پاکستان نے ہندوستان کے ذریعے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کو ایک طرفہ اور غیر قانونی کہتے ہوئے اس کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں لے جانے کی بات کہی تھی، جس پر یو این جنرل سکریٹری نے 1972 میں ہوئے شملہ سمجھوتہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر مسئلے میں تیسرے فریق کی ثالثی سے انکار کیا گیا ہے۔
نئی دہلی: اقوام متحدہ کے چیف اینٹونیو گٹیریس نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1972 میں ہوئے شملہ سمجھوتہ کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ کشمیر معاملے میں تیسرے فریق کی ثالثی سے انکار کیا گیا ہے۔جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ہٹانے کے ہندوستان کے فیصلے کے بعد پاکستان نے گٹیریس سے مناسب کردار نبھانے کے لئے کہا تھا، جس کے بعد اقوام متحدہ کا یہ بیان آیا ہے۔پاکستان نے ہندوستان کے اس قدم کو ایک طرفہ اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں لے جائےگا۔
گٹیریس کے ترجمان اسٹیفن دُجارک نے نامہ پریس کانفرنس میں کہا کہ جنرل سکریٹری جموں و کشمیر میں صورت حال پر سنجیدگی سے نظر رکھ رہے ہیں اور انہوں نے اس پر زیادہ سے زیادہ صبروتحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔دُجارک نے کہا کہ جنرل سکریٹری نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات پر 1972 میں ہوئے شملہ سمجھوتے کا ذکر کیا جو یہ کہتا ہے کہ جموں و کشمیر پر کوئی بھی حل اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق پر امن طریقے سے نکالا جائےگا۔ اس سے ایک دن پہلے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر ملیہا لودھی نے آرٹیکل 370 ہٹانے کے ہندوستان کے فیصلے بعد جنرل سکریٹری سے اپنے مناسب کردار نبھانے کے لئے کہا تھا۔
جنرل سکریٹری نے کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی کوئی پیشکش نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے شملہ سمجھوتہ کا حوالہ دیا۔گٹیریس نے تمام فریقوں سے ایسے اقدام کو اٹھانے سے بچنے کی بھی اپیل کی ہے جس سے جموں و کشمیر کی صورتِ حال متاثر ہو سکتی ہے۔ان کا یہ تبصرہ پاکستان کے اس فیصلے کے بعد آیا ہے جس میں اس نے ہندوستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو محدود کر دیا اور دو طرفہ کاروبار بھی بند کر دیا۔
کشمیر پر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے: امریکہ
دریں اثناامریکہ نے جمعہ کو کہا کہ کشمیر پر اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس نے ہندوستان اور پاکستان سے امن اور صبروتحمل سے کا م لینے کی اپیل کی ہے۔وزارت خارجہ کےترجمان مورگن اورٹاگرس سے نامہ نگاروں نے یہ پوچھا کہ کیا امریکہ کی کشمیر پر پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی۔امریکہ کی پالیسی یہ رہی ہے کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک دو طرفہ مدعا ہے اور دونوں ممالک کو ہی اس مدعا پر بات چیت کی گنجائش کو لےکر فیصلہ کرنا ہے۔اورٹاگرس نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا،’اگر پالیسی میں کوئی تبدیلی ہوئی تو یقینی طور پر میں یہاں اعلان کروںگی لیکن ایسا نہیں ہے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ کشمیر کو لےکر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرہ کی حمایت کرتا ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا،’ہم نے تمام فریقوں سے امن اور صبروتحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔ ہم امن اور استحکام چاہتے ہیں اور ہم کشمیر اور دیگر متعلقہ مدعوں پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیدھے بات چیت کی حمایت کرتے ہیں۔ ‘
ہندوستان نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو سوموار کو ہٹا دیا اور ریاست کو دو یونین ٹیریٹری ریاستوں جموں و کشمیر اور لداخ میں منقسم کر دیا۔ اورٹاگرس نے کہا کہ امریکہ دونوں جنوب ایشیائی ممالک کے ساتھ قریب سے کام کر رہا ہے۔انہوں نے کہا،’ابھی پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان یہاں آئے تھے لیکن صرف کشمیر کی وجہ سے نہیں۔ یہ یقینی طور پر اہم مدعا ہے اور ہم اس پر قریبی نظر رکھ رہے ہیں۔ ہم نے کئی مدعوں پر ہندوستان کے ساتھ قریب سے کام کیا اور ہم نے پاکستان کے ساتھ بھی قریب سے کام کیا۔ ‘
ترجمان نے کہا کہ امریکہ جموں و کشمیر میں صورت حال پر قریبی نظر بنائے ہوئے ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)