کشمیر میں آرٹیکل 370 کے کئی اہتمام ختم کیے جانے اور ریاست کو 2 یونین ٹیریٹری میں تقسیم کرنے کے فیصلے کے بعداقوام متحدہ کے ترجمان نے اظہار تشویش کیا ہے،لیکن جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق اس متنازعہ ہندوستانی حکومت کے اقدام پر کچھ نہیں کہا۔
نئی دہلی :اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں نافذ تازہ پابندیوں سے وہاں انسانی حقوق کی صورتحال مزید بدترہوگئی ہے۔ٹوئٹر پر اپنے ایک ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا کہ تازہ پابندیوں کے بعد صورتحال نئی سطح پر چلی گئی ہے اور مواصلاتی نظام پر اس قدر مکمل پابندی پہلے نہیں دیکھی گئی تھی۔ ترجمان نے خبردار کیا کہ اس طرح کی پابندیاں لوگوں کو جموں و کشمیر کی مستقل حیثیت پر بات کرنے کے ان کے جمہوری حق سے محروم کرتی ہیں۔
“We are deeply concerned that the latest restrictions in Indian-Administered Kashmir will exacerbate the human rights situation in the region” — @UNHumanRights spokesperson
— United Nations (@UN) August 7, 2019
وادی کشمیر میں پچھلے چار روز سے کرفیو جیسا ماحول ہے اور ہندوستان نے تمام مواصلاتی نظام بند کر رکھا ہے۔ سرکردہ کشمیری رہنما پہلے سے نظربند ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ہندوستانی سکیورٹی فورسز نے اب تک پانچ سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔اپنے مختصر بیان میں انسانی حقوق سے متعلق ادارے کے ترجمان نے کشمیریوں پر عائد پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا البتہ انہوں نے ہندوستان کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے متنازعہ فیصلے پر کچھ نہیں کہا۔
جمعرات کے روز پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے میڈیا بریفنگ میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ہندوستانی حکومت کے ’یک طرفہ اور غیرقانونی‘اقدام کا نوٹس لے۔پاکستان نے گزشتہ روز ہندوستان سے کہا کہ وہ اسلام آباد سے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لے اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ وہ بھی نئی دہلی میں اپنا ہائی کمشنر تعینات نہیں کرے گا۔ پاکستان نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بند کی جا رہی ہے اور باہمی متفقہ معاملات کا ازسر نو جائزہ لیا جائے گا۔ آج پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کی کہ ان اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان کرتارپور راہداری پرجاری کام متاثر نہیں ہوگا۔
جمعرات کے روز ہندوستانی حکومت نے ایک بیان میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ سفارتی تعلقات میں کمی کے اپنے اعلان پر نظر ثانی کرے۔ تاہم ہندوستان نےایک بار پھر کہا کہ جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ نریندر مودی حکومت کا اصرار ہے کہ اس فیصلے سے خطے میں امن و استحکام لانے میں مدد ملے گی۔
ہندوستانی حزب اختلاف نے مودی حکومت کے اس متنازعہ فیصلے کو ایک تاریخی غلطی قرار دیا ہے۔ کشمیر سے متعلق قوانین میں تبدیلی کے حکومتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا ہے۔ حالاں کہ عدالت نے اس پر فوری سماعت سے انکار کر دیا ہے۔
(ڈی ڈبلیو اردو کے ان پٹ کے ساتھ)