اتر پردیش حکومت نے اے ٹی ایس اور پولیس کو مذہب تبدیل کروانے والےملزمین کے مالی لین دین کی جانچ کرنے اور ان کی ملکیت کوضبط کرنے کی ہدایت دی ہے۔
نئی دہلی: اتر پردیش حکومت نے منگل کو صوبے کےانسداد دہشت گردی کی پولیس(اے ٹی ایس) اور پولیس کو ہدایت دی کہ وہ مذہب تبدیل کروانے میں شامل لوگوں کی پہچان کرکے ان پر قومی سلامتی ایکٹ(این ایس اے)اور اتر پردیش غنڈہ اورسماج مخالف سرگرمیوں (ممنوعہ)سے متعلق ایکٹ کے تحت معاملہ درج کرنے کو کہا ہے۔
ایک دن پہلے ہی اتر پردیش اے ٹی ایس نےمبینہ طور پر ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کامذہب تبدیل کرواکراسلام قبول کروانے کے لیے دو لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سرکار نے پولیس کوملزم کے مالی لین دین کی جانچ کرنے اور ان کی ملکیت ضبط کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔
بتادیں کہ اے ٹی ایس نے سوموار کو مفتی قاضی جہانگیر قاسمی اور محمد عمر گوتم کو مذہب تبدیل کروانےکے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر اور ان کے معاونین پر اسلامی دعوۃ سینٹر(آئی ڈی سی)چلانے کاالزام ہے۔آئی ڈی سی پر مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر مذہب تبدیل کروانے کاالزام ہے۔ عمر گوتم نے مبینہ طور پر 1980 کی دہائی میں اسلام اپنا لیا تھا۔
گرفتار کیے گئے ملزمین کو منگل کو لکھنؤ کی مقامی عدالت کے سامنےپیش کیا گیا تھا۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل لاء اینڈ آرڈر پرشانت کمار نے کہا، ‘عدالت نے ملزمین کو سات دنوں کی پولیس حراست میں بھیج دیا۔ ہم ابھی بھی ان کے معاونین کو گرفتار کرنے کے لیے ان کا پتہ لاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’انہوں نے کہا کہ گرفتار کیے گئے لوگ خواتین ،بےروزگاروں، غریب اور جسمانی طور پر معذور لوگوں کو نشانہ بناتے تھے۔
کمار نے کہا کہ پولیس ملزمین کے خلاف غنڈہ ایکٹ اور این ایس اے لگانے کی جانچ کرےگی۔اس سے پہلے سرکار نے پولیس کو ان لوگوں کا پتہ لگانے کو کہا تھا، جو مبینہ طور پر لوگوں کودوسرے مذاہب میں شامل کراتے ہیں۔
دریں اثنا بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق،محمد عمر گوتم ہندو خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور 1984 میں انہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔رپورٹ کے مطابق،یوپی پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ مذہبی رہنما مختلف ممالک سے فنڈز لیتے تھے اور یہ سب ایک بڑی سازش کے تحت کیا جا رہا تھا۔
اتر پردیش کے اے ٹی ایس کے سربراہ جی کے گوسوامی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گرفتار کیے جانے والے مذہبی رہنماؤں نے بہت ساری ہندو لڑکیوں کی تبدیلی مذہب کروا کے اُن کی شادی بھی کرائی ہے۔ ہم ان کے ٹھکانے سے ملنے والے دستاویزات کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔ اب تک ہمارے پاس ایسی 100 سے زیادہ لڑکیوں کے بارے میں معلومات موجود ہیں جن کا مذہب تبدیل کیا گیا ہے۔‘