انصاف کا اصول ہے کہ ،سو مجرم بھلے ہی چھوٹ جائیں، لیکن ایک بھی بے قصور نہ پکڑا جائے، لیکن الہ آباد کے اٹالہ میں پتھر بازی کے بعد بڑے پیمانے پر کی گئی گرفتاریوں میں انصاف کے اس اصول کو الٹ دیا گیا ہے۔
الہ آباد کا اٹالہ انتہائی مصروف اور گنجان آبادی والا علاقہ ہے۔ اٹالہ چوراہے پر بہت سارے ہوٹل اور ریستوراں ہونے کی وجہ سے رات 12-1 بجے تک رونق رہتی ہے۔ 11 جون 2022 کے بعد سے یہ علاقہ ویران پڑا ہے۔ ہوٹل اور ریستوراں خالی پڑے ہیں۔ اسٹیشن سے مسلسل یہاں آنے والے مسافروں کے پہیے رک گئے ہیں، رکشہ اور آٹو والے یہاں آنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔
یہی نہیں اٹالہ کی گلیوں سے نوجوان غائب ہو گئے ہیں، ان گلیوں میں آباد گھروں کی غربت کچھ اور بڑھ گئی ہے، بزرگوں اور ماؤں کی بے بسی بڑھ گئی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ان سب کی وجہ بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ نوپور شرما کے 27 مئی کو پیغمبر اسلام کے بارے میں قابل اعتراض بیان اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے 10 جون کو الہ آباد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر مظاہرہ ہوا تھا، پھر پولس کا قہر برپا ہوا اور پورے علاقے کی تصویر ہی بدل گئی۔ (10 جون کو کیا ہوا اور کیسے ہوا، اس سلسلے میں انسانی حقوق کی تنظیم پی یو سی ایل نے 26 جولائی کو ایک رپورٹ جاری کی ہے۔)
اس واقعے کے اگلے ہی دن پولیس نے سادہ وردی میں اٹالہ کی شمالی گلیوں اور جنوب کی جانب اکبر پور میں جس طرح کا ‘کریک ڈاؤن’ کیا ، اس کو سن کر لگتا ہے کہ ہم کشمیر یا بستر کی کہانی سن رہے ہوں۔ پولیس کی اسپیشل ٹیم نے صبح پانچ بجے غربت کی ماری ان تنگ گلیوں میں حملہ کیا۔ وہ ہر ممکن اور نا ممکن راستوں سے لوگوں کے گھروں میں داخل ہوئی اور جتنے بھی نوجوان انہیں ملے سب کو پکڑ کر لے گئی۔
یہ سب اس لیے ہوا کہ 11 تاریخ کی ہی صبح میں 3 بج کر 11 منٹ پر 70 معلوم اور 5000 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر لکھی گئی۔ اب انہیں کم از کم 500 لوگوں کوتو گرفتار کرنا ہی تھا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس ‘ہدف ‘ کو پورا کرنے کے لیے پولیس نے راہ چلتے،گرمی سے بے حال ہو کر گھر کے باہر سوتے، 10 جون کے واقعے سے دہشت زدہ دکانوں کے شٹرگرا کر اندر سوئے ہوئے لوگوں کو گرفتار کرکے لے گئی۔گرفتار کیے گئے زیادہ تر افراد کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہے۔
اٹالہ کی شمالی گلیوں میں داخل ہوتے ہی پرانے گوشت اور چربی کی بدبو آنے لگتی ہے کیونکہ ان گلیوں میں رہنے والوں کا بنیادی کاروبار گوشت کا ہی تھا۔ لیکن آدتیہ ناتھ کی حکومت کی جانب سےچھوٹے مذبح خانوں پر پابندی لگانے کے بعد سے یہ سبھی بے روزگار ہو گئے اور یہ گلیاں اور بھی زیادہ غربت کے اندھیرے میں ڈوب گئی ہیں۔
اب گھر کا ہر فرد کمانے کے قابل ہوتے ہی کما کر گھر کے اخراجات میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتا ہے، تب گھر پورے مہینےکسی طرح چل پاتا ہے۔ کمانے کے قابل ہونے کی عمر بھی یہاں 18 سے نہیں 10-12 سال سے شروع ہوتی ہے۔ 11 جون کے ‘کریک ڈاؤن’ میں ان گھرانوں کے کمانے والوں کونکال کر جیلوں میں ڈال دیا گیا، جو بچ بھی گئے ان نوجوانوں کو گرفتاری کے خوف سے دوسرے شہروں میں رشتہ داروں کے یہاں یا باہر کمانے کے لیے بھیج دیا گیا۔
