علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ شرجیل عثمانی کے اہل خانہ نے کہا کہ اعظم گڑھ میں ان کے گھر سے انہیں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے اس بارے میں کوئی رسمی اعلان نہیں کیا، لیکن اے ایس پی(کرائم)نے ایک اخبار کو بتایا کہ یہ گرفتاری لکھنؤ اے ٹی ایس نے پچھلے سال دسمبر میں درج ہوئے ایک معاملے میں کی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ لیڈر شرجیل عثمانی۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)
نئی دہلی: پچھلے سال دسمبر میں اتر پردیش میں سی اے اے مخالف مظاہرہ سے جڑے معاملے میں اتر پردیش پولیس نے بدھ کی شام کوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک اسٹوڈنٹ لیڈر شرجیل عثمانی کو اعظم گڑھ میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا۔
ان کے اہل خانہ کے مطابق، عثمانی کو اعظم گڑھ کے سدھاری واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔
ان کے بھائی نے بتایا کہ شام کو لگ بھگ 5 بجے عثمانی کے گھر کرائم برانچ کے افسر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے پانچ لوگ سادے کپڑوں میں آئے تھے۔وہاں آنے کی وجہ پوچھے جانے میں پر ان میں سے ایک نے کہا تھا، ‘تمہیں جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ شرجیل کو پتہ ہے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔’
عثمانی کے بھائی اریب نے بتایا،‘بنا اپنی پہچان ظاہر کیے انہوں نے شرجیل کا کمرہ دیکھنےکامطالبہ کیا۔ انہوں نے اس کا لیپ ٹاپ، تمام کتابیں اور کپڑوں کو ضبط کر لیا۔ ہم سبھی کو کھڑا کراکر اس کے ساتھ ہمارے رشتےکو بتاتے ہوئے تصویریں لی گئیں۔’انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی خاتون رشتہ داروں کی موجودگی کے باوجود وہ بنا کسی خاتون پولیس افسر کے آئے تھے، جنہیں سبھی کے ساتھ فوٹو کھنچوانا پڑا۔
شرجیل کے والد طارق عثمانی نے کہا، ‘میں ماننے سے انکار کرتا ہوں کہ یہ گرفتاری ہے۔ انہوں نے ہمیں نہیں بتایا کہ کیا الزام لگا رہے ہیں اور انہوں نے ہمیں اس سے کوئی بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔’شرجیل کی ماں سیما عثمانی نے روتے ہوئے بتایا، ‘ماں ہونے اور سب سے زیادہ ایک شہری ہونے کی وجہ سےہمارا جاننے کا حق ہے۔’
حالانکہ پولیس کی جانب سے گرفتاری کو لے کر کوئی رسمی اعلان نہیں کیاگیا ہے۔
امر اجالا کے مطابق،ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس(کرائم) ارویند کمار نے کہا کہ گرفتاری لکھنؤ پولیس کے اے ٹی ایس نے کی ہے اور یہ معاملہ پچھلے سال دسمبر میں درج کیس سے جڑا ہے۔عثمانی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اے ایم یو کے کیمپس میں سی اے اے-این آرسی-این پی آر کے خلاف مظاہرے کی قیادت کی تھی۔
پولیس نے الزام لگایا تھا کہ طلبا نے پتھر پھینکے تھے اور ہٹنے سے انکار کر دیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس دوران 19 پولیس والے زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت سے کیمپس کے اندر گھسے تھے۔حالانکہ،طلبا نے پولیس کے دعوے کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس نے کیمپس میں زبردستی گھس کر ان پر حملہ کیا تھا۔
سماجی کارکن ہرش مندر اور پروفیسر چمن لال کی قیادت والی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے طلبا کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس پر بربریت کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا انہوں نے بالخصوص میرسن بوائزہاسٹل کے اندر طلبا کو بری طرح پیٹا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ اس دوران کم سے کم 100طلبا زخمی ہوئے تھے جس میں سے 20 اسٹوڈنٹ شدید طور پرزخمی ہو گئے تھے۔ اس معاملے میں پولیس نے عثمانی اور کئی دیگر موجودہ اورسابق اے ایم یو طلباکے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔
ان پر آئی پی سی کی دفعہ307 (قتل کی کوشش)، 147(فساد)، 148، 149، 153، 188، 189، 332، 336، 504 کے ساتھ مجرمانہ قانون (ترمیم) ایکٹ کی دفعہ7 اورپبلک پراپرٹی ایکٹ کو نقصان کی روک تھام کی دفعہ3 کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔حال ہی میں پولیس نے اس معاملے میں چارج شیٹ داخل کی ہے جس کا مطلب ہے کہ اب معاملے کی شنوائی شروع ہوگی۔
اپنی گرفتاری کے پہلے عثمانی؛ شرجیل امام، صفورہ زرگر، عمر خالد، آصف اقبال تنہا، چندرشیکھر راون اور میران حیدر سمیت دیگرسی اے اےمخالف کارکنوں اور طلباکی گرفتاری کے خلاف آواز اٹھاتے رہے تھے، جنہیں این ایس اے، یو اے پی اے، غنڈہ ایکٹ کی مختلف دفعات اورسیڈیشن(آئی پی سی کی دفعہ124اے)کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
عثمانی فرسٹ پوسٹ، ڈیلی او اور نیوزلانڈری جیسی نیوز ویب سائٹس پر مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