ترپتا تیاگی اپنی کلاس کے بچوں کو ایک ایک کرکے آٹھ سالہ مسلم طالبعلم کو تھپڑ مارنے کی ہدایت کرتی نظر آرہی تھیں۔
چالیس سیکنڈ کے اس ویڈیو میں بچے متاثرہ طالبعلم کو مارتے ہیں اور ٹیچر ان کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہیں۔ ویڈیو میں بچہ رو رہا ہے اورٹیچر کے کہنے پر ساتھی طالبعلم اسے تھپڑ مار رہے ہیں۔
یہ واقعہ ایک نجی اسکول نہا پبلک اسکول میں پیش آیا تھا، جو مظفر نگر کے منصور پور تھانہ حلقہ کے قریب کھبا پور گاؤں میں واقع ہے۔
ویڈیو سامنے آنے کے بعد 25 اگست کی شام کو نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے صدر پریانک کانون گو نے سوشل میڈیا صارفین سے مذکورہ واقعے کا ویڈیو شیئر نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ این سی پی سی آر نے کہا تھا کہ وہ ایسا یہ اس لیے کہہ رہا ہے کہ بچے کی شناخت ظاہر کرنا جرم ہے۔
ٹیچر ترپتا تیاگی کے خلاف آخر کاربچے کے والدین کی شکایت پر سنیچر (26 اگست) کو ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس سے ایک دن پہلے انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو مزید آگے نہیں بڑھانا چاہتے ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)