پہلے سے باہر گئے لڑکوں کو کہہ دیا گیا کہ لوٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اٹالے کی گلیاں نوجوانوں سے خالی ہو گئی ہیں۔ گلیاں ہی نہیں، اٹالے چوراہے کے جنوبی کونے پر واقع مجیدیہ اسلامیہ کالج کی ٹیچر کا دعویٰ ہے کہ اس سال جولائی میں کالج میں نئے داخلے نہیں ہو رہے ، کیونکہ لڑکے ہیں ہی نہیں۔
کون ہیں یہ نوجوان
ان نوجوانوں کے گھروں میں ہم جیسے لوگوں سے بات کرنے والے بزرگ اور مقدموں کی پیروی کے لیے دوڑتی بھاگتی خواتین رہ گئی ہیں۔آئیےگرفتار کیے گئے نوجوانوں کے گھر کی مالی حالت کے بارے میں جانتے ہیں-
محمد التمش کی عمر 19 سال ہے۔ کسی ایف آئی آر میں یہ نامزد نہیں ہیں۔ اٹالہ سے ملحق اکبر پور مارکیٹ میں ان کے والد کی چائے کی دکان ہے، 11 جون کو وہ اپنے والد کی چائے کی دکان پر ان کی مدد کر رہے تھے، جب دن کے 3 بجے پولیس نے پہلے ان کے والد کو پکڑا، پھر انہیں چھوڑ کر التمش کو پکڑ کر لے گئے۔
سولہ سال کے وارث خان کا نام بھی کسی ایف آئی آر میں نہیں ہے۔ بہن نیلو نے بتایا کہ اسے پب جی کھیلنے کی لت ہے۔ 11 جون کو دوپہر 2.30 بجے گھر کے سامنے سےاس وقت پکڑلیا جب وہ فون پر پب جی کھیلتے ہوئے پان والے کو پانی دینے جا رہا تھا۔ وارث خان چوک میں کاسمیٹک کی دکان پر 10 سال کی عمر سےبیٹھتا ہے، کیونکہ اس کے والد اس کی ماں کے ساتھ نہیں رہتے ۔ ماں کا چھوٹا سا جنرل اسٹور ہے۔ 21 سالہ بہن نیلو کو طلاق ہو چکی ہے، ان کی ایک تین سالہ بچی ہے اور وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ ایک اور چھوٹا بھائی ہے، جو ابھی کسی کام میں نہیں لگا ہے۔ وارث کے مقدمے کی پیروی اس کی بہن نیلو ہی کر رہی ہیں۔
ایک ہی گھر کے دو بھائیوں حمزہ اور حذیفہ کو 11 جون کو 4 بجے کے قریب گھر سے ہی سادہ وری والوں نےپکڑا۔ ان دونوں کا نام بھی کسی ایف آئی آر میں نہیں ہے۔ حمزہ کی عمر 23 سال اور حذیفہ کی عمر 17 سال ہے۔ حمزہ روشن باغ میں ایک اسٹال پر کام کرتے ہیں۔ حذیفہ سلائی کا کام کرتے ہیں۔
والد گلشن نے بتایا کہ حذیفہ رات کو سلائی کرتا ہے، دن بھر سوتا ہے، وہ کہیں نکلتا ہی نہیں۔ ان دونوں کی کمائی سے گھر چلتا ہے، کیونکہ باپ کی ٹانگ کی ہڈی گل گئی ہے اور وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ سب بتاتے ہوئے گلشن کے سینے میں درد ہونے لگا اور انہوں نے بات کرنا بند کر دیا۔
تیس سالہ فرقان بھی نامزد ملزم نہیں ہیں، وہ بھی سلائی کا کام کرتے ہیں۔ صبح 5 بجے ان کو اس وقت پکڑا گیا جب وہ اپنی ٹیلرنگ شاپ سےکسی گراہک کو ارجنٹ کپڑا دینے جا رہے تھے۔ ان کے کیس کی پیروی میں لگے ان کے بھائی سلمان نخاس کونا میں چپل بیچتے ہیں۔
اکبر پور میں رہنے والے فیض خان کو 10 جون کو ہی شام 4 بجے کے قریب گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کا نام ایف آئی آر نمبر 118/22 اور 176/22 دونوں میں درج ہے۔ ان کی اہلیہ خورشیدہ نے بتایا کہ وہ ان کی دوا لینے باہر گئے تھے۔ دیرہونے پر جب خورشیدہ نے فون کیا تو پولیس والےنے فون اٹھایا اور بتایا کہ فیض کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ ہسپتال میں ہے۔
فیض الیکٹریشن کا کام کرتے تھے۔ فیض کے گھر میں بیوی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ بیوی اپنی بہن کے گھر پر رہ رہی ہے، جیل جانے کے ڈیڑھ مہینے بعد تک بھی دونوں کی ملاقات نہیں ہوسکی ہے، کیونکہ فیض کو نوئیڈا جیل بھیج دیا گیا ہے۔ خورشیدہ کے مطابق، ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ فیض سے ملنے اتنی دور جا ئیں۔
