اترپردیش کے علی گڑھ میں 18 جون کی رات ایک مسلمان شخص کو مقامی لوگوں کی بھیڑ نے چوری کے شبہ میں پیٹا تھا، جس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔ اب پولیس نے مقتول کے خلاف ڈکیتی اور ایک خاتون پر حملہ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی ہے۔
نئی دہلی: اترپردیش کے علی گڑھ شہر میں ہندوؤں کی ایک بھیڑ کے ذریعے ایک مسلمان شخص کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیے جانے کے گیارہ دن بعد، اس کے بھائی اور پانچ دیگر کے خلاف ڈکیتی اور ایک خاتون پر حملہ کرنے اور اس کی غیرت کو مجروح کرنے کے الزام میں کیس درج کیا گیا ہے۔
بتادیں کہ35 سالہ اورنگ زیب عرف فرید 18 جون کی رات مقامی لوگوں کے حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ پولیس کے مطابق، ایک ہندو تاجر کے گھر میں چوری کی کوشش کے شبہ میں ان پر حملہ کیا گیا۔
ان کی موت کے گیارہ دن بعد29 جون کو اورنگ زیب اور دیگر چھ مسلمان مردوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 354 (کسی خاتون کی غیرت کو مجروح کرنے کے ارادے سے حملہ کرنا) اور 395 (ڈکیتی) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔
ایف آئی آر ایک خاتون لکشمی رانی متل کی شکایت پر درج کی گئی ہے، جنہوں نے الزام لگایا ہے کہ اورنگ زیب اور اس کے ساتھیوں نے واقعہ کے دن اس کے گھر پر ڈکیتی کی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈکیتی کے بعد گھر سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران سیڑھیوں پر پھسلنے کی وجہ سے اورنگ زیب کو چوٹیں آئیں۔
تاہم، ان کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر کی تفصیلات وائرل ویڈیو اور مقتول کے اہل خانہ کی جانب سے کیس میں درج کرائی گئی ایف آئی آر کی بنیاد پر سامنے آئے کیس کے حقائق سے متصادم ہیں ۔
متل کا دعویٰ
متل نے دی وائر کو بتایا کہ رات تقریباً 10.15 بجےپانچ سے چھ لوگوں کا ایک گروپ سیڑھیاں چڑھ کر اس کے گھر میں داخل ہوا، ان میں سے ایک کے پاس غیر قانونی دیسی پستول تھا اور دو اور لوگوں کے پاس چاقو تھے۔
متل کے مطابق، ‘بندوق کی نوک پر انہوں نے سونے کا ہار لوٹ لیا جو میں نے پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے شور مچانے کی کوشش کی تو وہ مجھے گولی مار دیں گے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملزمین میں سے ایک نے غیر مہذب طریقے سے ان کے سینے پر ہاتھ رکھا تھا۔
متل نے دعویٰ کیا کہ لٹیروں نے انہیں 2.5 لاکھ روپے نقد اور الماری میں رکھے کچھ سونے اور چاندی کے زیورات دینے پر مجبور کیا۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ باہر لوگوں کی آوازیں سن کر چار ملزمین پکڑے جانے کے خوف سے لوٹا ہوا سامان لے کر بھاگ گئے، جبکہ ایک لٹیرا فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے سیڑھیوں سے پھسل گیا اور اس کے سر اور ہاتھ پیر میں چوٹیں آئیں۔
‘اورنگ زیب نے اپنی پہچان بتائی’
متل نے کہا کہ مدد کے لیے اس کی چیخیں سن کر کچھ مقامی لوگوں نے اس شخص کو پکڑ لیا اور اس نے اپنا نام اورنگ زیب بتایا۔ متل کی ایف آئی آر کے مطابق، اورنگ زیب نے مبینہ طور پر مقامی لوگوں کو اپنے ساتھیوں کے بارے میں بتایا، جو بھاگ گئے تھے۔
ایف آئی آر میں نامزد لوگوں میں اورنگ زیب، سلمان، اورنگ زیب کے بھائی محمد ذکی، اکبر، نواب، شمیم، آشو پان والے کا لڑکا اور دو دیگر تھے۔
ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کی وضاحت کرتے ہوئے متل نے کہا کہ واقعہ کے دن ہنگامہ آرائی کی وجہ سے وہ پولیس اسٹیشن نہیں جاسکی۔ اپنی ایف آئی آر میں انہوں نے مزید کہا ہے کہ مقامی پولیس اسٹیشن نے ان کی شکایت درج نہیں کی، جس کے بعد انہیں اپنی شکایت ایس پی، علی گڑھ کو دینی پڑی۔
متل نے مزید بتایا کہ اورنگ زیب کو مقامی لوگوں کےذریعے پکڑےجانے کے بعد مندر سے لوٹے ان کے سسر نے 112 نمبر ڈائل کیا، جس کے بعد پولیس موقع پر پہنچی اور زخمی اورنگ زیب کو اپنے ساتھ لے گئی۔
گاندھی پارک تھانے کے انچارج ایس پی سنگھ نے دی وائر سے تصدیق کی کہ متل کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
اورنگ زیب کے بھائی محمد ذکی کی شکایت پر18 جون کو 10 افراد (تمام ہندو) اور 10-12 دیگر نامعلوم افراد کے خلاف قتل، غیر قانونی اجتماع، مہلک ہتھیار سے ہنگامہ آرائی، غلط طریقے سے روکنا، یکساں ارادے سے کیا گیا جرم اور تشدد کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اپنی ایف آئی آر میں ذکی نے کہا تھا کہ حملہ آوروں نے ان کے بھائی کی شناخت ایک مسلمان شخص کے طور پر کی تھی۔ قتل کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں علی گڑھ کے ایک علاقے کے ایک چھوٹے سے چوراہے پر اورنگ زیب کو گھیرے میں لے کر لاٹھیوں سے مارنے اور لاتوں اور گھونسوں سے حملہ کرنے کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا تھا۔
ذکی کی شکایت پر گاندھی پارک پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر کے مطابق، اورنگ زیب 18 جون کی رات تقریباً 10 بج کر 15 منٹ پر روٹیاں بنا کر واپس آرہا تھا، جب مامو بھانجہ علاقےمیں ایک گلی کے قریب اس کی کچھ مقامی لوگوں سے جھڑپ ہوئی۔ ذکی نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ اس کے مسلمان ہونے کا علم ہونے کے بعد ‘انہوں نے اسے قتل کرنے کی نیت سے حملہ کیا’۔
انہوں نے اسے ‘ماب لنچنگ’ کا معاملہ قرار دیا۔ اورنگ زیب کے قتل کے ملزمین کی شناخت انکت وارشنے، چراغ وارشنے، سنجے وارشنے، رشبھ پاٹھک، انج اگروال، مونو پاٹھک، پنڈت وجئے گڑھ والا، کمل بنسل، ڈمپی اگروال اور راہل اگروال کے طور پر کی گئی ہے۔
دوسری جانب مقامی بی جے پی ایم ایل اے مکتا راجہ نے قتل کیس میں گرفتار لوگوں کی حمایت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں پھنسایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد اس واقعہ نے فرقہ وارانہ اور سیاسی رخ اختیار کر لیا ہے۔
غورطلب ہے کہ19 جون کو ہندو برادری کے کارکنوں اور تاجروں نے راجہ کی قیادت میں قتل کے ملزمین کے خلاف پولیس کارروائی کے خلاف احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ مزید گرفتاریاں نہ کی جائیں۔
دونوں برادریوں کے سڑکوں پر آنے سے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی، تاہم تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