اتر پردیش پولیس نےبجنور کے نہٹور، نجیب آباد اور نگینہ میں تشدد میں شامل ہونے کا الزام لگاتے ہوئے100 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور کئی ایف آئی آر درج کی تھیں۔
نئی دہلی: پچھلے مہینےہوئے شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)مخالف مظاہرہ کے دوران فساد کرانے اور قتل کی کوشش کے دو ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے اتر پردیش کے بجنور کی ایک سیشن عدالت نےپولیس کے دعووں کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی ثبوت نہیں دکھایا جس سے پتہ چلے کہ ملزم گولی باری یا آگ زنی میں ملوث تھے یا پولیس نے ملزمین سے کوئی ہتھیار ضبط کیا ہو یا کوئی پولیس اہلکار گولی سے زخمی ہوا ہو۔بتا دیں کہ، سی اے اےمخالف مظاہرہ کے دوران بجنور اتر پردیش میں سب سے بری طرح سے متاثرہ ا ضلاع میں سےایک تھا۔
انڈین ایکسپریس کےمطابق، اس کو عدالت سے ملے دستاویز دکھاتے ہیں کہ ایڈیشنل سیشن جج سنجیو پانڈے 24جنوری کے ضمانتی حکم میں پولیس نے جو دعوے کئے تھے ان میں سنگین خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔انہوں نے کہا، معاملے کی خوبی-خرابی پر کوئی رائے بنائے بنا میرے خیال سے حالات اور جرائم کودیکھتے ہوئے ملزم کو ضمانت دی جانی چاہیے۔
ضمانتی حکم میں کئےگئے تبصرے اہم ہیں کیونکہ بجنور پولیس نے بجنور کے نہٹور، نجیب آباد اور نگینہ میں تشدد میں شامل ہونے کا الزام لگاتے ہوئے 100 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا تھااور کئی ایف آئی آر درج کی تھیں۔پولیس نے یہ بھی ماناتھا کہ یو پی ایس سی کی تیاری کرنے والے 20 سالہ محمد سلیمان کو ان کے کانسٹبل موہت کمار نےاپنی دفاع میں گولی ماری تھی۔ حالانکہ، سلیمان کے پاس سے کوئیہ تھیار بر آمد نہیں ہوا تھا۔ اس معاملے میں سلیمان کی فیملی نے چھ پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
24 جنوری کے ضمانتی حکم نجیب آبادپولیس اسٹیشن میں شفیق احمد اور عمران کے خلاف درج ایف آئی آر، قتل اور قتل کی کوشش سے متعلق ہے۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ہمیں جانکاری ملی کہ سی اے اے-این آرسی کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے جلال آباد کے 100-150 لوگوں نے این ایچ-74 پرجام لگا دیا تھا بھیڑ کی قیادت شفیق احمد اور عمران نے کی۔ پولیس نے بھیڑ کوسمجھایا۔ حالانکہ، بھیڑ نے مارنے کی دھمکی دی اور قومی شاہراہ پر بیٹھ گئی۔ عمران کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا اور دیگر ملزمین بھاگ گئے۔
عدالت کے ریکارڈ کےمطابق، پولیس نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 20 دسمبر کو مظاہرین کو منضبط کرنے کے لئے’ کم از کم طاقت ‘ کا استعمال کیا۔استغاثہ کی دلیل کو درج کرتے ہوئے عدالت نے کہا، ‘ استغاثہ نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ ملزم کا نام ایف آئی آر میں لیا گیا ہے۔ بھیڑ سے گولی باری اور پتھراؤہوا جس کی وجہ سے پولیس افسر زخمی ہو گئے۔ بھیڑ کو منضبط کرنے کے لئے پولیس نے کم از کم طاقت کا استعمال کیا۔ پولیس نے موقع سےاشاریہ315 گولیاں بھی ضبط کیں۔ ملزم سنگین الزامات کا سامنا کر رہا ہے اور ضمانت عرضی کو خارج کرنا پڑتا ہے۔
اس کے بعد حکم میں پولیس کے دعووں میں پائی گئی خامیوں کو درج کیا گیا ہے، ‘ میں نے دونوں فریق کی دلیلیں سنی ہیں اور کیس ڈائری کا بھی مشاہدہ کیا ہے ایف آئی آر میں نامزد عمران کو ہی موقع سے گرفتار کیا گیا ہے۔ دیگر کسی بھی ملزم کو موقع سے گرفتار نہیں کیاگیا ہے۔ استغاثہ نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ پولیس افسر پتھراؤ کے دوران زخمی ہوئے تھے۔ پولیس کے ذریعے پیش کئے گئے ثبوتوں پر اس نے کہا، ‘ حالانکہ، استغاثہ کے ذریعے ایسا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملزم افراد نے دکانوں میں توڑپھوڑ کی یا آگ لگا دی پولیس نے دکھایا ہے کہ اس نے315 بور کی گولیاں ضبط کی ہیں۔ حالانکہ، اس نےکسی بھی ملزم کے پاس سے کوئی ہتھیار نہیں دکھایا ہے۔
حکم میں کہا گیا، ‘استغاثہ کے مطابق، کسی بھی پولیس افسر کو کوئی گولی نہیں لگی ہے۔ اس سے پتہ چلا ہے کہ پتھراؤ کی وجہ سے پولیس افسروں کو چوٹیں آئی ہیں۔ حالانکہ، ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جو یہ ثابت کرتا ہو کہ کسی کو سنگین چوٹیں آئی ہیں۔بتا دیں کہ، گزشتہ 20 دسمبر کو ہوئےتشدد میں پولیس نے کم سے کم 26 لوگوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ اس میں 20 پولیس والے ہیں۔ وہیں، سلیمان اور 21 سالہ انس کی موت ہو گئی تھی۔
پولیس نے جن 20 لوگوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، اس میں موہت کمار کے ساتھ تین دوسرے پولیس والوں کے گولیوں سےزخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس میں نہٹور پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او راجیش سنگھ سولنکی بھی شامل تھے۔20 دسمبر کے اس معاملے میں نہٹور پولیس اسٹیشن نے 35 نامزد کے ساتھ کئی نامعلوم لوگوں کے خلاف تین ایف آئی آر درج کی تھیں۔