اٹالہ چوراہے کے قریب فرنیچر کی دکان کے مالک شاہنواز شام 6 بجے اپنے خوفزدہ کاریگرکو موٹرسائیکل پر گھر چھوڑنے جا رہے تھے، دونوں کو شوکت علی مارگ پر واقع قادر سویٹ ہاؤس کے سامنے روک کرگرفتار کر لیا گیا۔ کاریگر پرویز کو فتح گڑھ جیل بھیج دیا گیا۔ یہ دونوں ایف آئی آر نمبر 118/22 میں نامزد ہیں۔
کلو کباب پراٹھا کی دکان میں کام کرنے والے 3 مزدوروں کو پولیس نے 11 جون کواٹھالیا، جو شٹر ڈاؤن کر کے سو رہے تھے۔
بتایا گیا کہ اٹالہ کے شمال میں کاکا کھیت والی گلی کےایک مکان میں پولیس اہلکار سادہ وردی میں داخل ہوئے اور سوئے ہوئے محمد عارف کو بالوں سے کھینچ کراٹھایا، دروازے سے عنایت علی اور غلام غوث کوپکڑ ا۔ محمد عارف بھی ٹیلرنگ کا کام کرتے ہیں اور نامزد ملزم ہیں۔ انہیں جھانسی جیل بھیج دیا گیا۔ غلام غوث کی 85 سالہ والدہ نے اپنے بیٹے کے غم میں کھانا پینا ترک کردیا ہے۔
کاکا کھیت والی اس گلی میں مسجد کے قریب واقع گھر کے باہر کھڑے 17 سالہ محمد عظیم کو پکڑلیا۔ عظیم بیکری میں کام کرتے تھے اور گھر میں اکیلے وہی کمانے والے ہیں۔ گھر میں باپ نہیں ہے، ایک شادی شدہ بہن ہے، جو ان دنوں مقدمے کی پیروی کے لیے یہاں رہ رہی ہے۔
اسی گلی میں 22 سالہ فیصل 11 تاریخ کو نماز کے بعد مسجد سےلوٹ رہے تھے، جب انہیں اٹھالیا گیااور پہلے سے تیار کھڑی گاڑی میں بٹھا لیا گیا۔ فیصل کیس نمبر 118/22 میں نامزد ہیں۔ وہ لکشمن مارکیٹ میں موبائل کی دکان پر بیٹھتے ہیں۔
فالج کی وجہ سے فیصل کے والد چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ فیصل کے جیل جانے کے بعد ان کی والدہ سوشل مانیٹرنگ والے ایک گروپ کی رکن بن گئی ہیں، تاکہ آمدنی ہوتی رہے۔ مقدمے کی پیروی بھی والدہ ہی کر رہی ہیں۔
ان نوجوانوں کا مستقبل کیا ہے
سو سے زائد گرفتاریوں میں سے یہ چند لوگوں کی معاشی حالت کا بیان ہے۔ ایسے لاتعداد بیان اس پورے علاقے میں بند ہیں، جن کو درج کیا جانا ابھی باقی ہے۔ ان کو ریکارڈ کر کے پولیس کی کہانی کی حقیقت تک بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
جب یہ رپورٹ لکھی جا رہی ہے، چھتیس گڑھ میں برکاپال میں ماؤنوازوں کے حملے میں 112 آدی واسیوں کی جیل سےکی رہائی کے بعد کی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ یو اے پی اے کے یہ تمام ملزم 5 سال بعد مقدمے سے بری ہونے کے بعد اپنے گاؤں لوٹے ہیں۔
گاؤں میں جہاں ان کا کچھ نہیں بچا۔ مقدمہ لڑتے لڑتے کھیت کھلیان-جانور سب کچھ لٹ گیا۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ اپنے بیوی، بچوں، والدین سے بھی دور ہو گئے، اپنی صحت بھی کھو بیٹھے۔ پانچ سال جیل میں ان کی زندگی ٹھہری رہی اور دنیا بہت آگے نکل گئی۔ عدالت نے انہیں بری تو کر دیا، لیکن پانچ سال کا وقت نہیں لوٹا سکا۔
برکاپال مقدمے سے اٹالہ پتھر بازی کا مقدمہ ان معنوں میں ایک جیسا ہے کہ اس معاملے میں بھی کسی فرد پر مرکوز کوئی الزام نہیں ہے، تمام الزامات بھیڑ پر ہیں۔بھیڑ نے پتھراؤ کیا اور پولیس نے بغیر کسی تفتیش کے رینڈم طریقے سےکسی کو بھی اٹھا لیا، کیونکہ اسے برکاپال کی طرح ہی اپنی ساکھ بچانے کے لیےگرفتاریاں کرنی تھیں۔
افسوس کہ برکاپال جیسے تمام معاملات کبھی پولیس یا عدالت کے لیے کبھی سبق نہیں بنتے، جس میں خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں گرفتار شخص کا ہی نہیں، بلکہ اس سے جڑے تمام لوگوں کا پورا خاندانی مالیاتی ڈھانچہ تباہ ہو جاتا ہے۔
انصاف کا یہ اصول بھی ہے کہ ،سو مجرم بھلے چھوٹ جائیں، لیکن ایک بھی بے گناہ نہیں پکڑا جانا چاہیے، لیکن برکاپال کی طرح ہی اٹالہ پتھربازی کے بعدبڑے پیمانے پر ہوئی گرفتاریوں میں انصاف کے اس اصول کو ہی الٹ دیا گیا ہے۔
(سیما آزاد سماجی کارکن ہیں۔)